سوشل میڈیا انفارمیشن کا بظاہر کلیدی لیکن بے اعتبار ذریعہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں ٹی وی و نیوز چینلز‘ ریڈیو اور اخبارات بھی سوشل میڈیا سے خبریں لینے پر مجبور ہیں؛ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ آتاہے‘ وہ سو فیصد درست ہوتا ہے بلکہ اب تو بعض اوقات یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ بظاہر درست خبر بھی ٹھیک ہے یا نہیں۔ میڈیا اداروں میں اس حوالے سے خصوصی التزام کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں کی جب تک تصدیق نہ ہو جائے‘ اس وقت تک انہیں شائع و نشر کرنے گریز کیا جاتا ہے‘ اسی باعث بسا اوقات خبریں نیوز چینلز پر کچھ دیر سے نشر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ناظرین اپنی توپوں کا دہانہ میڈیا اداروں کی طرف کر لیتے ہیں، لیکن دوسری طرف فیک نیوز کا نقصان اداروں کے علاوہ پورے معاشروں کو ہو رہا ہے بالخصوص نئی نسل اور بچوں کے لیے یہ بہت خطرناک ہے کیونکہ بڑے تو پھر تاریخ اور ماضی سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہیں اور کسی بھی افواہ کو پرکھنے کی تھوڑی بہت صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بچوں کے لیے جھوٹی اور سچی خبروں اور واقعات میں تفریق کرنا آسان نہیں ہوتا۔
اس وقت فیک نیوز اور پروپیگنڈا کی آڑ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کی ایک قسم ہے جس میں سچ اور جھوٹ کو ملا کر یوں دکھایا جاتا ہے کہ جھوٹ سچ میں گھل مل کر غائب ہو جاتا ہے اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر یقین کرنے لگتا ہے۔ ویسے بھی کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ خبر کی تہہ تک جائے اور اس کی تفتیش کرتا پھرے۔ پھر لوگوں کی اپنی پسند نا پسند بھی نمایاں ہوتی ہے۔ اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے بارے میں وہ ایسا سچ سننے کو تیار نہیں ہوتے جو کڑوا ہو۔ وہ ایسے سچ کو بھی فیک نیوز یا مخالفین کے پروپیگنڈے میں شمار کر تے ہیں۔ گئے وقتوں میں سیاستدان پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے یا نیوز ایجنسیوں کو بیانات جاری کرتے تھے اور جب کوئی اونچ نیچ ہوتی تھی تو فوری طور پر پریس پر الزام دھر دیا کرتے تھے کہ ان کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ اب وہ بیان جاری کرنے کا کام چند سیکنڈز میں اپنے موبائل فون کے ذریعے کرتے ہیں۔ ٹویٹر پر ان کا جاری کیا گیا بیان چند منٹوں میں لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہاں پھر وہی مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ ان کے نام پر درجنوں جعلی ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹس بنے ہوتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگوں نے انہیں فالو بھی کیا ہوتا ہے۔ ان جعلی اکائونٹس سے بھی فیک نیوز پھیلائی جاتی ہے۔
تحریف شدہ سکرین شاٹس اور وڈیوز کے ذریعے صرف سیاستدانوں ہی نہیں بلکہ اداکاروں‘ صحافیوں اور دیگر طبقات کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ لوگ بھی ایسی چیزوں کو اب انجوائے کرنے لگے ہیں۔ سنجیدہ حضرات فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کو مجبوری کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ امریکہ میں کی گئی ایک حالیہ سٹڈی کے مطابق‘ امریکی شہریوں نے یوٹیوب اور ٹویٹر کو فیس بک سے زیادہ قابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔ گزشتہ دو‘ تین برس سے امریکیوں میں فیس بک سے عدم دلچسپی کا گراف بڑھ رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ فیس بک کا فورم کسی ایک مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا۔ جس کا جو دل کرتا ہے‘ وہاں بیچ رہا ہے چاہے وہ جھوٹی سچی خبریں ہوں‘ ذاتی تقریبات کی تصاویر یا وڈیوز ہوں یا بغیر تصدیق کے اَپ لوڈ اور فارورڈ کیا گیا کوئی مواد‘ فیس بک پر عجیب سی ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ دوسری طرف یوٹیوب پر لوگ اپنی پسندیدہ چیزیں‘ اپنی مرضی کے مطابق دیکھ سکتے ہیں جبکہ فیس بک پر ان کے سامنے طرح طرح کی پوسٹس آتی جاتی ہیں اور ہر پوسٹ دوسری سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح ٹویٹر کی پسندیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹویٹر بہت طویل مواد یا تصاویر وغیرہ پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ ایک وقت میں لفظوں کی ایک خاص تعداد ہی ٹویٹ کی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے فیس بک کی طرح لامحدود وقت ضائع نہیں ہوتا اور صارفین کو انتہائی اہم یا ضروری خبر یا اطلاع چند سیکنڈزمیں پڑھنے کو مل جاتی ہے؛ تاہم یہاں بھی جعلی اکائونٹس اور' بوٹس‘ کے ذریعے بوگس ٹویٹس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور صارفین کے لیے اصل اور نقل میں تمیز کرنا مسئلہ بن جاتا ہے۔ فیس بک کا بھی یہی حال ہے۔ سیاسی جماعتیں بالخصوص پی ٹی آئی اس معاملے میں بہت آگے ہے۔ عمران خان ہوں یا ان کی پارٹی کا کوئی اور سیاستدان‘ جیسے ہی ان کی پوسٹس سامنے آتی ہے چند لمحوں کے اندر درجنوں بلکہ سینکڑوں کمنٹس بھی آ جاتے ہیں۔ چند ہفتے قبل وفاقی وزیر اطلاعات نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا تھا کہ ان میں سے چند ایک ہی حقیقی سوشل میڈیا صارفین ہیں اور باقی کمنٹس سافٹ ویئرز کا سہارا لے کر کیے جاتے ہیں اور ان کا پتا ان کے سکرپٹ سے چلتا ہے، مثلاً زیادہ تر فیک کمنٹس میں لکھا ہوتا ہے کہ جو جو اس پاک وطن کا سچا جاں نثار ہے‘ جو حق اور سچ کے ساتھ کھڑا ہے وہ اس پوسٹ کو لائک کرے۔ اسی طرح ایک اور پوسٹ میں لکھا ہوتا ہے ' وہ لوگ سامنے آئیں جن کو ہمارے لیڈر کے صادق اور امین ہونے پر فخر ہے‘۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی پوسٹس مختلف فیس بک پیجز کے ذریعے بھی شیئر کی جاتی ہیں جن میں پروفائل پکچر یعنی ڈی پی اور کور فوٹو عمومی طور پر خواتین کی لگائی جاتی ہیں‘ یوں ان پیجز کے فالوورز خود بخود بڑھتے جاتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹرز‘ وکلا یا دیگر طبقات اور کمیونٹیز کے گروپس بنائے جاتے ہیں تاکہ گمان ہو کہ یہ حقیقی گروپس ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ جھانسے میں آ جائیں۔ اسی طرح پارٹی کے نوجوانوں کو یہ ترغیب بھی دی جاتی ہے کہ وہ پوسٹس کو زیادہ سے زیادہ لائک اور شیئر کریں تاکہ پوسