معلوم نہیں دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے یا نہیں لیکن ہمارے ملک میں تو بھیڑ چال کا چلن عام ہے یعنی کسی کا کوئی کام چل نکلا اور اس کی دُھوم مچ گئی تو سارا معاشرے اس کی دیکھا دیکھی پیچھے چل پڑے گا۔ کوئی یہ نہیں دیکھے گا کہ وہ اس کام میں ماہر ہے یا نہیں لیکن موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے لوگ ایک مرتبہ میدان میں چھلانگ ضرور لگائیں گے۔ شاید دور بھی ایسا آ گیا ہے کہ کوئی بھی کاروبار یا کام زیادہ دیر تک نہیں چلتا۔ چیزیں اور حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ زور و شور سے شروع کیا گیا کوئی کام ابھی بمشکل کامیابی کے مراحل میں داخل ہی ہو رہا ہوتا ہے کہ کوئی حکومتی پالیسی ایسی آ جاتی ہے یا عالمی حالات اثر انداز ہوتے ہیں کہ وہ منصوبہ وہیں ٹھپ ہو جاتا ہے۔ آپ سی این جی سٹیشنز کی مثال لے لیں۔ دس بارہ برس قبل پاکستان میں دھڑا دھڑ سی این جی سٹیشنز لگنا شروع ہوئے کہ سی این جی پٹرول سے نسبتاً سستی پڑتی تھی اور خاص طور پر چھوٹی گاڑیاں اور ٹیکسی وغیرہ کو اس میں خاصی بچت ہو جاتی تھی۔ سرمایہ داروں نے مہنگے کمرشل پلاٹس لے کر حکومت سے لائسنس لیے اور سٹیشنز لگا لیے۔ ابھی دو تین برس نہیں گزرے تھے کہ ملک میں گیس کی قلت اور لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی اور سی این جی سٹیشنز پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آنے لگیں۔ آہستہ آہستہ یہ کاروبار بھی ٹھپ ہونے لگا ۔ اس اثنا میں عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں بھی کم ہو گئیں اور سی این جی غیر اہم سی چیز بن کر رہ گئی جس کے بعد لوگوں نے گاڑیوں سے سی این جی سلنڈر اتار کر کباڑیوں کو بیچنا شروع کر دیے کیونکہ سی این جی اور پٹرول کی قیمت کا فرق انتہائی کم رہ گیا تھا جبکہ سی این جی کی وجہ سے گاڑی کے انجن کی لائف بھی کم ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ شہروں میں سی این جی سٹیشنز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی۔ شروع میں یہ اتنی زیادہ تعداد میں لگے کہ گلیوں حتیٰ کہ محلوں میں بھی دس دس مرلے کے گھروں کے درمیان کھلنے لگے۔ لاہور میں صرف جوہر ٹائون میں ہی سینکڑوں سی این جی سٹیشنز کھلے اور بالآخر بند ہوگئے۔ کچھ نے پٹرول پمپ بنا لیے اور کچھ نے دیگر کاروبار کھول لیے۔ یہ اس وقت کی حکومت کی ''دور اندیشی‘‘ کا کمال تھا کہ یہ منصوبہ ایک دوسال کے اندر ہی ٹھپ ہو گیا۔ یقینا اس سے سیاستدانوں نے لائسنس بیچ کر کروڑوں اربوں کمائے ہوں گے لیکن ملکی اکانومی اور سرمایہ کاروں کا بیڑہ غرق کر دیا۔
اسی طرح آج سے پندرہ بیس برس قبل برانڈڈ کمپیوٹرز کی درآمد کا بھی بہت کام چلا تھا۔ ہر کسی نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی چین سے برانڈڈ کمپیوٹرز کے کنٹینر منگوانا شروع کر دیے۔ ہمارے ایک دوست جنہیں کمپیوٹر کی الف بے کا بھی پتہ نہ تھا‘ انہوں نے جب اپنے کسی جاننے والے کو یہ کام کرتے دیکھا تو صرف اس بنا پر اس کام میں ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا کہ ان کے پاس پندرہ سولہ لاکھ روپے پڑے تھے۔ انہوں نے ایک کنٹینر بُک کروا لیا لیکن وہ کنٹینر ڈرائی پورٹ پر تو وقت پر پہنچ گیا لیکن کسی وجہ سے کاغذات ویری فائی نہ ہونے پر یہ ایک برس تک کسٹم سے کلیئر نہ ہو سکا۔ اس دوران مارکیٹ میں اس سے تیز سسٹم آ گئے اور جب ان کا مال کلیئر ہو کر ان کے پاس پہنچا تو مارکیٹ میں ان کے کمپیوٹرز کی مانگ نہ ہونے برابر تھی کیونکہ اس سے کہیں تیز کمپیوٹر نسبتاً کم قیمت میں دستیاب تھے۔ چنانچہ ان بھائی صاحب نے اپنا سارا سامان دور دراز کے کسی شہر میں ہول سیل پر خرید سے بھی کم پر فروخت کر کے جان چھڑا لی۔ پھر ہمارے ملک میں سٹاک مارکیٹ کا کاروبار بھی کافی معروف ہے لیکن اس میں وہی کامیاب ہوتا ہے جس کے پاس بڑی تعداد میں شیئرز کی خریدو فروخت کیلئے پیسے ہیں اور جو نقصان برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ بعض لوگ یہاں بھی دیکھا دیکھی اپنے پیسے لگا دیتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں۔ کچھ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتیں مستحکم ہوتی ہیں اور ان میں بہت زیادہ اونچ نیچ نہیں ہوتی جبکہ کئی نئی کمپنیاںشروع میں تو اچھی نظر آتی ہیں لیکن جب بہت سارے شیئر ہولڈرز بنا لیتی ہیں تو اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ پاتیں یا اپنے کاروبار کو بغیر منصوبہ بندی پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں تو نقصان اٹھاتی ہیں اور یہ نقصان پھر شیئر ہولڈرز کو بھی نگلنا پڑتا ہے۔ بحران سے فائدہ اٹھانے میں بھی ہماری قوم پیش پیش ہے۔ جہاں کہیں کسی کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں چیز کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے تو لوگ دھڑا دھڑا وہ چیز خرید کر سٹور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دوست بتا رہے تھے کہ جس طرح پٹرول کی قیمت اوپر جا رہی ہے کئی لوگ تو یہاں تک سوچنے لگے ہیں کہ پٹرول کے دو تین ٹینکرز خرید کر کھڑے کر لیں کہ کل کو مہنگا بیچیں گے۔ یہ کام پٹرولیم کمپنیاں ہی کر سکتی ہیں وگرنہ عام آدمی کے بس میں ہوتا تو وہ بھی ایسا کرنے سے گریز نہ کرتا۔ اسی طرح ڈالر کی قیمت جیسے جیسے اوپر جا رہی ہے تو بہت سے لوگ اس میں سے بھی کمائی کے طریقے ڈھونڈنے لگے ہیں۔ یعنی ڈالر خرید کر کچھ دن یا کچھ ہفتے رکھ لیے جائیں اور ریٹ بڑھنے پر بیچ دیں۔ ان ''دانشمندوں‘‘ کو اتنی سمجھ نہیں کہ اس طرح وہ اپنے لیے تو وقتی طور پر کچھ فائدہ حاصل کر لیں گے لیکن ملکی معیشت کا بیڑہ مزید غرق ہو جائے گا۔ ڈالر زیادہ خریدنے سے اس کی طلب بڑھے گی اور اس کا ریٹ بھی اوپر جائے گا جس سے پاکستان پر غیرملکی قرضہ بڑھ جائے گا۔ مگر لوگ سمجھنے والے نہیں ہیں۔ انہیں بس پیسے کمانے کی دُھن ہے پھر وہ چاہے کسی طرح بھی آئیں۔ یہی حال ہم نے انٹرنیٹ سے آمدنی کمانے والے مختلف ذرائع کا کیا ہے۔ یوٹیوب کو ہی دیکھ لیں۔ یوٹیوب پاکستان میں ایک مرتبہ بند ہونے کے بعد چار پانچ سال قبل بحال ہوئی تھی۔ اس کے بعد اسے پاکستان کے لیے مانیٹائز بھی کر دیا گیا تھا یعنی لوگ اس سے پیسہ بھی کما سکتے تھے۔ شروع شروع میں جو لوگ جو یوٹیوبر اس پر آئے انہوں نے اچھے چینل بنائے اور خاصی سلجھی ہوئی وڈیوز بناکر ڈالنا شروع کیں۔ کسی نے کوکنگ کا چینل بنا لیا‘ کسی نے موبائل فون اور ٹیکنالوجی پر مبنی وڈیوز ڈالیں تو کوئی دنیا کی معلومات‘ کھانوں اور سیرو سیاحت کو متعارف کروانے لگا۔ پھر جب ان یوٹیوبرز کے ایک ملین فالورز مکمل ہو گئے اور انہیں یوٹیوب کی جانب سے گولڈن بٹن مل گیا اور ساتھ ہی ان کی آمدنی بھی لاکھوں میں چلی گئی اور اس آمدنی کی خبریں بھی عام ہونا شروع ہوئیں تو دیکھا دیکھی ہر کوئی اس میدان میں کُود پڑا۔ ٹی وی اور اخبارات کے معاملے میں پیمرا وغیرہ پالیسی دیکھتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر یوٹیوبر کو یوٹیوب کی کچھ پالیسی گائیڈ لائنز پر چلنا ہوتا ہے باقی کسی ملک کی پالیسی کیا ہے اس سے یوٹیوب کو کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگوں نے اسے نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا‘ بہت سے مزاحیہ چینلز کے نام پر سرراہ چلتے عوام کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ پرینک کے نام پر لوگوں کو ڈرانا دھمکانا عام ہو گیا اور یہ سب یوٹیوب پر ویوز لینے کے لیے کیا جانے لگا۔ حالات کس قدر خراب ہو گئے ہی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک یوٹیوب چینل ایسا بھی ہے جو بھارت کے گن گاتا ہے اور اپنے ہی ملک کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔
اس دیکھا دیکھی‘ بھیڑ چال اور ریٹنگ کی دوڑ کو دیکھ کو صرف دُعا ہی کی جا سکتی ہے وگرنہ اس قوم کو سمجھانا اب تقریباً ناممکن ہو چکا!