کنسٹرکشن انڈسٹری کو ریلیف پیکیج دینا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ گھر بنا سکیں لیکن یہ ریلیف چوروں کو نہیں ملنا چاہیے۔ کورونا آیا تو اس کے چھ ماہ بعد کنسٹرکشن میں اضافے اور گھروں کی تعمیر میں آسانی پیدا کرنے کے لیے حکومت نے بینکوں کو قرضے جاری کرنے کی ہدایات کیں‘ مارک اپ بھی کچھ کم کیا اور یوں لوگ دھڑا دھڑ قرضے لے کر مکان بنانا شروع ہو گئے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ مکان بنانے یا پلاٹ خریدنے والوں سے ان کی آمدنی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسے کہاں سے آئے تھے۔ یہ ایک سنگین غلطی تھی اور اس غلطی کی وجہ سے وہ لوگ جو چھوٹا موٹا پلاٹ لے کر کچا پکا مکان بنا سکتے تھے وہ اب ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس غلطی کا خمیازہ کروڑوں لوگوں کو بے گھری کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔
لوگوں نے اپنا ناجائز پیسہ جو انہوں نہ جانے کہاں کہاں سے کمایا گیا تھا ‘ بینکوں سے غبن کیا تھا‘ اغوا برائے تاوان کی رقوم تھیں یا سمگلنگ‘ ذخیرہ اندوزی‘ٹارگٹ کلنگ‘بھتہ خوری جیسے جرائم سے کمایا گیا پیسہ تھا ‘سب نے یہ پیسہ پراپرٹی میں لگانا شروع کر دیا کیونکہ انہیں اب یہ ڈر نہیں تھا کہ کوئی سرکاری ادارہ ان سے اس سرمایہ کاری کے بارے میں پوچھ گچھ کرے گا؛ چنانچہ اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی لوگوں نے بھی دھڑا دھڑ پراپرٹی میں سرمایہ کاری شروع کر دی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مارکیٹ میں مصنوعی ڈیمانڈ پیدا ہو گئی اور پراپرٹی کی قیمتیں دنوں اور ہفتوں کے حساب سے بڑھنا شروع ہو گئیں۔ پانچ مرلے کا جو پلاٹ دو ہزار بیس کے اوائل میں اوسطاً چالیس پچاس لاکھ کا ملتا تھا وہ آج بڑھ کر ایک کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ تین مرلے کا پلاٹ پچیس سے بڑھ کر پینتالیس کی بریکٹ میں جا پہنچا ہے اور دس مرلے کا پلاٹ جو شہر کی معروف سوسائٹیوں میں ستر اسی لاکھ میں مل جاتا تھا وہ پونے دو کروڑ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ لاہور شہر میں رہائشی پلاٹ فی مرلہ بیس لاکھ سے بڑھ چکا ہے جبکہ اچھی‘ پوش اور آباد ہائوسنگ سوسائٹیوں میں فی مرلہ قیمت پچیس سے تیس لاکھ ہو چکی ہے اور ان سب کے خریدار زیادہ تر وہ لوگ تھے جن کے پاس کالا دھن تھا اور انہیں سفید کرنے کا یہ بہترین موقع خود سرکار نے فراہم کیا۔ مرے کو مارے شاہ مدار والا حال عوام کے ساتھ یہ ہوا کہ کورونا کی وجہ سے مہنگائی بڑھی تو کنسٹرکشن سیکٹر کی ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ گئی۔ آج سے دو سال قبل سریا جو ایک لاکھ فی ٹن بک رہا تھا اب دو لاکھ فی ٹن کو بھی کراس کر چکا ہے۔ سیمنٹ کی بوری قیمت پانچ سو سے بڑھ کر ایک ہزار روپے تک جا پہنچی ہے اور زیادہ تر گوداموں میں سیمنٹ دستیاب بھی نہیں یا جان بوجھ کر سپلائی روک کر قیمت بڑھائی جا رہی ہے۔
اس ساری صورت حال کا کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ جس کا جو دل کرتا ہے وہ کر رہا ہے۔ ایک روز قبل ایک کمپنی نے گاڑیوں کی قیمتیں چار سے بارہ لاکھ تک بڑھا دیں حالانکہ یہ گاڑیاں مقامی طور پر تیار ہوتی ہیں۔چند ایک پرزے جو باہر سے آتے ہیں ان کی بنا پر ڈالر کی قیمت بڑھنے کو جواز بناتے ہوئے پوری کی پوری گاڑی کی قیمت میں لاکھوں روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ماضی میں اس طرح کی قیمتیں سالانہ بجٹ کے بعد بڑھتی تھیںیا پھر منی بجٹ آنے پر‘ لیکن آج کل تو اشیا کی قیمت دنوں کے حساب سے بڑھ رہی ہیں ۔ بلکہ صبح اور شام کی قیمتیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ماضی میں پھر حکمران نوٹس لے لیتے تھے لیکن آج یہ سلسلہ بھی موقوف ہو چکا۔ اب اگر پوچھا جائے تو طرح طرح کے جواز بتائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے عالمی مارکیٹ میں بھی قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘ پوری دنیا میں مہنگائی عروج پر ہے وغیرہ وغیرہ۔ بھائی ٹھیک ہے یہ رجحان ہو گا لیکن یہ سوچ کر ہر کمپنی‘ ہر شخص اور ہر ادارے کو کھلی چھوٹ تو نہیں دی جا سکتی کہ وہ جب چاہے جتنی چاہیے قیمت بڑھا دے اور اسے پوچھنے والا بھی کوئی نہ ہو کہ تم نے یہ قیمت کس فارمولے اور کس وجہ کے تحت بڑھائی ہے۔
