اقتدار کی رسہ کشی دنیا کے ہر خطے میں اور ہر دور میں جاری رہی ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسے واقعات بھی بکثرت ملتے ہیں کہ تخت کی خواہش رکھنے والے تختہ دار پر جا پہنچے جبکہ بعض ایسے خوش قسمت ٹھہرے کہ تختہ دار سے تخت کے وارث بنا دیے گئے۔ اقتدار کے نشے نے بھائی کو بھائی کے سامنے لا کھڑا کیا جس کے بعد ایک دوسرے کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ ایسی ہی ایک خونیں داستان شاہ جہاں کے دور میں رقم ہوئی۔
شاہ جہاں مغل سلطنت کے پانچویں بادشاہ تھے۔ شاہ جہاں کے چار بیٹے تھے۔ دارا شکوہ‘ شاہ شجاع‘ اورنگزیب اور مراد بخش۔ 1658ء میں جب مغل شہنشاہ شاہ جہاں شدید بیمار ہوئے تو ان کے چاروں بیٹوں کی نظریں تخت پر جم گئیں۔ شاہجہاں کے چاروں بیٹے انتظامی اور عسکری معاملات کے ماہر تھے اور ان سب کے پاس الگ الگ فوجی قوت اور فوج میں وفادار بھی موجود تھے۔ بڑا بھائی دارا شکوہ بادشاہ کے بہت قریب تھا۔ شاہ جہاں کی بیماری کے دوران داراشکوہ نے حکومت کا انتظام عملاً اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ دارا کی اس جلد بازی سے شاہ جہاں کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی۔ادھر بنگال میں شاہ شجاع نے اپنی بادشاہت قائم کر لی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا شکوہ اور شاہ شجاع کی فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اس جنگ میں دارا شکوہ کو فتح ہوئی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد شاہ جہاں کے سب سے چھوٹے بیٹے مرا د بخش نے اورنگزیب کی شہ پر خود کو گجرات کا بادشاہ ڈکلیئر کر دیا۔ اورنگزیب نے مراد کے ساتھ مل کر دارا شکوہ سے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب اورنگزیب اور دارا شکوہ کی فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اس خونیں جنگ میں اورنگزیب نے دارا کی فوج کو شکست دی اورآگرہ کا محاصرہ کر لیا۔ دارا شکوہ کی جان خطرے میں تھی‘ اس نے اپنے والد شاہ جہاں کو وہیں چھوڑ دیا اور موقع ملتے ہی فرار ہو گیا۔ آگرہ کے قریب دوبارہ لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ملی۔ دارا شکوہ نے شکست تسلیم کر لی اور اس طرح شہنشاہ اکبر کا تعمیر کردہ آگرہ کا (لال) قلعہ اورنگزیب کی ملکیت میں آ گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شاہ جہاں نے اپنے بیٹے اورنگزیب سے مذاکرات کے لیے پیغام بھجوایا لیکن اورنگزیب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اُس کے والد نے جنگ میں دارا شکوہ کی طرفداری کی تھی لہٰذا وہ اس قابل نہیں کہ ان سے کسی قسم کی بات چیت ہو سکے۔ پھر اپنا مطلب حاصل ہونے کے بعد اس نے چھوٹے بھائی مراد بخش کو بھی گرفتار کرایا اور کچھ عرصے بعد قتل کرا دیا۔ اسی دوران دارا شکوہ نے اپنا نیٹ ورک دوبارہ ترتیب دیا اور نئی حکمت عملی کے تحت دہلی جا کر شاہ شجاع کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش کی؛ تاہم اورنگزیب کی طرف سے بنگال کی گورنری کی پیشکش کے بعد شاہ شجاع نے دارا شکوہ کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ اس اقدام نے دارا شکوہ کو تنہا کر دیا اور اس کے ہزاروں سپاہی اورنگزیب سے جا ملے اور بالآخر اس کی فوج کو اورنگزیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہ شجاع‘ جس نے دارا کے مقابلے میں اورنگزیب کا ساتھ دیا‘ اپنے چھوٹے بھائی مراد بخش کا انجام دیکھ کر متنفر ہو گیا لہٰذا اس نے اورنگزیب کے مزید فریب میں آنے کے بجائے اس کے ساتھ جنگ کرنے کی کوشش کی جس میں اسے ناکامی ہوئی جس پر اس نے جلاوطنی اختیار کر لی۔ کافی عرصے تک وہ منظر عام سے غائب رہا۔ خیال کیا جانے لگا کہ شاید اس کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اپنے بھائیوں کو شکست فاش دینے اور اپنے والد شاہ جہاں کو آگرہ میں پابند سلاسل رکھنے والا اورنگزیب دارا کے خون کا پیاسا ہو چکا تھا۔ اس نے دارا کی تلاش میں اپنی فوجیں دوڑا دیں۔ بالآخر دارا کے اپنے ہی ایک جرنیل نے دارا کے خلاف بغاوت کر کے اسے گرفتار کرا دیا۔ 1659ء میں رسم تخت پوشی کی تقریب میں اورنگزیب بادشاہ بن گیا۔ اس کے حکم پر دارا کو بیڑیوں میں جکڑ کر دہلی کی طرف پیدل چلایا گیا۔ دہلی پہنچنے پر دارا شکوہ کا سر بھرے چوک میں قلم کر دیا گیا‘ جو بعض مورخین کے مطابق اس کے باپ شاہ جہاں کو بھجوا دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اورنگزیب نے اپنے والد کا ''قصور‘‘ بھی معاف نہیں کیا اور ان کی موت تک انہیں آگرہ کے قلعے میں نظر بند رکھا‘ جہاں بعض تاریخی روایات کے مطابق‘ اورنگزیب کے حکم سے انہیں حکیموں کے ذریعے زہر دینے کی بھی کوشش کی گئی لیکن حکیموں نے شاہ سے وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے زہر کے پیالے خود پی لیے۔ شاہ جہاں اور اس کے چار بیٹوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں فتح بالآخر اورنگزیب کی ہوئی۔
