"ACH" (space) message & send to 7575

سنتِ ابراہیمی اور آزادی کا سورج

ایک طرف ہم یہاں آزادی کے ساتھ قربانی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں تو دوسری جانب کشمیری عوام کے لیے آزادی سے سانس لینا بھی محال ہو چکا ہے۔ بھارتی ریاستی فوج کی جانب سے کشمیر میں ان کے لیے عید کا دن بھی خوف سے لبریز کر دیا جاتا ہے۔ یوں تو کشمیر کی جدوجہد کئی عشروں پر محیط ہے لیکن آج سے ٹھیک چھ برس قبل اس تحریک کو ایک کشمیری نوجوان برہان وانی نے نئی جِلا بخشی اور تحریک میں نیا جذبہ اور نئی توانائی بھر دی۔ کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے آٹھ جولائی کا دن کشمیری رہنما برہان وانی کی شہادت کی چھٹی برسی اور یوم مزاحمت کے طور پر منایا۔ بھارتی فوجیوں نے برہان وانی کو ان کے دو ساتھیوں کے ہمراہ 2016ء میں ضلع اسلام آباد کے علاقے کوکر ناگ میں ایک جعلی مقابلے کے دوران شہید کر دیا تھا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد پوری وادیٔ کشمیر میں زبردست عوامی مظاہروںکا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ کشمیر میڈیا سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق برہان وانی کی شہادت سے لے کر اب تک بھارتی فوجیوں نے زیر تسلط علاقے میں ڈیڑھ ہزار کشمیریوں کو شہید کردیا ہے جن میں 37خواتین اور 122کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 189افراد کو جعلی مقابلوں یا حراست کے دوران شہید کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برہان وانی بھارت کے غیرقانونی تسلط کے خلاف کشمیریوں کی مزاحمت کی علامت ہیں اور کشمیری عوام ان کے مشن کو ہر قیمت پر اس کے منطقی انجام تک جاری رکھیں گے کیونکہ وہ ان کے دلوں میں بستے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ برہان وانی کی شہادت نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کونئی جِلا بخشی کیونکہ ان کے ماورائے عدالت قتل کے بعد ہزاروں برہان ابھر کے سامنے آئے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کی فسطائی حکومت نے برہان وانی کو ماورائے عدالت قتل کیا۔ وہ اس قتل کو پوری کوشش کے باوجود نہ چھپا سکی کیونکہ یہ وہ دور نہیں جب ایسے واقعات کو آسانی سے دبایا جا سکتا تھا۔ یہ میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور ہے جہاں ہر شخص خبر کو رپورٹ کر سکتا ہے‘ اس پر تجزیہ کر سکتا ہے اور اپنی آزادانہ رائے دینے کا حق رکھتا ہے۔ بھارتی بربریت کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو کمزور کر سکی ہے نہ ہی آئندہ کر سکے گی۔ کشمیریوں کے سامنے ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے آزادی۔ وہ بھارتی تسلط سے ہر قیمت پر چھٹکارا چاہتے ہیں۔ ہر انسان کے لیے اس کی جان سب سے قیمتی ہوتی ہے جسے وہ ہرصورت بچانا چاہتا ہے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں کشمیری اپنی جانیں اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے نچھاور کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ جب تک وہ بھارتی تسلط سے آزادی نہیں حاصل کر لیتے‘ کشمیری نوجوان برہان مظفر وانی کے طور پر سامنے آتے رہیں گے۔ ان کے چہرے اور ان کے نام مختلف ہوں گے لیکن ان کا مقصد اور ان کا جوش اور ولولہ برہان وانی جیسا ہی ہوگا۔ برہان وانی کے یوم شہادت کو یومِ مزاحمت کے طور پر منانے کا مقصد شہداء کے مشن کو اس کے منطقی انجام تک جاری رکھنا ہے۔ بھارت دنیا کی بڑی اور طاقت ور فوج رکھتا ہے۔ اسے یہ زعم ہے کہ وہ اس فوج اور جدید ہتھیاروں کے ذریعے کشمیریوں کے جذبۂ حب الوطنی کو دبا لے گا تاہم اس کی یہ خام خیالی دُور ہو جانی چاہیے کیونکہ ایسا ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا اور کشمیری بھارت کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہوتے۔ حقیقت آج بھی وہی ہے اور بھارت کو اسے آج نہیں تو کل ماننا ہی پڑے گا کہ بھارت مقبوضہ کشمیرمیں وحشیانہ قتلِ عام کے ذریعے کشمیریوں کے جذبۂ حریت کوکمزور نہیں کر سکتا۔ جس طرح برہان وانی جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا پُرجوش حامی تھا‘ اسی طرح مقبوضہ کشمیر کا بچہ بچہ بلکہ پوری دنیا کے کشمیری عوام اور پاکستانی اسی جذبے کے حامی ہیں اور کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔
شبیر احمد شاہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین ہیں اور بھارت نے انہیں دیگر کشمیری رہنمائوں کی طرح غیر قانونی طور پر نظر بند کیا ہوا ہے۔ انہوں نے بھی کشمیریوں سے معروف نوجوان رہنما شہید برہان وانی کے یومِ شہادت کو یومِ تجدید عہد کے طور پر منانے کی اپیل کی جس پر پورے کشمیر کے عوام نے لبیک کہا اور اس تحریک کو مزید متحرک اور ولولہ انگیز بنانے کا عہد کیا۔ کیسی حیران کن تحریک ہے کہ ایک طرف بھارت جبر اور مظالم میں اضافہ کر رہا ہے تو دوسری جانب کشمیریوں کے جذبۂ حریت میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن برہان وانی کا خون رنگ لائے گا اور تحریک آزادی کیلئے شہداء کی یہ بے مثال قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنیں گی۔ شہید برہان وانی اور ان کے اہلِ خانہ نے جدو جہد کیلئے ایثار اور قربانی کے جذبے کی جو عظیم مثال قائم کی‘ کشمیری عوام ان شہدا کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کے دلوں میں ان بچوں‘ بزرگوں اور نوجوانوں کی یادیں تازہ رہیں گی جنہوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ شہدا ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی شہید کے بارے میں یہی کہا گیا ہے کہ شہید کو مردہ نہ کہو‘ وہ زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے۔ قرآنی آیات اور احادیث سے شہید کی عظمت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ شہیدبرہان وانی نے فسطائی بھارتی حکومت کے قید و بند‘ ظلم و تشدد‘ گرفتاریوں اور قتل عام کے سامنے اپنا سینہ تان کر جان دے دی اور ہمیں یہ پیغام دیا کہ ہمیں اپنے حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی جان بھی دینی پڑے تو کوئی پروا نہیں۔ کُل جماعتی حریت کانفرنس کے غیرقانونی طورپر نظر بند رہنما نعیم احمد خان نے بھی تہاڑ جیل سے جاری ایک پیغام میں کشمیری عوام پر زور دیا کہ وہ ہزاروں کشمیری شہدا کو ان کی عظیم قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرنے اور اپنے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کے اعادے کیلئے ہفتۂ شہدا منائیں۔ انہوں نے جاری جدوجہد آزادی کیلئے کشمیری شہدا کی بے مثال قربانیوںکو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کی قربانیوں کی وجہ سے ہی آج تنازعہ کشمیر مرکز نگاہ بن گیا ہے۔ ہمیں کشمیریوں کے بہتر مستقبل کیلئے اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے اہلخانہ کو یاد رکھنا چاہیے۔ کشمیریوں کو شہید برہان مظفر وانی جیسے نوجوانوں پر فخر ہے جنہوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں اور یہ کشمیری شہدا ہماری قوم کا فخر ہیں۔ 13جولائی کا دن بھی کشمیر کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ 13جولائی کو 1931ء کے شہدا کی یاد میں یومِ شہدائے کشمیر کے طور پر منایا جائے گا۔ 13جولائی 1931ء کو ڈوگرہ مہاراجہ کے فوجیوں نے سری نگرسینٹرل جیل کے باہر یکے بعد دیگرے 22کشمیریوں کو شہید کر دیا تھا جو وہاں عبدالقدیر نامی ایک شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت کے موقع پر جمع ہوئے تھے جس نے کشمیری عوام کو ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کیلئے کہا تھا۔ اس دوران نماز ظہر کا وقت ہوا تو ایک نوجوان اذان دینے کیلئے کھڑا ہوا۔ ڈوگرہ فوجیوں نے اذان دینے والے نوجوان کو گولی مار کو شہید کر دیا جس کے بعد ایک اور نوجوان نے اٹھ کر اذان جاری رکھی اوراسے بھی فوجیوں نے گولی مارکر شہید کردیا‘ اس طرح اذان مکمل ہونے تک 22 نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد بہادری‘ جرات اور جانثاری کی ایسی ہی سینکڑوں ہزاروں داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ جو لاکھوں کشمیری جدوجہد آزادی کی تحریک میں شہید ہوئے ان کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب بھارتی غاصب فوج اور حکومت کو دینا پڑے گا۔ بھارت لاکھ کوشش کر لے‘ اپنی ساری فوج اور سارا اسلحہ بھی کشمیر میں تھوپ دے تب بھی وہ برہان وانی جیسے ایک نوجوان کے اس جذبے کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو اکیلا اتنی بڑی فوج کے خلاف کھڑا ہو گیا اور بغیر کسی خوف کے جدوجہد کرتا ہوا شہید ہوا۔ آج اس عید پر سنت ابراہیمی کو ادا کر رہے ہیں‘ ہمیں اس جذبہ قربانی کو بھی اجاگر کرنا چاہیے جس کے تحت کشمیری اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ خدا نے چاہا تو وہ وقت اب زیادہ دُور نہیں‘ بہت جلد کشمیری عوام کی قربانیاں رنگ لائیں گی کہ جب کشمیر میں آزادی کا سورج پوری آب و تاب سے چمکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں