آزادی کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے‘ نئی نسل کو اس کا شاید ادراک نہ ہو لیکن زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں‘مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آزادی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ویسے تو کشمیر کو زمین پر جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے لیکن گزشتہ سات عشروں سے کشمیری عوام ایک جیل میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں انہیں آزادی سے سانس لینے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ پاکستان کی آبادی میں پینسٹھ فیصد نوجوان ہیں‘ جب وہ آئے روز خبروں میں مقبوضہ کشمیر کے مظالم کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہو گا کہ آخر یہ سلسلہ کب ختم ہو گا‘ آج کے اس جدید اور آزاد دور میں کوئی کیسے کسی کو بندوق کے زور پر غلام بنا سکتا ہے۔ بھارت اور اس کے ہندو بنیے سے مگر کوئی بھی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔ یہ ناجائز اقدامات کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جو قراردادیں پاس کر چکی ہے‘ بھارت انہیں بھی ماننے کو تیار نہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل بالخصوص نوجوانوں کی زندگی دنیا کے عام انسانوں جیسی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں بچے اور نوجوان تعلیم حاصل کرنے سکول‘ کالج اور یونیورسٹی جاتے ہیں۔ صحت مند سرگرمیوں اور کھیلوں میں اپنا نام پیدا کرتے ہیں اور اپنی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی بہتری کیلئے کام کرنے کے خواب دیکھتے ہیں لیکن کشمیری بچوں اور نوجوانوں کا ایک ہی مشن ہے‘ آزادی۔ یہی ان کی خوشحالی کی نوید لے کر آئے گی اور آزادی کی تحریک ہی ان کا اولین مقصد و محور ہے۔
جمعے کو مقبوضہ کشمیر سمیت پوری دنیا میں بھارت کے 5 اگست 2019ء کے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف یومِِ استحصال منایا گیا۔ مقبوضہ وادی میں پانچ اگست کو مکمل ہڑتال رہی۔ یوں تو بھارت سات عشروں سے کشمیر میں قدم جمانے کی کوششوں میں ہے اور روز کوئی نہ کوئی نئی چال چلتاہے لیکن تین سال قبل کشمیریوں کو محصور کرنے اور انہیں ان کی اپنی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایسا سیاہ قدم اٹھایا گیا‘ جس کی جتنی مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ اپنے جابرانہ تسلط کے بل بوتے پر بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کی شکل میں اپنے کالے کرتوتوں میں مزید اضافہ کر دیا؛ تاہم کشمیریوں کو تنہا چھوڑنا ممکن نہیں کہ وہ ہمارے بھائی بھی ہیں‘ ہمسائے بھی اور مسلمان ہونے کے ناتے بھی پاکستانیوں کا فرض ہے کہ ان کی دل و جان سے حفاظت کریں۔ اسی تناظر میں پانچ اگست کو یوم استحصالِ کشمیر مناتے ہوئے پاکستان‘ آزاد کشمیر کے علاوہ دنیا بھر میں مظلوم کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے سیمینارز اور کانفرنسز‘ کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کی حمایت اور بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر ریلیوں کا انعقاد کیا گیا۔ دوسری جانب مقبوضہ وادی میں تمام کشمیری جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے بھرپور ہڑتال کی گئی۔آج سے تین سال قبل‘ 5 اگست 2019ء کو بھارت کی مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرتے ہوئے علاقے کا فوجی محاصرہ کرلیا تھا جبکہ مقبوضہ وادی میں احتجاج روکنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں اضافی نفری تعینات کرتے ہوئے وادی کو سیل کر دیا تھا؛ تاہم خراجِ تحسین ہے کشمیریوں کی حقِ خودارادیت کی جدوجہد کو کہ وہ دنیا کی بڑی فوجوں میں سے ایک سے خالی ہاتھ اور براہ راست ٹکرانے اور لڑنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے ہر طرح کے بھارتی حربے اور انتہائی ظلم و جارحیت کے سامنے تین‘ چار کشمیری نسلوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
بھارت کے 5 اگست 2019ء کے اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہیں۔ اس کے باوجود دنیا دیکھ رہی ہے اور سلام ہے کشمیریوں پر کہ قابض بھارتی افواج کا انتہائی ظلم وجبر بھی ان کے جذبۂ حریت کو ختم کرنا تو دُور کی بات‘ اسے مدھم کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا۔ عالمی برادری سے بھی یہ مطالبہ کیا جاتا رہے گا کہ وہ بھارت کو اس کی اوقات اور حد میں رکھے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے جواب دہ بنانے اور اس دیرینہ تنازع کے پُرامن حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بہادر کشمیریوں کی جرأت اور ہمت کو سلام کہ وہ گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف آہنی عزم کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ عزم اور حوصلہ ہمیں بھی یہی درس دیتا ہے کہ مسلمان کبھی بھی کسی صورت وقت کے یزید اور فرعون کے سامنے سر نہیں جھکاتا۔ وہ لڑتا ہے‘ آخری دم تک‘ آخری سانس تک اور خون کے آخری قطرے تک۔ کشمیری عوام بھی اسی جذبے کے تحت وقت کے فرعون کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہیں۔
بھارت جنوبی ایشیا میں بد امنی پھیلانے کے حوالے سے سرفہرست مانا جاتا ہے۔ پہلے اس نے ایٹمی دھماکے کر کے خطے کا توازن اور سکون تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جسے پاکستان نے دانشمندانہ انداز میں ایٹمی طاقت کے حصول کے ذریعے متوازن کیا۔ اب یہ آئے روز لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں اور کشمیر پر غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے حالات کو خراب کرنے کے درپے ہے۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت کے حامل ہیں اور بھارت کی ذرا سی لاپروائی خطے کے امن کو خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔ نریندر مودی کی شکل میں بھارت کا ایک دشمن بھارت پر حکومت کر رہا ہے کیونکہ اس کے دور میں ایسے ایسے قبیح اقدامات کیے گئے ہیں کہ خود بھارت کے دانشمند طبقات تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ ان اقدامات سے خود بھارت کے وجود کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ بھارت میں جاری اور تیزی سے پھیلتی آزادی کی تحریکیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کوئی بھی فرقہ‘ کوئی بھی گروہ اور کوئی بھی طبقہ نریندر موودی کے اقدامات اور طرزِ حکومت سے خوش نہیں ہے۔
بھارتی حکومت نے پانچ اگست کے اقدام کی صورت میں چوتھے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی کی اور بھارتی تسلط میں مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کر دی۔ ستم تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری بھی خاموشی تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر پلیٹ فارم پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتا رہا ہے‘ پاکستانی افواج بھی بھارت کے غیر آئینی اقدامات کی مذمت اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کی حمایت کرتی ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج بہادر اور جرأت مند کشمیری عوام کے ساتھ ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ کشمیر ی شہدا کی عظیم قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ آج نہیں تو کل‘ یوم حساب ضرور آئے گا۔ بھارت کے زیرتسلط مقبوضہ کشمیر کا بدترین محاصرہ ختم گا اور کشمیری عوام دنیا کے دیگر آزاد اور خودمختار ممالک کے عوام کی طرز پر اپنی زندگی آزادانہ گزارسکیں گے۔
عالمی برادری کو بھارت کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف کردار کے لیے میدانِ عمل میں آنا ہو گا۔ جبر اور کفر کی حکومت کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ آج انسانی اقدار کے چیمپئن مغربی ممالک کی مجرمانہ خاموشی بہت کچھ بیان کر رہی ہے۔ لیکن اس سے کشمیریوں کا جذبۂ حریت ماند نہیں پڑ سکتا۔ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں کو بھی کشمیری عوام کی آزادی کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرنا ہو گی اور دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ جب تک مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق‘ استصوابِ رائے سے حل نہیں ہوتا خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ آج بھی پوری قوم اور تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ آگے بڑھے‘فی الفور بھارتی مظالم بند کروائے‘ طے شدہ قراردادوں پر من و عن عمل کروائے اور پانچ اگست کا اقدام ختم کیا جائے تاکہ کشمیر کا امن و سکون اور اس کی قانونی حیثیت بحال ہو سکے۔