اورنگزیب بطور بادشادہ‘ مورخین کے نزدیک خاصا متنازع ہے۔ بعض نے اسے اپنے وقت کا ایک سخت گیر اور جابر حکمران لکھا ہے جس نے تلوار کے زور پر لوگوں کو عقیدہ تک بدلنے پر مجبور کیا جبکہ دوسری طرف بعض مورخین کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں دینِ اسلام کی نشر و اشاعت میں اورنگزیب عالمگیر نے تاریخی کردار ادا کیا؛ تاہم اورنگزیب کی اپنے بھائیوں سے جنگیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ حکمرانوں کے نزدیک اقتدار ہی سب کچھ ہے اور اس کے سامنے رشتہ داری یا قرابت داری کی کوئی حیثیت نہیں۔ حکومت کرنے کا نشہ خون کے رشتے‘ ناتوں کو بھی اقتدار کی ہوس میں بہا لے جاتا ہے۔ حکمرانوں کے لیے اقتدار کو حاصل کرنا اور اسے قائم رکھنا ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن جاتا ہے جس کے لیے وہ اپنے پیش رو حکمرانوںکے عبرتناک انجام کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ ایسے میں کبھی منافقت کا سہارا لیا جاتا ہے‘ کبھی اتحاد کیے جاتے ہیں اور کبھی تحریکیں چلائی جاتی ہیں۔ جب اتحادیوں کی ضرورت نہ رہے تو پھر انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ یوں بہت سارا وقت اسی میں ضائع ہو جاتا ہے کہ کون تخت پر بیٹھنے کا حق دار ہے۔
اقتدار کی جنگوں میں فائدے اور نقصان کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کون اچھی چال چلا۔ یہ بات بلاوجہ نہیں کی جاتی کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اقتدار کا یہ کھیل آج بھی اسی طرح جاری ہے‘ اگر کچھ فرق پڑا ہے تو صرف یہ کہ اب جنگیں سامنے سے نہیں‘ پیچھے بیٹھ کر لڑی جاتی ہیں۔ اب سپاہیوں کی جگہ ووٹرز اور سپورٹرز نے لے لی ہے۔ ملکی سیاست میں ہر پانچواں برس ہمیں ایک ایسے موڑ پر لے آتا ہے جہاں اقتدار کی نئی جنگ اور سیاسی رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے۔ ہر پانچ برس بعد مسائل پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور الجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہر مرتبہ عوام کو سیاسی جماعتیں نت نئے نعروں اور وعدوں کے ذریعے اپنے پیچھے لگا لیتی ہیں۔ ہر مرتبہ دہشت گردی‘ مہنگائی‘ لاقانونیت‘ معاشی عدم استحکام اور بے روزگاری جیسے مسائل قطار در قطار کھڑے نظر آتے ہیں اور ہر آنے والی حکومت میں یہ قطاریں پہلے سے بھی زیادہ طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ عوام حیران ہیں کہ کیا یہ وہی حکمران ہیں جو کبھی پٹرول کی بڑھتی قیمتوں پر اپنے پیش رو حکمرانوں کے بیانات اور دعووں کو یکسر رد کر دیتے تھے‘ جو کہتے تھے کہ حکومتیں فی لیٹر پٹرول میں ناجائز ٹیکس وصول کرتی ہے اور پٹرول تو چالیس روپے لٹر ملنا چاہیے‘ آج انہی کے دور میں پٹرول ایک سو ساٹھ روپے تک جا پہنچا ہے اور اب یہ بھی عوامی تنقید کے جواب میں ویسے ہی روایتی بیانات دے رہے ہیں اور عالمی مارکیٹ پر ساری ذمہ داری تھوپ کر خود ہر قسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کو عوام نے ایک سے زیادہ مرتبہ آزمایا جبکہ موجودہ برسر اقتدار جماعت کو ایک مرتبہ آزما کر ہی سب نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر لوگ نہ صرف مایوس ہو رہے ہیں بلکہ انہیں یقین آ چکا ہے کہ تمام سیاستدان اور ساری سیاسی جماعتیں صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات‘ اقتدار اور جاہ و جلال کے حصول کیلئے انہیں استعمال کرتی ہیں۔ جب عوام کا سیاست دانوں‘ نظام اور جمہوریت سے اعتماد اٹھ جائے تو ایسی صورتحال ملکی سلامتی کیلئے بھی انتہائی خوفناک بن جاتی ہے۔عوام بھوک‘ مہنگائی‘ غربت اور استحصال کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں۔ اس صورتحال کا بروقت ادراک نہ کیا جائے تو حالات انتشار اور انارکی کی بدترین شکل بھی اختیار کر سکتے ہیں جن کا فائدہ صرف اور صرف دشمن کو ہوتا ہے۔