وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ لوگ وہی ہیں لیکن عادات بدل گئی ہیں۔ تہوار وہی ہیں لیکن انہیں منانے کے انداز بدل گئے ہیں۔ عید الفطر کا دن بھی اب پہلے جیسا نہیںرہا۔ ہر کوئی موبائل فون اور سوشل میڈیا کی دنیا میں گم ہے۔ عید کی نماز پر بھی لوگ ملتے ہیں تو سیلفیاں لینے اور تصاویر بنوانے کے لیے۔ اب تو عید کے خطبے کے دوران بھی لوگوں کی توجہ موبائل فون پر ہی ہوتی ہے۔ پہلے سنتے اور کہتے تھے کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے‘ مگر اب تو بچے بھی آن لائن ہی عید مناتے ہیں۔ گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے دوستوں کے ساتھ آن لائن نیٹ ورک گیمنگ شروع کر دیتے ہیں اور اس دوران گپ شپ کرتے رہتے ہیں۔ ماں باپ منہ تکتے رہ جاتے ہیں کہ بیٹا کب ان کے پاس آئے اور وہ اسے پیار کر سکیں‘ کوئی بات چیت کر سکیں۔
دوسری جانب سیاست نے عید کی مٹھاس میں بھی کرواہٹ پیدا کر دی ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کے دفاع کے لیے ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے کو تیار بیٹھا ہے۔ پھر چاہے وہ فیس بک ہو‘ یا دفتر یا پھر گھر‘ ہر جگہ سیاسی بٹوارے ہو چکے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا اپنا لیڈر اور اپنے اپنے دلائل ہیں۔ کوئی ایک لیڈر کی غلطی گنواتا ہے تو دوسرا مخالف لیڈر کا پرانا بیان یاد کرا دیتا ہے‘ یوں اس حمام میں سب ننگے ہو جاتے ہیں اور بحث کا انجام تلخیوں‘ لڑائی جھگڑے اور علیحدگی پر ہوتا ہے۔گزشتہ تین چار سال سے تو یہ سلسلہ اور بھی تیز ہو چکا۔ بالخصوص اس وقت سے جب سے خان صاحب کی حکومت گئی ہے‘ ہر جگہ دھڑے بن گئے ہیں‘ لوگوں کے مزاج بدل گئے ہیں اور ہر کوئی مورچہ بند دکھائی دیتا ہے۔تحریک انصاف کے شیدائی بالخصوص اپنے لیڈر کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو سیاسی اختلاف پہ گالم گلو چ اور مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ گزشتہ دنوں مدینہ منورہ کی بابرکت زمین پر جس طرح مخالفین کے خلاف نعرے بازی کی گئی‘ اس گروہ کے پاس اس کے دفاع کی بھی دلیلیں موجود ہیں۔وہ کہتے ہیں دو ہزار اٹھارہ یا انیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی تھی۔ گویا مخالفین نے اگر کوئی غلط کام کیا ہے تو وہ غلط کام ان کے لیے بھی جائز ہو گیا ہے۔ وہ بھی غلط تھا اور یہ بھی غلط ہے۔ اگر ہم خان صاحب کی بات مان بھی لیں کہ انہوں نے اپنے بندوں کو ایسی کوئی ہدایات جاری نہیں کی تھیں تو پھر ممکن ہے ان کے نیچے‘ ان کی ٹیم نے اپنے طور پر یہ کام کیا ہو‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے اور اپنے لیڈر کو خوش کرنے کے لیے کسی پارٹی لیڈر نے یہ مظاہرہ اپنے طور کروایا ہو تاکہ اگر اس کا فائدہ ہو تو وہ خان صاحب کے سامنے اپنے نمبر بنا سکے لیکن بعد میں جب گیم ہی ساری اُلٹ گئی اور عام لوگوں اور خود تحریک انصاف کے اپنے کئی لیڈران نے اس عمل کو غیر مناسب کہا تو گویا لینے کے دینے پڑ گئے۔ چلیں اگر خان صاحب نے ایسی کوئی ہدایات نہیں دی تھیں‘ تو پچھلے بیس‘ بائیس سال سے ہر فورم پر‘ ہر جگہ اپنے مخالفین کو وہ چوہے‘ چور اور ڈاکو کہتے رہے ہیں‘ حالیہ واقعہ اسی تربیت کا نتیجہ تو نہیں؟
یہ واقعہ کہیں اور ہوا ہوتا تو پی ٹی آئی کو اتنا نقصان نہ پہنچتا مگر مدینہ منورہ کے اس واقعے اور توشہ خانے کیس نے پی ٹی آئی کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر تحائف کو بیچنا قانون میں جائز ہے‘ تب بھی لیڈران کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ تحفہ دینے والے پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ آپ خود سوچیں کہ کوئی باپ اپنے بیٹے کے لیے خصوصی قسم کی کوئی گھڑی یا گاڑی تیار کرائے اور اسے گفٹ کرے اور بعد میں پتا چلے کہ اس نے وہ تحفہ بیچ دیا ہے تو باپ کیا سوچے گا؟
