پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کا جو سونامی آیا ہوا ہے‘ اس سے نکلنے کیلئے سبھی ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ چند ہفتوں میں پٹرول کا پچاسی روپے فی لٹر اور ڈیزل کا لگ بھگ 120 روپے فی لٹر بڑھ جانا معمولی بات نہیں ۔ اس سے قبل جب سابق حکومت کے دور میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں‘ تب بھی اس کے اثرات مہنگائی کی شکل میں سامنے آ رہے تھے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کو جب عدم اعتماد کی تحریک کا پتا چلا تو اس نے آئی ایم ایف کو پٹرولیم لیوی تیس روپے تک لے جانے کا یقین دلانے کے باوجود پٹرول کی قیمتوں کو کم کر کے جون تک کے لیے منجمد کر دیا اور اپنے آخری دو ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائیں جس کا خمیازہ عوام کو پٹرول کی قیمتوں میں اچانک غیرمعمولی اضافوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو زیادہ دیر تک روک کر نہیں رکھا جا سکتا تھا‘ جلد یا بدیر یہ قیمتیں بڑھانا ہی پڑنی تھیں لیکن عدم اعتماد کی تحریک تحریک انصاف کے لیے گویا خوش بختی کا سامان لے کر آئی۔ اسے محفوظ راستہ مل گیا اور ساتھ ہی عوام کی حمایت اور ہمدردی بھی۔ اس کا غیرملکی سازش یا مداخلت کا بیانیہ بھی کسی حد تک عوام کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گیا کہ ہم تو کامیابی سے حکومت چلا رہے تھے لیکن ہم سے حکومت چھین لی گئی جو اب ان سے سنبھالی نہیں جا رہی۔ عوام کی بڑی تعداد اس موقف سے متاثر نظر آتی ہے؛ البتہ ان میں زیادہ تر وہ ہیں جن کی موجودگی صرف سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے ۔ وہ تحریک انصاف کی پوسٹس کو لائک کرتے ہیں‘ کمنٹس کرتے ہیں اور ری شیئر بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ پی ٹی آئی کے جلسوں کی رونق تو بڑھاتے ہیں مگر بڑی تعداد ایسی ہے جو لانگ مارچ جیسے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتی۔
اب جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور عوام نکو نک ہو گئے ہیں تو خان صاحب ایک مرتبہ پھر جلسے اور احتجاج کی کال دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تو ماضی میں بھی بڑھتی رہیں اور اب بھی بڑھ رہی ہیں ۔ نہ ماضی میں عوام کو ریلیف دیا گیا نہ اب ایسا کوئی فوری ریلیف ممکن ہے جس سے عوام کی جیب پر پڑنے والا بوجھ ہلکا ہو سکے۔ ہر حکومت کے پاس گنا چنا بجٹ ہوتا ہے۔ وہ اسی میں سے پیسے کچھ اِدھر اُدھر کر کے بجٹ جاری کر سکتی ہے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے دو ہزار روپے ریلیف کی صورت میں دینے کا اعلان کیا گیا تو اس بات کا کافی مذاق اڑایا گیا کہ دو ہزار میں کیا بنے گا۔ حکومت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے‘ اس نے اسی میں سے دینا ہے۔ اگر ہر شخص کو حکومت دل کھول کر پیسے دینے لگے تو سارا بجٹ شاید پندرہ دن ہی میں ختم ہو جائے۔ حقائق کی دُنیا خوابوں اور اُمیدوں کی دُنیا سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ حکومت کو ہر چیز واضح اور صاف صاف عوام کے سامنے رکھنی چاہیے کہ ہمارے پاس اتنے پیسے ہیں اور ہم اتنا ریلیف دے سکتے ہیں۔ نہ سابق حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ تھا نہ موجودہ حکومت کے پاس؛ تاہم دیگر کی طرح‘ خان صاحب بھی حکومت میں آنے سے قبل جس طرح کے دعوے کرتے تھے کہ نوے دنوں میں کرپشن ختم کر دیں گے‘ سیاحت سے ملک بدل دیں گے‘ ڈالروں کا سیلاب آ جائے گا‘ دو سو ارب ڈالر بیرونِ ملک سے واپس لا کر آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں گے‘ ایک کروڑ نوکریاں‘ پچاس لاکھ گھر‘ یہ سب باتیں کی گئیں۔ جب آپ توقعات کو اس قدر بڑھا دیں گے اور ان کی بنا پر ووٹ لے کر حکومت بنائیں گے مگر حکومت میں آنے کے بعد سرکاری خزانے ‘قرضوں اور معیشت کی اصل صورت حال آپ کے سامنے آئے گی اور آپ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ میں آلو پیاز کی قیمتیں پتا کرنے نہیں آیا تو پھر کیا امیج رہ جائے گا‘ پھر عوام سے کیسے دوبارہ احتجاج میں شرکت کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیسے ان سے دوبارہ وہی پرانے خواب دکھا کر ووٹ مانگے جا سکتے ہیں؟اس مرتبہ تو عدم اعتماد تحریک کی صورت میں پی ٹی آئی کو سیف ایگزٹ مل گیا لیکن قسمت ہر مرتبہ ساتھ نہیں دیتی۔
تحریک انصاف کے دور میں جس طرح مہنگائی بڑھی‘ خود پارٹی کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ اگر پانچ سال پورے کر لیے تو عوام اگلی مرتبہ ووٹ نہیں دیں گے۔ دیکھا جائے تو موجودہ اور سابقہ حکومت میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ موجودہ حکومت پی ڈی ایم کے محاذ سے حکومت کر رہی ہے جبکہ سابق حکومت اتحادیوں کے سہارے چل رہی تھی۔ جیسے ہی عدم اعتماد کی تحریک آئی اور اتحادیوں نے ساتھ چھوڑا تو حکومت نیچے آ گری۔ اگر سابق دور میں خان صاحب کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے تو وہ کس طرح موجودہ وزیراعظم پر تنقید کر سکتے ہیں کہ وہ فیصلوں میں آزاد نہیں؟ سابق دور میں تحریک انصاف کی حکومت بھی ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے اوربلوچستان عوامی پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی اسی طرح محتاج تھی جس طرح موجودہ دور میں مسلم لیگ (ن) کو تحفظات کے باوجود دیگر جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑ رہا ہے۔ سابق دور میں بھی مجبوریوں اور کمپرومائز کے ذریعے حکومت چل رہی تھی اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ تب بھی اتحادیوں کے ساتھ 'کچھ دو، کچھ لو‘ کا فارمولا اپنایا جا رہا تھا‘ آج بھی وہی صورتحال درپیش ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر بدلا کیا ہے؟ چہرے تو عشروں سے بدلتے آ رہے ہیں ۔ اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ عوام کی حالت ہے جو عشروں سے نہیں بدلی‘ ان کے حالات نہیں بدلے۔ہر حکومت عوام کی خوش حالی کا نعرہ لے کر اقتدار میں آئی مگر اقتدار میں آنے کے بعد اس نے عوام ہی کو سبق سکھانا شروع کر دیا۔ ہر جماعت اقتدار میں آ کر اُسی آئی ایم ایف کے قدموں میں جا گری‘ انتخابی مہم میں جس کے خلاف نعرے لگا کر ووٹ لیے تھے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی جماعت کے پاس ملک کو تبدیل کرنے کا فارمولا ہے ہی نہیں۔ سب کے پاس عوام کو سنانے کے لیے لمبی لمبی تقریریں ہیں‘ جدید ممالک کی کامیابی اور ترقی کی مثالیں ہیں‘ مخالفین کی کرپشن اور اقرباپروری کے قصے ہیں اور یہی چورن بازار میں ہاتھوں ہاتھ بکتا بھی ہے۔ عوام بھی سیاستدانوں کو ایک دوسرے پر گولا باری کرتا دیکھ کر محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ انہیں ان چٹکلوں‘ میمز اور سوشل میڈیائی لطیفوں کا مزہ آنے لگ گیا ہے۔ وہ چند سیکنڈز کی ٹک ٹاک وڈیوز یا فیس بک کی رِیلز کے نشے میں احتجاج کرنا اور اپنا حق حاصل کرنا بھولتے جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر سائیکل یا زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی ‘ اس سے قطع نظر اس بات پر ان کی زیادہ توجہ ہے کہ فلاں سیاستدان نے فلاں کے بارے میں آج کیا ذو معنی بات کہی ‘ فلاں کی وڈیو آ گئی یا آڈیو لیک ہو گئی‘ فلاں اینکر نے فلاں کو خوب سنائیں‘ فلاں سے انٹرویو لیتے ہوئے یوٹیوبر نے فلاں بات کہہ دی‘سارا دن اور ساری رات‘ عوام بس انہی آڈیوز اور وڈیوز کے جھمیلے میں پڑے رہتے ہیں۔ پٹرول دو سو چونتیس اور ڈالر دو سو دس سے تجاوز کر چکا ہے لیکن لوگ صرف یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس سیاستدان کو وہ پسند نہیں کرتے‘ اس کی مخالف پارٹی نے اس کی کیسی چھترول کی ہے‘ کیسے اسے لتاڑا ہے وہ اسی میں خوش اور اسی میں راضی ہیں۔ چاہے ان کے گھر میں آٹا ہے یا نہیں‘ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں۔ وہ یہ سوچ ہی نہیں رہے کہ آئندہ نسلوں کا کیا ہو گا‘ وہ بس اسی فکر میں غلطاں ہے کہ کسی طرح آج کا دن گزار لیں‘ کل کی کل دیکھی جائے گی۔ حکمرانوں کو بھی ایسی ہی قوم اور ایسے ہی عوام چاہئیں جو خواب تو جاپان اور جرمنی بننے کے دیکھتے رہیں لیکن اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنے کی باری آئے تو بستروں میں گھس کر موبائل فون کے ساتھ آنکھیں چپکا لیں اور ہر رات یہ اُمید لگا کر چپکے سے سوجائیں کہ صبح اٹھیں گے تو انقلاب آ چکا ہو گا‘ آنکھ کھلے گی تو نیا پاکستان بن چکا ہوگا!