یہ سال کا آخری دن بھی بہت عجیب ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک باب ختم ہو رہا ہے اور ایک شروع ہونے والا ہے۔ یہ سب مگر ذہن کے دھوکے ہیں۔ تاریخوں اور کیلنڈر کو نہ دیکھیں تو سال‘ مہینے اور دن‘ سب ایک جیسے لگتے ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے حقوق غصب کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی دوڑ‘ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا جتن‘ جھوٹ‘ دھوکا‘ فریب‘ لالچ اور مکاریوں کا سلسلہ نئے سال میں بھی گزشتہ برس کی طرح چلتا رہتا ہے۔ تو پھر بدلتا کیا ہے؟ ایک ہندسہ؟ اگر ہندسے کے بدلنے سے کچھ ہوتا تو پھر ہر شخص کی زندگی اور حالات بدل جاتے۔ خواہشیں اور خواب اگر ہندسوں کے آگے پیچھے ہونے سے پورے ہو سکتے تو ہر نئے سال میں لوگ خوش حال ہو جاتے‘ مسائل اور مشکلات حل ہو جاتیں۔
نئے سال کے آغاز پر ہر کوئی خواہش کرتا ہے کہ اس کی زندگی تبدیل ہو جائے لیکن ان خواہشوں کا زیادہ تر تعلق مادی خواہشات کی تکمیل سے ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ نئے سال میں وہ جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے سے باز آ جائیں۔ بہت کم لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ ان کے اندر کا انسان بدل جائے۔ ان کی سوچ میں بہتری آ جائے یا ان کی اخلاقیات اور دوسروں سے لین دین کے معاملات بہتر ہو جائیں۔ ایسا کوئی نہیں سوچتا یا بہت کم لوگ اس بارے میں کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کے اختتام پر جو سبق ملتے ہیں‘ ان کے مطابق انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیسے اپنے باطن کو برائیوں سے پاک کر سکتا ہے۔ انسان کو سوچنا چاہیے کہ اسے بہت زیادہ حرص اور مال و دولت کی تمنا نہیں رکھنی چاہیے کہ انسان کی اصل دولت اس کا دلی سکون ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ جو دور چل رہا ہے‘ اگر اس میں کوئی شخص رات کو بغیر نیند کی گولیاں کھائے سو جاتا ہے‘ اگر وہ دوستوں‘ یاروں کی محفلوں اور ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے اور اس کے پاس دو وقت کی روٹی‘ تن پر کپڑا اور رہنے کو چھوٹی سی کٹیا موجود ہے تو وہ کروڑوں‘ اربوں لوگوں سے بہتر زندگی جی رہا ہے۔ انسان مگر بہت جلد بھول جاتا ہے۔ اسے ان نعمتوں کا احساس ہی نہیں ہوتا جو اس کے پاس موجود ہیں۔ اسے بس وہ نظر آ رہا ہوتا ہے جس سے وہ محروم ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ کتنے لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہی جو روزانہ پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھا سکتے۔ اگر ہمیں واش روم میں گرم پانی مل رہا ہے تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے گھر میں گرم تو دُور ٹھنڈا پانی بھی نہیں آتا۔ جنہیں میلوں دور جا کر پانی لانا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس فلٹر والا پانی موجود ہے انہیں کروڑہا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو جوہڑوں اور غلاظت ملا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اس دور میں ہر وہ شخص کامیاب اور خوش نصیب ہے جو بیماریوں سے بچا ہوا ہے۔ دنیا میں اس وقت دس ہزار سے زائد بیماریاں ہیں۔ ایڈز‘ کورونا اور کینسر سمیت سینکڑوں بیماریاں ایسی ہیں جن کا ابھی تک علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ اس لیے رب کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے کسی لاعلاج بیماری یا وبا سے بچا کر رکھا ہوا ہے‘ یہ ہماری خوش بختی ہے۔ کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو روزانہ تھانوں کچہریوں میں ذلیل ہوتے ہیں۔ انہیں قدم قدم پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ ان کا قصور نہیں ہوتا‘ تب بھی وہ کسی ناکردہ غلطی کی سزا بھگتتے ہیں۔ کئی لوگ صرف اس وجہ سے جیل میں قید ہیں کہ انہیں کسی نے چالاکی سے شریک جرم کر لیا اور یوں وہ سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو جوانی میں جیل گئے اور تمام عمر گزار کر‘ بڑھاپے میں رہا ہوئے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے بارہ‘ بارہ سال جیل کاٹی اور بعد میں انہیں بے قصور کہہ کر عدالت نے بری کر دیا؛ چنانچہ نئے سال پر بڑی بڑی خواہشیں کرنے سے پہلے ایسے لوگوں کے بارے میں سوچ لیں جنہیں کسی اور کی بوئی ہوئی فصل کاٹنا پڑی۔