سعودی عرب سے ہمارے دوستانہ تعلقات ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے جو گھڑی خان صاحب کو دی‘ یہ گھڑیاں خصوصی طور پر تیار کروائی گئی تھیں اور ایسی صرف دو ہی گھڑیاں ہیں۔ ہم نے وہ گھڑیاں بھی جا کر فروخت کر دیں۔یہ ہمارے قانون میں بھلے جائز تھا لیکن اخلاقی لحاظ سے گھاٹے کا سودا کیا گیا۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ کام پچھلے ادوار میں بھی ہوتا رہا۔ یہ کام چاہے مسلم لیگ نون نے ماضی میں کیا ہو یا پیپلزپارٹی نے‘ سب کو ایسی حرکات سے باز آنا چاہیے۔ بہتر تو یہ ہے کہ قانون میں تبدیلی لانی چاہیے کہ ایسا ہر تحفہ سرکار کے خزانے‘ بیت المال میں جمع ہو گا اور کوئی اسے گھر نہیں لے جا سکے گا۔ دوسروں کے تحفوں اور جذبات کی بے قدری کرنے کا حق ہمیں کب سے حاصل ہو گیا۔
ابھی توشہ خانے معاملے کی بازگشت جاری تھی کہ گزشتہ دنوں کراچی سے تین بچیوںکے گھر سے غائب ہو نے کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ میڈیا پر طرح طرح کی باتیں چلیں۔ کسی نے کہا اغوا کر لیا‘ کسی نے کوئی الزام لگا دیا۔ بعد میں پتا چلا تینوں نے اپنی پسند کے لڑکوں سے شادی کر لی ہے۔ کراچی سے لاہور آنے والی ایک لڑکی اور اس کے خاوند سے جب پوچھا گیا کہ دونوں کس طرح آپس میں ملے تو انہوں نے بتایا کہ ان کی دوستی پب جی گیم کھیلنے کے دوران ہوئی تھی۔ تین سال تک وہ گیم کھیلتے رہے اور والدین کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ اٹھارہ سال کی اور بالغ ہے جبکہ اس کے والدین اس کا 'ب فارم‘ دکھاکر کہتے ہیں کہ وہ ابھی چودہ سال کی بھی نہیں ہوئی؛ اب عدالت نے لڑکا لڑکی‘ دونوں کو بطور میاں بیوی ساتھ جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس طرح کے کیسز میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے لیکن کسی کو پروا ہے نہ خبر۔لوگوں کے گھر اجڑ رہے ہیں‘ والدین اپنے ہی بچوں کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں جس سے بڑی آزمائش والدین کے لیے شاید ہی کوئی ہو۔ والدین بھی کہیں نہ کہیں غلطی کر رہے ہیں۔ عید کا دن ہو یا عام دن‘ وہ بچوں کو پوری طرح وقت دینے کو تیار نہیں۔ ہر بندے نے اپنی اپنی مصروفیات کا پہاڑ کھڑا کر رکھا ہے۔ ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے فلاں فلاں ٹارگٹ حاصل کرنا ہے‘ اس کے بعد گھر والوں کو ٹائم دیں گے۔ وہ اپنی نظر میں یہ سب بچوں کے لیے کر رہے ہوتے ہیں لیکن بچے کچھ اور ہی سوچ رہے ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید والدین کو ان سے محبت نہیں یا ان کے پاس وقت نہیں۔ انہیں چیزوں اور پراپرٹیوں سے زیادہ اپنے والدین کا پیار چاہیے ہوتا ہے لیکن وہ وقت گزر جاتا ہے اور پھر ہاتھ نہیں آتا۔بچے بڑے ہوتے ہیں‘ ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں تو وہ اپنی فیملیوں میں پھنس جاتے ہیں‘ پھر والدین منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ چلیں! یہ تو نصیب کی بات ہے کہ کس کو کتناپیار ملتا ہے اور کون ایک دوسرے کی کتنی قدر کرتا ہے لیکن ٹیکنالوجی کی وجہ سے ٹوٹتے بکھرتے معاشرے اور خاندانی نظام میں سیاست کے تڑکے نے حالات کا رخ مزید تلخیوں اور الجھائو کی جانب کر دیا ہے۔
سیاست اور مذہب الگ الگ چیزیں نہیں ہیں لیکن مذہب کو سیاست کے لیے چن چن کر استعمال بھی درست نہیں۔ جو کوئی ایسا کرے گا‘ وہ شاید وقتی طور پر فائدہ تو اٹھا لے لیکن اس معاشرے اور نئی نسل کو نفرت کی ایسی آگ میں جھونک دے گا جس کی تپش سے بچنا خود اس آگ میں جھونکنے والوں کیلئے بھی مشکل ہو جائے گا۔مگر کیا کریں‘ شاید سیاست میں بھی دماغ کا استعمال متروک ہو چکا۔اب جس کے پاس لاٹھی ہے بھینس بھی اسی کی ہے۔ جوہزاروں‘ لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتا ہے‘ بس وہی لیڈر ہے۔اخلاقیات‘ شرافت‘اصول‘ دیانتداری‘ کریڈیبلٹی‘ یہ سب باتیں متروک ہو گئی‘یہ ماضی کا قصہ بن گئی ہیں۔