جس طرح تحریک انصاف حکومت کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے فورم پر اکٹھی ہوئیں اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو فارغ کر کے اب مل کر حکومت بنا لی ہے‘ اگلے عام انتخابات میں بھی یہی صورت حال بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتیں اپنے اپنے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں کھڑے تو کریں گی لیکن اگر تحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تو ایک مرتبہ پھر یہ تمام جماعتیں ایک طرف ہوں گی اور پی ٹی آئی دوسری طرف۔ یوں ایک لحاظ سے ملک میں بنیادی طور پر دو ہی جماعتیں انتخاب لڑیں گی۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ نون اور دیگر سیاسی جماعتیں اب سیاسی طور پر آپس میں ضم ہو چکی ہیں۔ ان کے نظریات‘ ان کے منشور‘ ان کی سیاست‘ سب کچھ الٹ پلٹ ہو چکا ہے اور فی الوقت ان کا ایک ہی منشور اور ایک ہی نظریہ ہے کہ کیسے عمران خان کو آئندہ کبھی اقتدار میں آنے سے روکنا یا اقتدار کی دوڑ سے باہر رکھنا ہے۔یہ ایک دوسرے کے خلاف کس طرح کے الزامات لگاتی تھیں‘ کس طرح ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتی تھیں وہ سب اب ایک مذاق لگتا ہے۔ اس کا فائدہ پی ٹی آئی نے اٹھایا۔ خان صاحب کی کرشماتی شخصیت نوجوانوں میں اب بھی اسی طرح مقبول ہے بلکہ بیرونی سازش کے کارڈ کے بعد تو تحریک انصاف کے شیدائیوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ جلسوں میں رونق اسی طرح ہے بلکہ کئی جگہ بڑھتی دکھائی دیتی ہے؛ تاہم لوگوں کو جمع کر لینا اور بڑے بڑے جلسے کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ایک اچھے حکمران بھی ثابت ہوں۔
عام انسانوں کی بات کریں تو کوئی بھی شخص غلطیوں سے مبرا نہیں لیکن غلطیوں سے سیکھنا بہر حال بڑے دل گردے کا کام ہے جس حوالے سے سیاستدان قدرے تنگ دامن واقع ہوئے ہیں۔تحریک انصاف ایک طرح سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لیے ڈرائونا خواب ثابت ہوئی ہے اور یہ خواب ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ خان صاحب نے لگ بھگ پونے چار سال حکومت کی اور اس دوران جو مہنگائی ہوئی‘ اس پر تحریک انصاف بھی اسی طرح دلیلیں دیتی رہی جس طرح دیگر جماعتیں اور پچھلی حکومتیں دیتی تھیں۔سوال یہ ہے کہ اگر آپ مہنگائی کم نہیں کر سکتے یا اس کی رفتار کو ہی مدھم نہیں کر سکتے تو پھر آپ اقتدار میں کیا کرنے آئے تھے؟ آپ کیوں دوسروں سے الگ ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں؟ اپوزیشن میں تو خواب سبھی دکھاتے ہیں‘ حکومت پر تنقید بھی کرتے ہیں‘ جو وضاحتیں حکومت دیتی ہے‘ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن خود برسراقتدار آ کر بھی اگر وہی پچھلا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو پھر آپ میں اور دیگر میں کیا فرق ہے؟ جس طرح آپ چور‘ چور کے نعرے لگاتے ہیں اسی ڈگر پر اب بچے بھی چل رہے ہیں۔ ایک طرف آپ حضور نبی کریمﷺ کی سیرت کا درس دیتے ہیں‘ اسی تقریر میں آپ مخالفین کو برے القابات سے بھی پکارتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟کیا انسان کا ہینڈسم اور مالی کرپشن سے پاک ہونا کافی ہوتا ہے؟ بدزبانی‘ یوٹرن اور کمزور طرزِ حکومت بھی کرپشن کی ہی قسم نہیں ہے؟ پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ ہم اقتدار میں آئیں گے تو وطن کی لوٹی ہوئی دولت بیرونِ ملک سے واپس لائیں گے‘ مہربانی کر کے اب قوم کو بتایا جائے کہ اپنے دورِ اقتدار میں کتنا پیسہ واپس لائے؟ اگر ان سب اعلانات‘ وعدوں اور دعووں کا مقصد صرف عوام کے جذبات سے کھیلنا تھا تو پھر مخالفین میں کیا برائی ہے؟ وہ بھی تو‘ آپ کے خیال میں‘یہی کچھ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جو غلاظت کا طوفان برپا ہے وہ الگ سے قوم کی اخلاقیات کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ اگر کوئی چور ہے تو اسے عدالت میں لے جا کر ثابت کریں‘ ہر وقت سڑکوں‘ چوک‘ چوراہوں پر اس کے خلاف نعرے لگانا کہاں کی سیاست ہے؟ نئی نسل اس سے کیا سیکھے گی؟ کیا بات بات پر دوسروں کو چور‘ ڈاکو کہنے کی عادت ان میں راسخ نہیں ہو جائے گی؟ کیا یورپ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل شخص کو اس طرح کی گفتگو زیب دیتی ہے جو ایک طرف ریاست مدینہ کا درس دیتا ہے اور اگلے ہی لمحے اخلاقیات کو پس پشت ڈال دیتا ہے؟ خان صاحب کو اللہ نے موقع دیا تھا۔ یہ دیگر سیاستدانوں کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے تھے‘ ان کی دنیا بھر میں فین فالوونگ تھی‘ کرکٹ اور کینسر ہسپتال کی وجہ سے ان کا نام تھا لیکن اتنی نعمتوں اور قدرت کے تحفوں کو بھی وہ ملک کی بہتری کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ پونے چار سال اقتدار میں اپنی تقریروں میں یہی بات دہراتے رہے کہ میں این آر او نہیں دوں گا‘ انہیں چھوڑوں گا نہیں۔ کہتے تھے کہ حکمران کا کام جلسے کرنا نہیں ہوتا لیکن خود الیکشن کمیشن کے نوٹسز کے باوجود جلسے کرتے رہے۔ کس کس بات کو روئیں‘ کیا کیا یاد دلائیں کہ اس سب کا کوئی فائدہ بھی تو ہو کہ کرنی تو انہوں نے اپنی مرضی ہے۔ جو ان کے چھ فٹ کے حصار میں ہو گا‘ اس کے کہنے پر چلیں گے۔ باقی نظریاتی کارکن‘ ہمدرد افراد جو مرضی کہتے رہیں‘ کسی کی پروا نہ ہو گی۔
سیاست میں کرکٹ کی مثالیں دینے کا سلسلہ اب ترک ہونا چاہیے۔ 2014ء میں امپائر کی انگلی اٹھنے کا کہتے کہتے چار مہینے کنٹینر پر رہے لیکن انگلی نہ اٹھی۔ اب آخری بال‘ آخری بال کرتے گرائونڈ سے باہر ہو چکے ہیں۔ سیاست نہ کھیل ہے نہ تماشا‘ یہ صرف اور صرف عوامی خدمت کا نام ہے۔ کوئی کر سکتا ہے تو کرے‘ نہیں کر سکتا تو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے حیلے بہانے کرنا چھوڑ دے۔ یہ روز روز کے جلسے‘ جلسوں میں وہی پرانی باتیں سن سن کر لوگ تنگ آ چکے ہیں۔ کچھ نیا لائیں‘ کوئی ٹیم بنائیں‘ کوئی منفرد کام کر کے دکھائیں‘ پھر بات بنے گی۔ وگرنہ یہ جلسے جلوس لوگوں کا پیسہ‘ وقت اور اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی برباد کر کے چھوڑیں گے۔
گزشتہ روز تو حد ہی ہو گئی جب جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کے نام سے موسوم ایک جعلی میسج چلا کر پروپیگنڈا کیا گیا۔ فوٹو شاپڈ اس مہم کی وجہ سے بہت سوں کو یہ گمان ہوا کہ شاید یہ حقیقت ہو؛ تاہم جسٹس صاحبہ نے جب ٹی وی پر آ کر اس کی تردید کر دی‘ تب حقیقت کھلی۔ ایسے سوشل میڈیا کی بورڈ واریئرز کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جو شاعرِ مشرق کی بہو کو بھی معاف نہیں کر رہے اور جھوٹے پیغام بنانے کے لیے ان کا نام استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو عالمی ٹرینڈ کی باتیں کی جا رہی ہیں‘ اس میں بھی سافٹ ویئرز‘ کوڈز اور سکرپٹ کا استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ ٹرینڈ کئی گنا زیادہ دکھائی دیا۔ یہ ٹرینڈ انتہائی خوف ناک ہے۔ کمپیوٹر پر بیٹھ کر کسی کی بھی پگڑی اتارنے اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کا یہ سلسلہ ملک کو انارکی کی طرف لے جا رہا ہے۔ برداشت تو پہلے ہی اس قوم میں کم ہے‘ اب شدید ترین مہنگائی کے بعد لوگ ایک دوسرے کے گلے پڑنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ اوپر سے سیاسی پارہ اپنی حدوں کو چھو رہا ہے۔ ہر جلسے کے بعد نئی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں کہ جلسے میں کتنے لوگ تھے۔ ہمارے ایک سینئر صحافی دوست نے اس حوالے سے درست لکھا کہ اگر ساتوں براعظم کے لوگ بھی آ کر جلسے میں بیٹھ جائیں‘ تب بھی فیصلہ انتخابات میں ہونا ہے اور کارکردگی کا فیصلہ تو حکومت میں آ کر ہونا ہوتا ہے‘ اگر وہاں آپ ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر چاہے زمین کے علاوہ بھی دیگر تمام سیاروں کی مخلوق جلسے میں شرکت کر لے‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اصل مسئلہ ملک چلانا ہے‘ چھوٹے یا بڑے جلسے کرنا نہیں‘ جلسے تو اور بھی پارٹیوں کے کافی بڑے ہوتے ہیں‘ ایک نوزائیدہ مذہبی سیاسی جماعت بھی بڑے بڑے جلسے کر لیتی ہے تو کیا یہ ملک اس کے حوالے کر دیا جائے؟ عجیب منطق ہے۔