''دبئی میں ایئر ٹیکسی سروس کا آغاز 2023ء میں کر دیا جائے گا‘‘۔ یہ خبر اب اتنی غیر معمولی نہیں لگتی مگر صرف پچیس‘ تیس برس قبل اگر آپ کسی کو یہ بتاتے کہ بیس سال بعد اڑنے والی گاڑیاں دستیاب ہوں گی اور لوگ شہروں میں سفر کے لیے موبائل فون سے ٹیکسی بلائیں گے اور اڑتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے تو کسی کو یقین نہ آتا اور لوگ آپ کا مذاق اڑاتے۔ اب مگر ٹیکنالوجی نے ہر چیز کو قابلِ عمل بنا دیا ہے۔ اس لیے اگلے بیس سے تیس سال میں ایسی ایسی تبدیلیاں اور ایجادات ہونے والی ہیں جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے آج شاید کچھ حیرانی ہو لیکن جیسے جیسے وقت قریب آتا جائے گا اور جدید تر اشیا اور سروسز سامنے آتی جائیں گی‘ وہ سب کچھ بھی وقوع پذیر اور ایجاد ہونے لگا گا جو اب تک صرف جادوئی یا دیو مالائی کہانیوں میں لکھا جاتا تھا۔ جیسا کہ ہم عمرو عیار اور اس طرح کی دیگر کہانیوں میں پڑھتے تھے اور اڑنے والا قالین ذہن میں لا تے تھے‘ تب ہمارا دل اس بات کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ اسی طرح الہ دین کا چراغ رگڑنے سے جن کا حاضر ہو جانا اور آپ کی خواہشات پل بھر میں پوری ہو جانا‘ یہ سب خواب و خیال کی باتیں لگتی تھیں مگر آج اس میں سے بہت کچھ عملی طور پر ہو رہا ہے۔ بہت کچھ اس سے زیادہ ہو چکا ہے اور بہت کچھ ہونے والا ہے۔ یہ موبائل فون‘ گوگل اور یہ انٹرنیٹ الہ دین کا چراغ نہیں تو کیا ہے کہ آپ جب چاہیں قسم قسم کی معلومات‘ تحریریں‘ وڈیوز سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ ای کامرس! یہ تو الہ دین کے چراغ سے بھی بڑھ کر ہے کہ جب چاہیں کھانے کا آن لائن آرڈر کریں اور منٹوں میں کھانا آپ کی دہلیز پر۔ اسی طرح آپ نے سفر کرنا ہے تو سڑکوں پر جا کر رکشے‘ ٹیکسیاں ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بس موبائل فون نکالیں اور موٹر سائیکل‘ ٹیکسی‘ رکشہ‘ وین جو چاہیں‘ جسے چاہیں بلا لیں۔ اب تو ایسی موبائل ایپس بھی آ گئی ہیں جن میں آپ ٹیکسی والے کے ساتھ بارگین بھی کر سکتے ہیں ۔ اس سے قبل سفر کے لیے جو ایپس میسر تھیں‘ ان میں سفر کے دورانیے کے حساب سے ادائیگی کرنا پڑتی تھی اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ایپ کے ذریعے جتنی رقم بنے‘ اتنی خاموشی سے ادا کر دیں؛ تاہم صرف دو سے تین برسوں میں نئی ایپس کے آنے سے شہریوںکو بارگین کر کے کچھ نہ کچھ پیسے بچانے کا موقع بھی مل رہا ہے۔ اگلے دو‘ تین برس میں کیا ہو گا اس کا ایک عکس بیرونِ ممالک سے مل جاتا ہے جو ماضی میں کئی معاملات میں ہم سے دس‘ بیس سال آگے ہوتے تھے مگر اب بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بیک وقت دنیا میں لانچ ہو رہی ہیں‘ چاہے وہ موبائل فون کے نئے ماڈلز ہوں یا گاڑیاں یا ٹیکنالوجی سے جڑی اور چیزیں۔
آج کل سمارٹ گھروں کا ٹرینڈ زور پکڑ رہا ہے۔ نئے بننے والے گھروں میں ایک یہ فیچر بھی شامل ہو رہا ہے جس سے آپ آواز کے ذریعے گھرکے مختلف آلات کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔ مثلاً آپ نے کمرے کا پنکھا یا لائٹ چلانی یا بند کرنی ہے تو آپ ''اوکے گوگل‘‘ کہتے ہیں اور اس کے بعد اردو‘ انگریزی یا کسی بھی زبان میں کہتے ہیں کہ کمرے کی تمام لائٹس آن کر دو یا پنکھا چلا دو تو یہ چیزیں آن ہو جاتی ہیں۔ آج بھی اگر آپ پرانے بزرگوں کو یہ چیزیں دکھائیں گے تو وہ حیران‘ پریشان رہ جائیں گے کیونکہ آج سے پچاس‘ ساٹھ یا ستر برس قبل لوگوں کی زندگی میں اتنی چیزیں اور آسائشیں کہاں ہوتی تھیں۔ صرف ٹیلی فون کی سہولت کو گھر گھر تک آنے اور عام ہونے میں کئی عشرے لگ گئے تھے لیکن آج ایک چیز مارکیٹ میں آتی ہے اور سال‘ دو سال میں سب کی دسترس میں ہوتی ہے۔
