"ACH" (space) message & send to 7575

برداشت

پاکستان کی 65فیصد آبادی 35 برس سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ بدقسمتی سے جس نوجوان نسل کو آئی ٹی کے ذریعے اپنا اور اپنے ملک کا مستقبل سنوارنا تھا‘ وہ اس وقت سیاسی جتھوں کے ہاتھوں میں بری طرح استعمال ہو رہی ہے۔ برداشت اس معاشرے میں پہلے ہی ناپید ہوتی جا رہی ہے‘ اب مختلف قسم کی تنظیموں ‘ جتھوں اور گروہوں نے انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ سلسلہ انتہائی سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ چیزوں کو توڑ مروڑ کر اور اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کیلئے گرافکس سافٹ ویئرز استعمال کئے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں اور دیگر شخصیات کی جعلی آڈیوز بھی بنائی جاتی ہیں اور ان کی اصل ویڈیوز کو بھی ایڈٹ کر کے معنی تبدیل کر دیے جاتے ہیں جس سے دیکھنے والے کو سچ کا گمان ہوتا ہے۔ ایف آئی اے اور دیگر ادارے سائبر کرائم کے تحت بہت سے ایسے لوگوں اور گروپوں کو شکنجے میں لا چکے ہیں لیکن یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیڈر شپ کی طرف سے ہی جب ایک بات کو گھما پھرا کر پیش کیا جائے گا تو ان کے لاکھوں فالورز اگر ان کے بیانات کو صرف فارورڈ ہی کریں گے تب بھی چند منٹوں اور گھنٹوں میں فیک نیوز کا دائرہ وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہوگا اور نقصان کر دے گا۔
آج کل سیاست جس طرف چلی نکلی ہے پندرہ بیس سال کے نوجوان بلکہ دس سے پندرہ سال کے بچے بھی سیاسی چٹکلوں کے مزے لینے لگے ہیں۔ جب سے بلاول نے کانپیں ٹانگنے کی بات کی ہے تب سے یوٹیوب اور فیس بک کے دس پندرہ سیکنڈز والی شارٹ ویڈیوز تیزی سے مقبول اور پھیل رہی ہیں۔ بچے بھی روز اب اس انتظار میں رہتے ہیں کہ ان کے مخالف سیاستدان کی زبان پھسلے جس کے بعد وہ اس کی میمز اور فنی ویڈیوکلپس کا مزہ لیں۔یہ بات مگر اتنی سادہ یا مزاحیہ ہے نہیں جتنی کہ دکھائی دیتی ہے۔ ماضی میں بھی گھروں ‘ دفتر وں اور عوامی مقامات پر سیاسی بحثیں ہوتی تھیں۔ ایک ہی گھر میں باپ کسی اور کو اور بچے دوسری جماعت کو سپورٹ کرتے تھے لیکن جب سے تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہوا ہے اور خان صاحب سے اقتدار واپس لیا گیا ہے‘ تب سے حالات بہت نازک ہو چکے ہیں۔ نوعمر لڑکوں لڑکیوں کو تو جیسے یقین ہی نہیں آ رہا کہ واقعی عمران خان وزیراعظم ہائوس سے جا چکے ہیں۔ بہت سوں کو تو اب بھی یقین نہیں آ رہا اور وہ سمجھ رہے ہیں شاید کوئی خواب چل رہا ہے۔ یہ حقیقت کی دنیا سے اس لئے بھی دور ہیں کیونکہ انہیں ہمیشہ خواب ہی دکھلائے گئے اور تحریک انصاف نے تو ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دکھلا دیے۔ اس اوور ڈو ز کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل خوابوں کی دنیا سے باہر نہیں آ رہی اور سیاستدانوں کے دعووں اور نعروں کا زمینی حقائق کے ساتھ موازنہ اور تجزیہ نہیں کرتی۔ان کے ساتھ بحث کرو یا تحریک انصاف یا ان کے محبوب لیڈر کی کسی غلطی کی نشاندہی کرو تو وہی ہوتا ہے جس کا تذکرہ ہمارے سینئر کالم نگار جناب اظہار الحق صاحب نے اپنی دو قسطوں میں بیان کیا ہے کہ فوراً ہی تنقید کرنے والوں کو دوسری پارٹی کا وفادار قرار دے دیا جاتا ہے۔ اظہار الحق صاحب نے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پی ٹی آئی کی ان خامیوں کو بیان کیا ہے جن کو اس جماعت کے اپنے اور سنجیدہ لوگ بھی واقعی غلطیاں قراردیتے ہیں لیکن کچے ذہنوں والے بلکہ بہت سے سینئر سٹیزن بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ انہیں (ن) لیگ‘ پی پی پی یا دیگر جماعتیں اچھی نہیں لگتیں اس لئے یہ ہر صورت تحریک انصاف کی حمایت جاری رکھناچاہتے ہیں چاہے وہ غلطیاں کرے نہ کرے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ چیز ان کے اپنے لیڈروں‘ جماعت اور ملک کیلئے اچھی نہیں کیونکہ جب اندر سے ہی تنقید نہیں ہو گی‘ اپنے ہی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے تو پھر اصلاح کیسے ہو گی اور نکھار اور پرفیکشن کیسے آئے گی۔