آج ہر وہ شخص خوش قسمت ہے جو تھانے‘ کچہری اور چوروں اور ڈاکوئوں سے محفوظ ہے۔ اسی طرح زندگی کے بارے میں لمبی چوڑی پلاننگ کرنے والوں کو چاہیے کہ اگر ان کی اولاد نیک اور فرمانبردار ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کریں اور قناعت اختیار کریں۔ جس شخص کی اولاد فرمانبردار اور لائق ہے‘ ایسا شخص ایسے اُن ہزار ارب پتیوں سے بہتر ہے جن کی اولاد انہیں جوتی کی نوک پر رکھتی ہے‘ ان کی عزت کرتی ہے نہ ان کے قریب آتی ہے۔ مادی چیزوں میں لوگوں کا مقابلہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مقابلہ کرنا ہے تو ایسی چیزوں کا کیجئے جو انسان کو روحانی اور جسمانی طور پر نفع اور سکون بخشتی ہیں۔ اس دنیا میں کروڑوں بلکہ اربوں لوگ نیند کی کمی کا شکار ہیں۔ وہ رات کو نیند کی گولیاں کھاتے ہیں لیکن پھر بھی اس طرح نہیں سو پاتے جس طرح ایک تھکا ہارا مزدور سارے دن کے بعد سرشام بے فکری سے خراٹے مارتا سو جاتا ہے اور رات بھر اس کی آنکھ نہیں کھلتی۔ نیند ہوتی بھی وہی ہے جو تسلسل سے جاری رہے‘ نہ کہ درمیان میں خلل واقع ہو۔ نئے سال کے موقع پر بڑے بڑے خواب ضرور دیکھیں لیکن جو خوشیاں اور نعمتیں موجود ہیں ان پر خدا کا شکر ضرور ادا کریں۔
اگر آپ شام کو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے ہیں تو یہ سن لیں کہ یورپی اور امریکی ممالک میں ایسا شاذ و نادر ہی ممکن ہے کہ وہاں والدین اور بچے روزانہ اکٹھے ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ دل کی بات کر سکیں۔ یہاں بھی کئی ایسے پوش گھرانے ہیں جہاں والدین اپنے ہی بچوں کی شکلیں کئی کئی دن بعد دیکھتے ہیں‘ جنہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد پڑھتی کیا ہے‘ کرتی کیا ہے اور ان کے دوست اور اس کے شوق کیسے ہیں؛ چنانچہ اس بات پر بھی خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں ایسے کسی امتحان میں نہیں ڈالا کیونکہ جو لوگ تھانوں اور کیسز کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں‘ جنہیں انجان بیماریوں نے گھیرا ہوا ہے‘ جنہیں وسوسے اور خدشات چین نہیں لینے دیتے ان کے پاس چاہے گیراج میں چھ چھ قیمتی گاڑیاں کھڑی ہوں‘ دس دس کنال کے بنگلے ہوں اور دنیا بھر کی عیاشی کا سامان موجود ہو‘ وہ لوگ ان سے بہتر زندگی نہیں گزار رہے جو تین مرلے کے کچے مکان میں چٹنی کے ساتھ روٹی کھاتے ہیں اور پھر بھی خوش ہیں‘ جو بچوں کے ساتھ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں اور جو دوستوں‘ رشتہ داروں کے غم اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
مادی اشیا بلا شبہ ہمیشہ سے انسان کی ضرورت رہی ہیں لیکن صرف اشیا کی موجودگی انسان کی طمانیت اور خوشی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ آپ خود دیکھیں کہ ماضی میں مادیت پرستی اور نام نہاد آسائشیں جتنی کم تھیں‘ اتنا ہی وہ دور پُرسکون اور یادگار تھا۔ آج سارا زور معیشت پر ہے‘ چیزوں کی بہتات ہو گئی ہے لیکن درمیان میں سے سکون اور اطمینان غائب ہو چکا ہے۔ گھروں کے ڈرائنگ روم ویران ہو چکے ہیں‘ میل ملاقات کا دور بھی ختم ہو رہا ہے، ہر کوئی دکھاوے کی‘ مصنوعی سی زندگی گزار رہا ہے۔ جتنی تیزی سے سال گزرتا ہے‘ باقی ماندہ زندگی چند برسوں کے بجائے چند ماہ میں گزرتی محسوس ہوتی ہے‘ اس لیے اس عارضی زندگی کی عارضی خوشیوں کے حصول کی دُعا کرنے کے بجائے اس سال اپنے اندر کے انسان کو بدلنے کی دُعا کریں‘ ساری خوشیاں خودبخود مل جائیں گی۔