کورونا کی عالمی وبا ختم تو ہو گئی ہے لیکن اس کے منفی اثرات کے اثر سے ابھی تک کوئی بھی ملک باہر نہیں نکل سکا۔ (یہاں وبا ختم ہونے سے مراد کورونا کے باعث لگنے والی پابندیوں بالخصوص سفری پابندیوں کا خاتمہ ہے، وگرنہ اس کے کیسز تاحال سامنے آ رہے ہیں)۔دنیا بھر میں ابھی کورونا پابندیوں کے آفٹر شاکس چل ہی رہے تھے کہ یوکرین اور روس کی جنگ شروع ہو گئی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آدھی دنیا اس جنگ کی وجہ سے نئے معاشی بحرانوں سے دوچار ہو گئی۔ اوپر سے تیل کی عالمی قیمتوں میں گزشتہ چند ماہ کے دوران جو بے تحاشا اضافہ ہوا‘ اس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اس بحران کی زد میں نہ آیا ہو‘ جس کے منافع میں خطرناک حد تک کمی نہ آئی ہو اور جو پیداواری لاگت بڑھنے کے باعث ہچکولے نہ کھا رہا ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف مڈل کلاس طبقہ ختم ہو رہا ہے اور یہ نچلے یعنی غریب طبقے میں ضم ہو رہا ہے تو دوسری جانب امیر ترین افراد مزید امیر ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ دو تین برس میں گاڑیوں کی قیمتوں میں دو سے تین گنا تک ہونے والا اضافہ ہے۔ اس کے باوجود بھی لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اون منی دے کر بھی راتوں رات گاڑیاں خریدنے کی خواہش اور استطاعت رکھتی ہے۔ کچھ عالمی برانڈز کی گاڑیاں ایسی ہیں جو پاکستان میں صرف چند درجن کی تعداد میں موجود ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس گاڑی کی قیمت تین سے چار کروڑ کے درمیان ہے لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک کروڑ اضافی دے کر ان گاڑیوں کو فوری خریدنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جنہیں پٹرول کی بڑھتی قیمت نے راتوں رات زندہ درگور کر دیا ہے۔ (اب اگرچہ پٹرول کی قیمت میں کچھ کمی آئی ہے مگر اس سے زیادہ فرق نہیں پڑنے والا) موٹر سائیکل طبقہ بھی اب پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات سے محفوظ نہیں رہا اور ہر کوئی اب کہیں جانے سے قبل دس بار سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پٹرول کی کھپت گزشتہ ایک‘ دو ماہ میں بیس فیصد کم ہوئی ہے۔ عید کے موقع پر سیر و تفریح کے لیے بھی اس مرتبہ لوگوں کی وہ تعداد شمالی علاقوں کی طرف نہیں گئی جتنی تعداد گزشتہ چند برسوں میں دیکھی گئی۔
اس معاشی عالمی بحران میں کاروباری ادارے خود کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش میں ہیں اور زائد سٹاف کو کشتی سے اتار رہے ہیں‘ انہیں اس سے غرض نہیں یہ لوگ بیروزگاری کے سمندر میں زندہ بھی بچ پاتے ہیں یا نہیں‘ انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں کہ وہ سمندر کی مچھلیوں کی خوراک بنتے ہیں یا غرق ہو جاتے ہیں‘ ان کیلئے یہ بات بھی اہمیت نہیں رکھتی کہ کس ملازم نے کمپنی کیلئے کتنے سال کتنے لٹر خون جلایا اور کتنا پسینہ بہایا‘ وہ تو بس ''اضافی بوجھ‘‘ سے چھٹکارا چاہتے ہیں اور شاید کاروبار کا اصول بھی یہی ہے۔ کورونا کے دوران بینک آف امریکا‘ ناسا‘ گوگل‘ امریکی ایئر لائنز ‘جی ایم موٹرز اور ایسی سینکڑوں کمپنیوں نے لاکھوں ملازمین کو فارغ کر دیا تھا۔ یہ لوگ ابھی تک اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکے تھے کہ روس اور یوکرین کی جنگ نے انہیں مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ یہ سلسلہ پاکستان میں بھی شروع ہو چکا ہے‘ پرانے بزنس سکڑ رہے ہیں اور سرمایہ کار بوریا بستر باندھ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا رہا ہے وہ لوگ کیا کریں‘ وہ کہاں جائیں۔
جب کسی بیروزگار کو کوئی امید نہیں نظر آتی تو پھر اُس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں‘ یا تو وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا شروع کر دے یا پھر بندوق کے زور پر لوگوں کو لوٹنا شروع کر دے۔ پہلا راستہ بے عزتی اور ذلت کی انتہا کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ جیل کی سلاخوں یا موت کی وادی میں جا کر گم ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو سمجھنا ہو گا اب وہی شخص زندہ رہے گا جو چھوٹے موٹے کام اور کوئی ہنر جانتا ہو گا۔ وہ شخص مزید بہتر سمجھا جائے گا جو اپنے کام کو آن لائن یا انٹرنیٹ کے ذریعے سر انجام دے گا۔ آج عجیب دور آ چکا ہے کہ اب بڑی بڑی ڈگریاں بھی کام نہیں دے رہیں۔ آج فاقوں سے بچنا ہے تو خود کو ہنر کے ہتھیاروں سے لیس کرنا پڑے گا اور ایک سے زیادہ شعبوں میں مہارت حاصل کرنا ہو گی۔ اس کے تین فائدے ہوں گے‘ پہلا یہ کہ اگر ایک شعبے میں نوکری چلی بھی جاتی ہے تو دوسرے شعبے میں روزگار کا سلسلہ جاری رہ سکے گا۔ دوسرا یہ کہ نوکری نہ بھی رہے تو ہنر مند شخص معمولی سرمائے سے اپنا کام شروع کر سکے گا اور تیسرا یہ کہ ایسا شخص گھر کے کام خود کر کے اپنے اخراجات میں بھی کمی لا سکے گا۔ یہ اپروچ اب امریکی اور یورپی ممالک میں بہت مقبول ہو رہی ہے۔