اندھا اعتماد اور اندھا اعتبار تو سگے بھائیوں اور بچوں پر بھی کوئی نہیں کرتا‘کچھ لوازمات بہر حال پورے کرنے ہوتے ہیں تاکہ غلطی کی گنجائش نہ رہے اور یہاں تو یہ سیاستدان ہیں جن کے پیچھے ہم اپنی دنیا لٹانے چل پڑتے ہیں۔دیگرجماعتوں کے معتقدین کی بھی حالت یہی ہے کہ ان کی جماعت سے کوئی کسی اور جماعت میں چلا جائے تو وہ لوٹا اور مجرم ہو جاتا ہے‘ لیکن کسی اور جماعت سے ادھر آ جائے تو وہ پاک اور پوتر ہو تا ہے ۔ اس طرح کی درجنوں بلکہ سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن اس کا فائدہ اس لئے نہیں کیونکہ یہ اپنی زنبیل سے ایسی ایسی دلیلیں اور منطقیں نکالیں گے کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے اور آپ کو محسوس ہو گا کہ آپ کسی سیارے سے آئی ہوئی مخلوق سے بحث کر رہے ہیں۔ اس لئے سب سے بہتر آپشن یہ ہے کہ ان کے ساتھ بحث کرنے کی بجائے اپنا نقطہ نظر اگر آپ اپنی فیس بک وال یا کسی اور جگہ پیش کر رہے ہیں تو شائستگی کے ساتھ رکھتے رہیں اور اس کے نیچے آنے والے غیر اخلاقی کمنٹس کا جواب دینے سے گریز کریں اور اگر کوئی حد سے تجاوز کرے تو ایسے لوگوں کو بلاک کرتے جائیں کیونکہ بدتمیزی اظہارِرائے کے زمرے میں نہیں آتی۔ بلاوجہ اپنا بلڈ پریشر ان سے الجھتے ہوئے نہ بڑھائیں بلکہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ جو بھی سیاسی جماعت‘ چاہے وہ (ن) لیگ ہو‘ پی پی پی یا تحریک انصاف‘ ان سب کے سچ جھوٹ خودبخود آہستہ آہستہ سامنے آتے رہیں گے۔
قدرت کا اپنا قانون ہے۔ وہ دنوں کو بھی پھیرتی رہتی ہے اور دلوں کو بھی۔ جس نے آج تک ملک کے ساتھ برا کیا‘ مثالیں حضرت عمرؓ کی دیں لیکن خود سرکاری خزانے سے ہاتھ صاف کیا‘ مثالیں جدید ملکوں کے حکمرانوں کی دیں لیکن کام وہی روایتی حکمرانوں والے کئے تو یہ سب کچھ دنیا کے سامنے آتا جائے گا اور اسی سے آہستہ آہستہ لوگوں کا شعور اور نقطہ نظر تبدیل ہو گا۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایسے ہی ایک بحث کے دوران دو مختلف سیاسی جماعتوں کے شیدائی آپس میں لڑ پڑے اور ایک نے دوسرے کو لوہے کا راڈ مار کر زخمی کر دیا۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ایک بزرگ نے غالباً ویٹر سے یہ کہا کہ کیا باتھ روم میں لوٹے ہیں جس پر قریب بیٹھے نور عالم اور دیگر نے ان کی دھلائی کر دی۔ اس میں غلطی دونوں طرف سے ہے۔ اگر وہ بزرگ پی ٹی آئی کی طرف سے تھے تو پھر اگر ان کی جماعت میں آنے والے افراد مثلاً فہمیدہ مرزا‘ عمر ایوب ایسے لوگوں پربھری محفل میں کوئی ایسے فقرے کسے تو کیا ان کا ردعمل ایسا نہیں ہو گا؟ اگر آپ دوسروں کو برا بھلا کہتے ہیں‘ جملے کستے ہیں‘ ذو معنی باتیں کہتے ہیں تو پھر آپ کو بھی ان سب چیزوں کیلئے تیار ہونا چاہیے۔ زیادہ بہتر ہے کہ ایسی حرکات سے باز رہا جائے کیونکہ اس سے معاشرے میں انارکی‘ فساد اور تشدد پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ اپنے آپ میں برداشت اور دوسروں کے موقف کو سننے کا حوصلہ پیدا کریں۔ ہو سکتا ہے آپ جس سیاستدان کے پیچھے اپنے دوستوں یاروں سے لڑ مر رہے ہیں‘ ان کے سر پھاڑ رہے ہیں کل کو وہ سیاستدان کوئی یوٹرن مار جائے یا کسی اور پارٹی میں چلا جائے تب آپ کیا کریں گے؟ اس لئے بہتر ہے کہ اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھیں اور بلاوجہ کی بحثوں میں الجھنے اور سیاستدانوں کی تقلیدکرنے سے گریز کریں۔اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں