کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے انسان بے بس نظر آتا ہے اور وہ اس کے دائرئہ اختیار سے مکمل باہر ہوتے ہیں‘ جیسے مہنگائی‘ دہشت گردی‘ قدرتی آفات وغیرہ۔ لیکن کچھ ایسے ہیں جو انسان کے اپنے دائرۂ اختیار میں ہوتے ہیں اور جنہیں تھوڑی سی کوشش سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘ جیسے کہ لائف سٹائل‘ترجیحات کا تعین‘فضول خرچی‘وقت کی پابندی وغیرہ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں جو ہماری طاقت‘ پہنچ اور کنٹرول سے باہر ہیں۔ ہم قسمت کو اور اپنے نصیب کو روتے ہیں کبھی حکومت اور کبھی امریکا کو برا بھلا کہتے ہیں اورہمارے اس رونے دھونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ وہ مسائل جوں کے توں رہتے ہیں لیکن ہم رو رو کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں ‘اپنا خون جلاتے رہتے ہیںاور اپنی توانائی اور وقت کا اہم حصہ برباد کر دیتے ہیں۔
کچھ لوگوں کو ہر معاملے میں امریکا اور مغرب کو برا بھلا کہنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ آپ کو جہاں ملیں گے‘ امریکا اور مغرب کی برائیاں شروع کر دیں گے۔ یہ عالمی‘ ملکی حتیٰ کہ گھریلو مسائل میں بھی عالمی سازشوں کی تھیوریاں پیش کریں گے۔ یہ درست ہے کہ امریکا نے عراق پر چڑھائی کی‘ کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹے الزام لگا کر اس کا بیڑہ غرق کر دیا ‘ اس نے افغانستان کو روند ڈالا‘جہاں جہاں اسے اپنا مفاد نظر آیا اس نے وہاں بمباری شروع کر کے ہلّا بول دیا۔ یہ سب وہ واقعات ہیں جن پر ہمارا بس نہیں چل سکتا۔ ہم ان کے خلاف کسی فورم پہ آواز تو اٹھا سکتے ہیں لیکن یہ آواز اگر ہم گھر بیٹھے اٹھاتے رہیں گے‘ ایک دوسرے کو سناتے رہیں گے تو امریکہ کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ویسے تو اسے بڑے بڑے ملین مارچوں سے بھی فرق نہیں پڑا تھا جو عراق پر حملے کے وقت لندن اور دیگر جگہوں پر ہوئے تھے لیکن روز روز اپنا خون جلانے سے سوائے اس کے کہ ہمارا اپنا بلڈ پریشر بڑھے گا‘ ہمارے اپنے معدے اور ہمارے اہلِ خانہ مزید تنائو کا شکار ہوں گے‘ بلاوجہ تبصروں اور تجزیوں سے کیا حاصل ہو گا۔کیا اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ ہم اُن معاملات پر بھی غور کریں جن کا امریکا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ جو ہماری پہنچ اور ہمارے اختیار میں ہیں اور جن پر غور کرنے سے ہماری زندگیاں کچھ نہ کچھ آسودہ ہو سکتی ہیں۔ویسے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان معاملات کو بھی امریکی اور یہودی سازش سے ملا دیں گے مثلاً اگر کوئی شخص شکایت کرتا ہے کہ اس کا معدہ خراب رہتا ہے تو سامنے والا ارسطو جواب میں یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب امریکا اور یہودیوں کی سازش ہے کیونکہ تم زیادہ تر رات کو کھانا کھاتے ہو اور وہ بھی آن لائن موبائل ایپس سے منگوا کر۔ گوروں نے موبائل فون نہ بنایا ہوتا تو آج ایسی آن لائن کھانا آرڈر کرنے والی موبائل ایپس بھی نہ ہوتیں اور نہ تمہارا معدہ خراب ہوتا۔ وہ اسے بتائے گا کہ یہودیوں نے موبائل فون بنایا ہی مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لیے ہے۔ موبائل فون کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ ہو رہے ہیں۔ اسی کی وجہ سے آج بیٹا باپ کو اور ماں بیٹی کو وقت نہیں دیتی۔سب اپنے اپنے کمروں میں موبائل فون سے چپکے رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری نظریں زیادہ سے زیادہ سکرین پر رہیں تاکہ ہماری آنکھیں اتنی کمزور ہو جائیں کہ ہمیں نظر ہی آنا بند ہو جائے اور وہ یکدم آ کر حملہ کر دیں اور ہمارے ملک پر قبضہ کر لیں۔اس طرح کی دُور کی کوڑیاں لانے والے کئی لوگ آپ کے اردگرد بھی ہوں گے۔ بلکہ کورونا میں بھی ہم نے دیکھا کہ کسی نے کہا: یہ امیروں کی بیماری ہے، کسی نے کہا کہ غریبوں کو مارنے آئی ہے۔ بہت سے لوگ اسے اسلام کا سماجی نظام ختم کرنے کی سازش بھی قرار دیتے تھے۔ پھر ویکسین کے حوالے سے درجنوں ایسی باتیں اور تھیوریاں جن کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ایسے لوگ ہر موضوع پر بات کرتے ہیں لیکن وہ آپ کو کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جس تنزلی کا شکار ہیں اس میں قصور ہمارا اپنا ہے۔ وہ اس بات کی تلقین کبھی نہیں کریں گے کہ ہمیں شادی بیاہ‘ خوشی غمی کے مواقع پر فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہ مہنگائی کو عالمی مارکیٹ کی اونچ نیچ اور حکومت کی تبدیلی اور کسی سازش سے جوڑنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔وہ کبھی نہیں کہیں گے کہ پانی ضائع کرنا گناہِ کبیرہ ہے، یا ہم جو دانت برش کرتے وقت‘ شیو یا وضو کرتے اور نہاتے وقت سینکڑوں لٹر پانی ضائع کرتے ہیں‘ یہ ہمیں نہیں کرنا چاہیے یا ہم کیسے اس میں کمی لا سکتے ہیں۔ اسی طرح شادی بیاہ پر بھی ایسے لوگ نہ خود خرافات اور پیسوں کے ضیاع سے بچیں گے نہ دوسروں کو روکیں گے۔ یہ ادھار اور قرض پکڑ کر دنیا کو دکھانے کے لیے ہر رسم پوری کریں گے اور بعد میں جب جیب خالی ہو جائے گی تو ملکی معیشت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیں گے۔ یہ رنگ برنگی بگھیوں ‘لیموزین گاڑیوں اور مہنگے ترین وڈیو میکرزکو ایک دن کا دس‘ بیس لاکھ دے دیں گے لیکن ایسے ہی لوگوں کو اگر کبھی سال میں ایک مرتبہ کسی غریب مستحق طالب علم کی فیس کی ادائیگی کا کہا جائے تو ان کا دل اور جیب فوراً تنگ پڑ جائے گی۔ حکومت شادی ہالوں کو رات دس بجے بند کرنے کا کہے گی تو یہ کوشش کریں گے کسی طرح ایک گھنٹہ اور مل جائے۔ یہ اس پر بھی لاکھ تاویلیں لے آئیں گے کہ حکومت اپنے خرچے تو کم نہیں کرتی‘ خود تو یہ لوگ ہیلی کاپٹروں پر پھرتے ہیں جبکہ ہمیں زندگی میں ایک مرتبہ شادی کا فنکشن کرنا ہوتا ہے‘ اس پر بھی کھل کر ہمیں اپنی مرضی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔شادی میں ون ڈش کی پابندی پر تو ایسے تلملاتے ہیں جیسے ون ڈش کوئی نقصان دہ شے ہو۔
لاتعداد مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب ہم مسلسل نعمتوں کی بے قدری کرتے ہیں‘ وسائل ضائع کرتے ہیں اور اس پر ستم یہ کہ اپنے ان رویوں کو برا بھی نہیں سمجھتے اور اپنی پسند کی کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کر لیتے ہیں۔تنقید وہ واحد کام ہے جو آسانی سے ہو سکتا ہے اور ہمارے ملک میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سیاستدانوں سے لے کر میڈیا‘ سوشل میڈیا تک‘ سبھی تنقید کیے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی سماجی مسائل کو ڈسکس کرنے اور ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں۔سب سے آسان کام مغرب پر تنقید کرنا ہے لیکن ایسا کرنے والے بھی تنقید کرنے کے لیے مغرب کی بنائی گئی چیزوں اور سروسز کے محتاج ہیں اور انہی کے ذریعے ان پر ہی تنقید کرتے ہیں۔ وہ مغرب کی اچھی باتوں کو اپنانے یا ماننے کو بھی تیار نہیں۔وہ کبھی تعریف نہیں کریں گے کہ یورپ میں اس طرح پانی ضائع نہیں کیا جاتا جیسے ہم کرتے ہیں۔ وہ تو شادیوں میں چار ‘چار سو لوگوں کی براتیں لے کر نہیں جاتے۔ وہاں تو جہیز لینے دینے کا رواج نہیں ہے۔ وہاں تو شادیوں پر اس طرح کھانا دیا جاتا ہے نہ ضائع ہوتا ہے۔وہ تو رات کو سات بجے ڈنر کر کے نو بجے تک سو جاتے ہیں۔ وہ وقت کی پابندی اور اپنی ہر کمٹمنٹ پوری کرتے ہیں۔ جیسا بتاتے ہیں‘ ویسا ہی فروخت کرتے ہیں۔وہ تو ہر اچھی عادت کو اپنا چکے ہیں۔ قرآنِ حکیم میں جو کائنات کے بارے میں غوروفکر کرنے کا کہا گیا ہے تو یہ غوروفکر کون کر رہا ہے۔ کون سمندر کی گہرائیوں اور آسمان کی بلندیوں کے درمیان جو کچھ ہے اس کی کھوج میں لگا ہوا ہے۔ تحقیق اور تعلیم کے میدان میں کون آگے ہے اور کون پیچھے ‘یہ سب یہ لوگ ہمیں نہیں بتائیں گے لیکن ہم بھی جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ہم سارا سارا دن کیا کرتے رہتے ہیں۔
کیا ہی بہتر ہو کہ ہم جتنی توانائی‘ وقت اور توجہ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے اور اپنے دائرۂ اختیار سے باہر معاملات پر بحث و مباحثوں اور ذہنی تنائو بڑھانے پر لگادیتے ہیں‘ اتنی توجہ، توانائی اور وقت اپنے لائف سٹائل‘ روز مرہ کے معاملات اور اپنی اخلاقیات کو بہتر کرنے میں لگا دیں تو ہمارے بہت سے معاملات حل ہو جائیں‘ وہ بھی بغیر کوئی روپیہ پیسہ خرچ کیے۔