ایک خبر کے مطابق حکومت نے سرکاری عمارات کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ نہ صرف لوڈشیڈنگ کے دوران بجلی کی سپلائی جاری رہ سکے بلکہ سستی یا مفت بجلی کی ترسیل کو بھی جاری رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے پاکستان نے چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سولر انرجی کے منصوبے لگانے کی پیش کش کی ہے۔ پاکستان ایسا خوش نصیب ملک ہے کہ یہاں دیگر قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ دھوپ بھی سارا سال وافر مقدار میں میسر رہتی ہے۔ چین اس حوالے سے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہے جہاں سب سے زیادہ سولر پینل لگائے جا چکے ہیں۔ چین سولر انرجی سے 205گیگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔امریکا دوسرے نمبر پر ہے لیکن بجلی کی پیداوار میں چین سے بہت فاصلے پر ہے۔ یہ 75گیگا واٹ بجلی سولر سے بنارہا ہے۔2010ء میں چین نے سرکاری سطح پر یہ اعلان کیا تھا کہ پورے ملک میں شمسی توانائی کا جال بچھایا جائے گا۔ اس ضمن میں سولر پینل سسٹم لگانے کے لیے خصوصی پیکیجز اور رعایتیں بھی دی گئیں۔ سولر سے بجلی پیدا کرنے والے ممالک میں جاپان 63گیگا واٹ کے ساتھ تیسرے‘ جرمنی 49گیگا واٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ پانچویں نمبر پر بھارت ہے جو شمسی توانائی سے 38گیگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔بھارتی حکومت نے 2030ء تک ملک بھر میں سولر انرجی سے بجلی کی پیداوار کا ہدف 450گیگا واٹ رکھا ہے اور اگر یہی رفتار رہی تو 2040ء تک بھارت میں چالیس فیصد بجلی کی پیداوار شمسی توانائی کے ذریعے ہو رہی ہو گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت صرف پندرہ سو میگا واٹ یا 1.5گیگا واٹ بجلی سولر سے حاصل کر رہا ہے جو انتہائی کم ہے۔
پوری دنیا میں سولر انرجی صرف اس لیے نہیں تیزی سے اپنائی جا رہی کہ یہ سستی یا مفت بجلی کا ذریعہ ہے بلکہ اس کا ایک اور فائدہ اس کا ماحول دوست ہونا ہے۔ اس میں کسی قسم کا ایندھن نہیں پڑتا اور نہ ہی اس سے کوئی مضر شعائیں خارج ہوتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے سولر پینلز کی درآمد پر سترہ فیصدڈیوٹی ختم کر دی ہے جس کے بعد امید تو یہی کی جا رہی تھی کہ سولر سسٹم سستے ہو جائیں گے لیکن دوسری طرف ڈالر کی قدر میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے؛ چنانچہ سولر پر ڈیوٹی ختم کرنے کے باوجود قیمتوں میں نمایاں کمی ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے بھی قیمتوں میں کمی کا اطلاق ان سولر پینلز پر ہو گا جو یکم جولائی کے بعد درآمد کیے جائیں گے۔ اس وقت تو جو آرڈر دیے گئے ہوں گے‘ وہ گزشتہ مالی سال کے ہوں گے اور ڈرائی پورٹ پر کلیئرنس کے انتظار میں یا راستے میں ہوں گے لہٰذا یہ پرانے ریٹس پر ہی بیچے جائیں گے۔ اس کے باوجود سولر سسٹم موجودہ قیمت پر لگوانا بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ اس انتظار میں رہنا کہ درآمدی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد جب سولر پینلز سستے ہوں گے‘ تب خرید لیں گے‘ میرے نزدیک سراسر حماقت ہے۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں حالات انتہائی غیر یقینی کا شکار اور کافی حد تک عجیب و غریب ہیں۔ کس وقت کیا ہو جائے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں اب یہ سوال اہم نہیں رہا کہ چیزیں مہنگی کیوں مل رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں ماہرین اب اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ وقت تقریباً آ چکا ہے کہ جب بیشتر چیزیں ویسے ہی نایاب ہو جائیں گی اور جس قیمت پر بھی ملیں گی‘ لوگ ہنسی خوشی یا بادلِ نخواستہ لینے پر مجبور ہوں گے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں پٹرول پمپوں پر دو‘ دو کلومیٹر طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں جبکہ پٹرول بھی کئی گنا مہنگا ہو چکا ہے۔ پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات تو نہیں لیکن بعض اوقات اور بعض چیزوں کے حوالے سے کافی کچھ ملتا جلتا ہے۔ کورونا میں پٹرول کی کھپت کم ہو گئی تھی اور یہ انتہائی سستے داموں مل رہا تھا اور اس وقت ایسا لگتا تھا کہ مہنگی اور پرتعیش اشیا ٹکے ٹوکری ہو جائیں گی۔ مہنگی ترین گاڑیاں اور محلات کوڑیوں کے داموں بھی لینے والا کوئی نہیں ہو گا لیکن جیسے جیسے کورونا ختم ہو رہا تھا‘ اشیا اور رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں روشنی کی رفتار سے بڑھنے لگیں۔ پاکستان جیسے ملک میں بھی‘ جہاں لوگ ذرا ذرا سی بات پر مہنگائی کا رونا روتے ہیں‘ گاڑیوں کی نئی کمپنیاں اور نت نئے ماڈلز آ گئے اور یہ گاڑیاں دس دس لاکھ روپے اون پر ہاتھوں ہاتھ بکنے لگیں۔ چنانچہ ایک طبقہ پاکستان میں اب بھی ایسا ہے جسے پٹرول پانچ سو روپے فی لٹر ہونے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہ طبقہ پانچ ‘دس فیصد سے زیادہ نہیں لہٰذا انہیں دیکھ کر یہ سمجھ لینا کہ بائیس کروڑ عوام خوش حال ہیں‘ درست نہیں ہے۔ عوام کی اکثریت اس وقت دو وقت کی روٹی سے زیادہ کچھ سوچنے کے قابل نہیں رہی۔ ایسے لوگ بھی کروڑوں میں ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ ان کے ماہانہ فیول اخراجات کے لگ بھگ ہے۔ اب بجلی کی قیمت آٹھ روپے فی یونٹ بڑھ گئی ہے تو ایسے میں لوگوں کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر غریب طبقے کے لیے شمسی توانائی کے سستے اور بلا سود منصوبوں کا اعلان کرے تاکہ لوگوں کو کہیں سے تو کوئی ریلیف مل سکے۔ وگرنہ آئی ایم ایف کی شرائط ‘جو پہلے ہی نچلے اور درمیانے طبقے کا گلا گھونٹ چکی ہیں‘ وہ انہیں زندہ درگور کرنے پر نہ اتر آئیں۔ ہر چھوٹے گھر کو بھی اس وقت دو پنکھوں‘ ایک کولر‘ ایک فریج اور چند لائٹس کا بل دس سے بارہ ہزار روپے آ رہا ہے‘ جو ظاہر ہے کہ پسماندہ طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔ اگر ایسے گھرانوں کو سولر پینلز لگانے کے لیے بلاسود قرضے دیے جائیں تو لاکھوں خاندانوں کا بھلا ہو گا۔ بے شمار ایسی تنظیمیں ہیں جن کو ہر حکومت تسلیم بھی کرتی رہی ہے اور انہیں سپورٹ بھی کرتی ہے۔ ان کے پاس ایسے غریب گھرانوں کا ڈیٹا بھی موجود ہو گا جو چھوٹے قرضے لے کر اپنا کام کر رہے ہیں اور قرضہ واپس بھی کر دیتے ہیں۔ تین مرلے کے گھر میں سولر سسٹم چلانا ہو تو بغیر ایئرکنڈیشنر کے‘ سارا گھر دو سے تین کلو واٹ کے سولر سسٹم پر چل سکتا ہے جس کی مارکیٹ میں لاگت دو سے تین لاکھ روپے ہے۔ اگر ایک ایئرکنڈیشنر بھی ساتھ چلانا ہو تو پھر یہ لاگت پانچ لاکھ روپے تک چلی جاتی ہے؛ چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ دو سے پانچ سال کے دورانیے کے لیے دو سے پانچ لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضوں کی سکیم شروع کرے جس میں ایس ای سی پی‘ ایف بی آر‘ پاکستان انجینئرنگ کونسل اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ منسلک اچھی شہرت اور معیار کی حامل کمپنیوں کو آن بورڈ لیا جائے اور یہ کمپنیاں چھوٹے گھروں کی ضروریات کے مطابق چھوٹے چھوٹے پیکیجز تیار کریں۔ درخواست گزار کی منظوری کے بعد اس پیکیج کی رقم حکومت فلاحی تنظیموں کے ذریعے ان کمپنیوں کو ٹرانسفر کر دے تاکہ وہ گھروں میں سولر سسٹم انسٹال کر دیں جبکہ درخواست گزار ہر ماہ ایک مخصوص رقم ان تنظیموں کو جمع کرا تے رہیں۔ اس طرح نچلا اور درمیانی طبقہ نہ صرف لوڈشیڈنگ سے محفوظ ہو جائے گا بلکہ پچیس برس تک اسے بجلی بھی مفت ملتی رہے گی۔
اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ وہ نئے گھروں کی تعمیر میں بھی سولر سسٹم لگوانے کو لازمی قرار دے کیونکہ نیا گھر بناتے وقت بہرحال انسان کے پاس پیسہ ہوتا ہے اور وہ دیگر بجٹ میں کمی بیشی کر کے سولر سسٹم لگوا سکتا ہے۔ ویسے بھی ایسے گھر کا کیا فائدہ جہاں ہر چیز عالیشان ہو لیکن بجلی ہی موجود نہ ہو یا بجلی کا بل افورڈ کرنا مشکل ہو جائے۔اس ضمن میں حکومت رہائشی سکیموں کو بھی اس بات کی پابند بنا سکتی ہے کہ وہ اگلے پانچ برس میں اپنے کم از کم پچاس فیصد گھروں کو سولر پر منتقل کریں۔ اس ضمن میں حکومت سبسڈائزڈ قیمتوں پر انہیں سولر پینلز بھی مہیا کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے صنعتی یونٹس، فیکٹریوں اور کارخانوں پر بھی لازم قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی کم از کم پچیس فیصد بجلی سولر پینلز یا دیگر گرین ذرائع سے پیدا کریں۔ یقینا یہ کام ان کے لیے زیادہ مشکل نہ ہو گا اور اس میں فائدہ بھی ان کا اپنا ہی ہو گا۔
سرکاری عمارات پر سولر پینلز لگانے کے ساتھ ساتھ اگر حکومت ان تجاویز کے تحت نچلے اور درمیانے طبقے کو بھی سولر انرجی کے لیے بلاسود قرضے دے اور ایسے منصوبے شروع کرے تو ملک میں توانائی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور عوام پر سے مہنگائی کا بوجھ بھی کافی حد تک کم ہو سکے گا۔