ایک جاپانی یونیورسٹی کے پروفیسر نے ایک ایسا ٹی وی ایجاد کیا ہے جس کے ذریعے آپ سکرین پر موجود کسی بھی کھانے والی شے کا ذائقہ سکرین کو چاٹ کر جان سکیں گے۔ وہ چیز کتنی میٹھی ہے‘ نمکین ہے یا کڑوی ہے‘ یہ سب آپ کو سو فیصد ایکوریسی کے ساتھ معلوم ہو جائے گا۔ پھر سائنس نے صحت کے میدان میں بھی بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے‘ سو اب شوگر چیک کرنے کی ایسی ڈیوائسز ایجاد ہو چکی ہیں جن میں آپ کو انگلی سے خون بھی نکالنا نہیں پڑتا۔ اسی طرح بلڈ پریشر کی مسلسل مانیٹرنگ بھی سمارٹ گھڑیوں کے ذریعے مسلسل کی جا سکتی ہے۔ یہ گھڑی پہننے والا سو جاتا ہے‘ تب بھی اس کے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر کا تمام ریکارڈ محفوظ ہو کر آن لائن ان تمام جگہوں پر محفوظ ہو رہا ہوتا ہے جہاں جہاں وہ محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی شخص دل کا مریض ہے تو اس کی سمارٹ واچ کے ذریعے اس کا ریکارڈ قریبی ہسپتال کی ایمرجنسی کو بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ آدھی رات کو‘ نیند کے دوران اس کی نبض کی رفتار میں کوئی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے تو الرٹ فوراً ہسپتال کی ایمرجنسی اور ڈاکٹرز تک پہنچ جاتا ہے اور مریض کے لواحقین کے اس کے پاس پہنچنے سے پہلے ایمبولینس اس کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ یہ سسٹم مصنوعی ذہانت پر کام کرتا ہے اور مختلف پیرامیٹرز کے ذریعے مریض کی حالت کا پتا رکھا جاتا ہے۔
دنیا اس وقت ایک حیرت کدہ بن چکی ہے۔ ہر روز‘ کہیں نہ کہیں سے حیرت انگیز خبر آ رہی ہوتی ہے ۔ گاڑیاں تو دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک جدید بن رہی ہیں لیکن ایک کمپنی دنیا میں ایسی گاڑی بھی بنا چکی ہے جس کا رنگ بدل جاتا ہے؛ یعنی آپ ریموٹ یا موبائل فون کے ذریعے اگر اسے سفید سے نیلا یا نیلے سے سبز کرنا چاہتے ہیں تو اس کی پوری باڈی میں وہ رنگ بھر جاتا ہے ۔ اسی طرح بغیر ڈرائیور کے کار یعنی سیلف ڈرائیو گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا بھی آئے روز حیرت کے نئے پہاڑ گراتی رہتی ہے۔
کچھ دن کیلئے امریکا سے اعجاز بھائی آئے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے زیر استعمال ٹیسلا کی گاڑی خودکار ڈرائیور تو ہے ہی لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ محض ایک اعشاریہ چھ سیکنڈ میں صفر سے ساٹھ میل فی گھنٹہ کی سپیڈ تک پہنچ جاتی ہے جو تقریباً 96 کلومیٹر فی گھنٹہ سپیڈ بنتی ہے۔ یہ الیکٹرک گاڑی ایک مرتبہ فل چارج کرنے پر پانچ‘ چھ سو کلومیٹر چلتی ہے۔ اعجاز بھائی نے بتایا کہ ابھی ایک ایسی بیٹری بھی مارکیٹ میں آنے والی ہے جس کے بعد ایک مرتبہ گاڑی چارج کرنے کے بعد ایک ہزار کلومیٹر تک گاڑی چل پائے گی اور یہ چارج بھی اتنے ہی وقت میں ہو جائے گی جتنے وقت میں ہم فیول سٹیشن سے پٹرول ڈلواتے ہیں۔ فی الوقت الیکٹرک گاڑی کو چارج کرنے میں کم از کم چالیس منٹ لگتے ہیں۔ سائنسدان چارجنگ ٹائم کر چند منٹوں میں لانے اور چارجنگ کے بعد گاڑیوں کے چلنے کی رینج بڑھانے کی جستجو کر رہے ہیں۔ یہ باتیں ابھی مشکل لگ رہی ہیں لیکن ان نت نئی ایجادات کے بعد اس بات کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ اس چیز کے لیے اب دہائیوں انتظار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ یہ خبر اب ایک آدھ برس یا شاید چند مہینوں دور ہے کہ جب الیکٹرک گاڑیاں چارج کرنے میں چند منٹ لگا کریں گے۔
ذرا سوچیں کہ اس کے بعد یہ پٹرول والی گاڑیاں کون خریدے اور کون چلائے گا؟ تھرڈ ورلڈ ممالک میں دس سے بیس سال یہ گاڑیاں چلیں گی اور پھر وہاں سے بھی ختم ہو جائیں گی۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ جب الیکٹرک گاڑیوں کی جگہ کوئی اور ٹیکنالوجی آ جائے گی۔ پانی سے نہیں تو پانی جیسے کسی عام دستیاب سستے محلول سے گاڑیاں چلنے لگیں تو دنیا ایک نئی سمت کی جانب چل پڑے گی۔ سوال یہ ہے کہ اس ساری جدیدیت میں انسان کی اخلاقیات‘ اس کا رہن سہن اور رشتے ناتوں کا کیا ہو گا؟ ان سب کی کسی ٹیکنالوجی کمپنی یا سائنسدان کو فکر ہے نہ ٹینشن۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان حیران کن خبروں کے باوجود انسان ہر دن پہلے سے زیادہ تنہائی‘ بے چینی اور بے قراری کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