آپ دنیا میں جہاں بھی چلے جائیں‘ آپ کو چند شعبے ایسے ملیں گے جن کی مانگ ہر جگہ اور ہر وقت رہتی ہے۔ ان کی بدولت مناسب روزگار چلایا جا سکتا ہے۔ الیکٹریشن‘ موٹر مکینک‘ رنگساز‘ پلمبر‘ بڑھئی‘ درزی‘ کمپیوٹر اور موبائل فون مکینک چند ایسے شعبے ہیں جن کیلئے لمبے چوڑے کورس کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور کام میں مہارت آ جائے تو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی۔ اگر یقین نہیں آتا تو اپنے محلے کے الیکٹریشن کو کام کیلئے بلائیں‘ وہ شام کا وعدہ کر کے چار دن بعد آئے گا۔ آپ ترکھان کو اپنے گھر میں کام دیں‘ وہ تھوڑا سا کام کر کے کہیں اور کام کرنے لگے گا۔ پلمبر‘ موٹر مکینک‘ ہارڈ ویئر انجینئر کو دیکھ لیں‘ سب کے سب کام میں جتے نظر آئیں گے۔ یہ لوگ ایک ٹول کٹ اور ایک موبائل فون کے ذریعے ہر طرح کے حالات میں گزارہ کر لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کو کمپیوٹر اور موبائل فون چلانا آتا ہے تو آپ فری لانسنگ کے ذریعے بھی بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ آپ گرافک ڈیزائننگ کے شعبے میں جا سکتے ہیں‘ فائیور جیسی ویب سائٹس پر آرڈرز مکمل کر کے گھر بیٹھے مہینے کے ایک‘ دو لاکھ کما سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ سوشل میڈیا مارکیٹنگ اور ای کامرس سیکھ کر اپنی چیزوں کو انٹرنیٹ پر فروخت کرنے کے علاوہ دوسروں کی اشیا کو بھی منافع پر بیچ سکتے ہیں۔ اس طرح کے سینکڑوں کورسز اور کام ایسے ہیں جن کی تفصیل یوٹیوب پر موجود ہے جنہیں گھر بیٹھ کر سیکھا جا سکتا ہے‘ شرط صرف مسلسل محنت اور لگن کی ہے۔ کچھ لوگ شروع تو بہت جوش سے کرتے ہیں لیکن مستقل مزاج نہ ہونے کی وجہ سے چند ہی دنوں یا ہفتوں میں متوقع نتائج نہ ملنے پر مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جس طرح زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے‘ اسی طرح کاروبار یا فری لانسنگ میں بھی صبر اور مستقل مزاجی چاہیے۔ جس طرح ایک قطرہ پتھر پر مسلسل گرتا رہے تو اس پتھر میں سوراخ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ اسی طرح انسان کی محنت بھی ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے ۔ آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ بیروزگاری اور مہنگائی ہے۔ ہماری حکومتوں کی معاشی پلاننگز انکم سپورٹ پروگراموں پر ختم ہو جاتی ہیں جس کے تحت لوگوں کو بیکار بنایا جا رہا ہے۔ اس کے بجائے اگر حکومتیں چھوٹے چھوٹے کارخانے‘ فیکٹریاں لگائیں‘ لوگوں کو آن لائن اور آف لائن ہنر سکھائے جائیں‘ وہ چیزیں بنائی جائیں جو چین سے دھڑا دھڑ منگوائی جا رہی ہیں تو بیروزگاری بھی کم ہو سکتی ہے اور آمدنی کے نئے ذرائع بھی میسر آ سکتے ہیں؛ تاہم یہ کام اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے بہت زیادہ سرمائے کی نہیں بلکہ مضبوط ارادے اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم لوگ اپنے علاقے میں دس بارہ افراد کا گروپ بنا لیں جو مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں تو اس علاقے میں موجود نوجوانوں کو ہنرمند بنایا جا سکتا ہے۔ آج کل فیس بک اور وٹس ایپ گروپ بنا کر یہ کام بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ جس کو کوئی ہنر آتا ہے‘ وہ آن لائن دوسرے کو یہ ہنر سکھا سکتا ہے‘ یوں ایک کمیونٹی ڈویلپ ہو سکتی ہے جو اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کو تربیت فراہم کر کے باعزت روزگار فراہم کر سکتی ہے۔ آسٹریلیا جیسے ممالک میں درجنوں کام کمیونٹی یا مقامی سطح پر ہی حل ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں گلی میں گٹر کے دو ڈھکن بھی لگنے ہوں تو ہم ہاتھ نہیں ہلائیں گے اور انتظار کرتے رہیں گے کہ شاید وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ یا کسی وزیر کے حکم سے ہی یہ کام ہو۔ جب تک ہماری یہ سوچ نہیں بدلے گی‘ ہمارے حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