اصل سوال اور اعتراض تو یہی ہے کہ اشیائے خورونوش ہوں یا کنسٹرکشن انڈسٹری سے متعلقہ سامان یا کچھ اور‘ ان سب کو تیار اور فروخت کرنے والوں کو کسی نہ کسی سسٹم کا حصہ تو بنائیں۔ اس طرح تو مہنگائی کا یہ عذاب قیامت بن کر عوام پر روز ٹوٹتا رہے گا اور ناجائز پیسہ اور منافع کمانے والے لوگوں کو پھر سے کالا دھن سفید کرنے کا کوئی ریلیف پیکیج دے دیا جائے گا ‘ان کے پھر سے وارے نیارے ہو جائیں گے ‘یہ دولت سمیٹتے رہیں گے اور عوام بدحال ہوتے رہیں گے۔ آپ اخبار اٹھا لیں یا پھر انٹرنیٹ پر چلے جائیں‘ آپ کو وہاں روزانہ اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی خبریں اور ان سے متعلقہ تجزیے اور ویڈیوز مل جائیں گی لیکن آپ کو شاید ہی کہیں پر سرکار کی موجودگی اور وہ ایکشن نظر آئے جس کے ذریعے معلوم ہو کہ واقعی اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے اور وہ مہنگائی کے مسئلے پر سنجیدہ بھی ہے۔
ویسے تو حکومت جس مسئلے کو ہاتھ ڈالتی ہے وہ مزید خراب ہو جاتا ہے چاہے وہ چینی کی قیمتیں ہوں یا گندم کی‘ اس لئے بعض اوقات حکومت سے یہ التجا کرتے ہوئے بھی سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں اس کے ایکشن کی وجہ سے قیمتیں مزید نہ بڑھ جائیں۔ایک تو ہماری یادداشت بھی بہت کمزور ہے۔ ہم جب یہ دلیل سنتے ہیں کہ کورونا یا روس کی جنگ مہنگائی کی وجہ ہے تو جناب ذرا عامر کیانی صاحب کو یاد کریں جنہوں نے موجودہ دور حکومت کے آغاز میں ہی ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھاا ور انہیں حکومت نے اس سکینڈل کی وجہ سے عہدے سے بھی ہٹا دیا تھا لیکن ادویات کی قیمتیں کم نہ کی گئیں بلکہ اب تک مزید تین مرتبہ بڑھ چکی ہیں۔
گلے کی انفیکشن کی وہ اینٹی بائیوٹک جو دو سو سے چار سو روپے تک مل جاتی تھی اس وقت ایک ہزار روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ یعنی آپ کا موسمی بخار یا خراب گلا بھی آپ کو دو اڑھائی ہزار میں پڑے گا ‘ باقی آپ اندازہ خود لگا لیں۔ لیکن یہاں سوال وہی ہے کہ اس وقت تو کورونا نہیں تھا‘ روس یوکرین کی جنگ نہیں ہو رہی تھی‘ ڈالر بھی اتنا نہیں بڑھا تو توپھر ادویات کی قیمتوں میں کیوں اضافہ ہوا؟ چینی کی قیمت میں اضافے پر تحقیقات ہوئیں لیکن چینی کی قیمت کم نہ ہو سکی۔صحت کارڈ‘ پرائم منسٹر شکایات پورٹل اوراس جیسے کچھ کام اچھے ہوئے ہیں لیکن اوور آل گورننس کو بھی تو دیکھا جانا چاہیے تھا۔
اگر کالا دھن کمانے والوں کو ریلیف دینا گورننس ہے تو پھر حق حلال کی روٹی کمانے والے چند سو روپے کے دیہاڑی دار مزدورکا کیا قصور ہے کہ وہ حرام نہیں کمانا چاہتا۔ اگر کالا دھن لگانے والوں کے لئے راستے بنانے ہیں تو پھر کالا دھن بنانے کے لئے بھی لوگوں کو آزادی دے دینی چاہیے تاکہ وہ کھل کر فراڈ کریں‘ ناجائز طریقے سے لوگوں کے مال ہڑپ کریں‘ہر برا کام کر کے پیسہ کمائیں تاکہ یہ سلسلہ صرف چند فیصد لوگوں تک محدود نہ رہے بلکہ کروڑوں عوام اس سے مستفید ہو سکیں۔اگر کالا دھن سفید کرنے کی اجازت مخصوص لوگوں کو مخصوص مدت کیلئے دی جا سکتی ہے تو پھر یہ سہولت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام لوگوں کو کیوں نہیں دے دی جاتی تاکہ وہ بھی کہہ سکیں کہ جب ''نیا پاکستان‘‘ بن رہا تھا تو اس میں ہمارا بھی کالا دھن شامل تھا۔