عمران خان صاحب کے ہاتھ سے اقتدار ان کی سیاسی غلطیوں کی وجہ سے گیا یا یہ کوئی عالمی سازش تھی؟بہت سوں کا خیال ہے کہ عمران خان اقتدار میں آ کر بدل گئے اور انہوں نے اپنے اتحادیوںاور ایسے لوگوں کو‘ جنہوں نے انہیں اقتدار میں لانے کیلئے دن رات ایک کر دیے تھے‘ نظر انداز کر دیا تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑے۔عمران خان ہوں یا کوئی اور سیاستدان‘ انہیں مشوروں کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ویسے بھی باہر سے بیٹھ کر غلطیاں نکالنا اور اندازے لگانا بہت آسان ہوتا ہے۔ الیکشن مہم چلانا اور الیکشن لڑنا ایک الگ جنگ ہے جس سے گزرنے والا ہی اس کی باریکیاں جانتا ہے۔ یہ تو تحریک انصاف کی بات تھی آج تک پیپلزپارٹی کے بارے میں کتنے ہی دعوے اور اندازے غلط ہوئے۔ چار اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کہا جانے لگا کہ پیپلزپارٹی بھی ان کے ساتھ ہی ختم ہو گئی ہے۔ جنرل ضیا الحق کی گیارہ سالہ حکمرانی کے دوران کسی کو دم مارنے کا موقع نہ ملا۔ایسا لگتا تھا کہ کبھی اس ملک میں سیاست دوبارہ سانس نہ لے پائے گی۔ پھر ضیا الحق کا طیارہ تباہ ہوا ‘تاریخ نے پلٹا کھایا اور بینظیر بھٹو نے پیپلزپارٹی کو دوسرا جنم دیا۔ بینظیر کی لاہور آمد پر لاکھوں کی تعداد میں جیالے اُمڈ آئے۔وہ پیپلزپارٹی جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ ختم ہو چکی ہے‘ وہ حکومت میں آ گئی اور بینظیر وزیراعظم بن گئیں۔ اس کے بعد نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی حکومتیں آتی جاتی رہیں یہاں تک کہ پرویز مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا اور تین تین عہدے سنبھال کر ملک پر قابض ہو گئے۔ نواز شریف کو جلاوطن کر دیا گیا۔ (ق) لیگ میں ہوا بھر کر اسے پورے ملک میں اکثریت دلا کر حکومت دلوا دی گئی اور ایک مرتبہ ایسے لگا جیسے اب (ن) لیگ کبھی اقتدار میں نہیں آ سکے گی اوراس کی سیاست ختم ہو گئی ہے۔
2006 ء میں (ن) لیگ‘ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوںنے ایسا ہی اتحاد بنا یا جیسا کہ آج کل پی ٹی آئی کے خلاف بنا گیاہے‘ اور اس اتحاد نے لندن میں ''میثاق جمہوریت‘‘ کیا ۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر ایک حکومت کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے اور پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ اس سے اگلی حکومت (ن) لیگ کے حصے میں آئی جبکہ پی ٹی آئی نے اپوزیشن کا چارج سنبھال لیا او ر ساتھ ہی چار انتخابی حلقے کھلوانے کیلئے دھرنے اور جلسے شروع کر دیے۔ اس وقت تک سبھی کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں نہیں آ سکتی۔ اس سے قبل پرویز مشرف جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی عمران خان کو اقتدار کا لالچ دیا لیکن وعدہ پورا نہ کرنے پر خان صاحب ان کے بھی خلاف ہو گئے۔2018 ء میں پی ٹی آئی اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی لیکن اقتدار میں آنے کیلئے اسے ان اتحادی جماعتوں کا سہارا لینا پڑا جن کے خلاف وہ جدوجہد اور کرپشن کی آواز بلند کرتی آ رہی تھی۔ ان میں ایم کیو ایم بھی تھی جس کے قائد کے خلاف خان صاحب لندن میں مقدمہ بھی کر چکے تھے ‘ اس میں (ق) لیگ بھی شامل تھی جس کے پرویز الٰہی صاحب کو عمران خان صاحب نے پنجاب کا سب سے ڈاکو قرار دیا تھا‘ اسی طرح دیگر ایسے سیاستدان بھی تھے جن کے ساتھ خان صاحب بیٹھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ ان سب کو ساتھ ملا کر حکومت بنا لی گئی۔ یہ انتہائی عجیب منطق تھی کہ خان صاحب نے حکومت بنانے کیلئے ایسے لوگوں کے ساتھ اتحاد کر لیا جن کے خلاف وہ بیس سال سے جدوجہد کر رہے تھے جبکہ اپنے ہی ایسے لوگوں کے خلاف ان کے دور میں سیاسی مقدمے بنائے گئے اور نیب کے ذریعے انہیں ذلیل و رسوا کیا گیا جنہوں نے انہیں اقتدار میں لانے کیلئے اپنا مال‘ اپنے وسائل اور اپنا قیمتی وقت لگایا تھا۔ درجنوں نظریاتی ساتھی تھے جن کا آہستہ آہستہ پتہ کاٹ دیا گیا‘ ایسا کیوں کیا گیا یہ تو خان صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں لیکن اس کا پھر خمیازہ بھی پی ٹی آئی کو اس بغاوت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ انہوں نے کیا غلطیاں کیں ‘کیا نہیں کیں وہ اس بارے میں بہتر جانتے ہیں۔ ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں نے ان کی ہر مشکل میں رہنمائی کی کوشش کی لیکن ان کے بقول خان صاحب کرتے اپنی ہی مرضی تھے۔ انہیں پتہ تھا انہیں جو لوگ ایسے مشورے دے رہے ہیں یہی لوگ انہیں بیس سال سے کہہ رہے تھے کہ آپ سیاست میں نہ آئیں یہ آپ کا کام نہیں‘ سٹیٹس کو کو توڑنا آسان نہیں‘ بہتر ہے آپ سماجی خدمات سر انجام دیں ‘اس میں عزت بھی ہے اور عظمت بھی لیکن خان صاحب نے ایسے لوگوں کی اس وقت بھی پروا نہ کی ۔ اگر یہ اس وقت ان کا مشورہ مان لیتے تو یہ کبھی اپوزیشن لیڈر اور پھر وزیراعظم نہ بن سکتے؛ چنانچہ حکمران کوئی بھی ہوں‘ جب وہ اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہوتے ہیں تو انہیں مشوروں اور نصیحتوں کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے نہ اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ اقتدار کے جاتے ہی مگر انہیں یہ لوگ یاد بھی آ جاتے ہیں اور ان کی اہمیت کا تھوڑا بہت احساس بھی ہو جاتا ہے‘ لیکن یہ احساس بھی زیادہ دیر قائم نہیں رہتا کیونکہ بہرحال وہ ایسے سیاسی مشیروں اور چاپلوسوں کے مسلسل حصار میں ہوتے ہیں جن کی خان صاحب کو بہرحال ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انہیں اپنا پورا وقت دیتے ہیں اور اس کے عوض ان کا مکمل اعتماد بھی حاصل کر لیتے ہیں جبکہ دور بیٹھے مشورہ نویس یہ سمجھتے ہیں کہ شاید خان صاحب ان کے مشوروں اور نصیحتوں کے محتاج ہیں۔
اب جبکہ ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف جلسوں جلوسوں میں مصروف ہو چکی ہے اور اگلے روز کے ملک گیر احتجاج میں سب نے دیکھ لیا کہ اگرچہ عمران خان خط کی سچائی اور اس کے اثرات کے حوالے سے ایک بڑے طبقے کو قائل نہیں کر سکے لیکن اب بھی پی ٹی آئی کا ورکر ان کی اس بات کو من و عن تسلیم کرتا ہے کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہوئی ہے۔ کوئی لاکھ کہتا رہے کہ خان صاحب کسی ملک کی جانب سے ایک سفیر کو لکھے گئے عام خط کو زبردستی سازشی تھیوری میں بدل رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی کا ووٹر اب بھی ان پر اندھا اعتماد کر تا ہے‘ بلکہ پہلے سے زیادہ جوش اور جنون دکھایا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو عمران خان کے پاس سب سے بڑی طاقت بھی یہی عام سیاسی ورکرز ہیں ۔ ایک دن کے نوٹس پر پورے ملک میں منظم انداز میں جلسے ارینج کئے گئے اور ان میں اسی طرح لوگوں نے شرکت کی۔ یقینا پی ٹی آئی سیاسی ایونٹ منعقد کرنے کے لحاظ سے بڑی مضبوط اور منظم واقع ہوئی ہے لیکن حکومت چلانے میں انتہائی کمزور اور ناتجربہ کار۔ عجیب بات ہے کہ پونے چار برس میں ہونے والی مہنگائی کے باوجود پی ٹی آئی کے ووٹرز خان صاحب پر جان چھڑکنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے خان صاحب اتنی زبردست عوامی سپورٹ ‘مقبولیت اور اندھی تقلید کو بھی اپنے لئے موثر طور پر استعمال نہ کر سکے ۔ وہ اگلے عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ممکن ہے یہ خواب سچ ثابت ہو لیکن سوال پھر بھی وہی ہے کہ اگر اگلی مرتبہ آ کر بھی وہی کچھ کرنا ہے جو اس مرتبہ کیا اور پنجاب جیسا صوبہ کسی وسیم اکرم پلس کے حوالے کرنا ہے تو پھر ایسے مینڈیٹ کا بھی وہی انجام ہو گا ۔زندگی لا متناہی نہیں ہے ‘جو کچھ کرنا ہے اس محدود وقت میں ہی کرنا ہے۔پی ٹی آئی نے دوسروں کو چور ڈاکو کہنے اور کرپشن کے الزام لگانے کی بجائے آدھی توانائی اور وقت ملک کی بہتری کی طرف لگایا ہوتا تو آج ان کے خلاف کوئی تحریک کامیاب ہوتی‘ نہ خان صاحب سابق وزیراعظم ہو تے۔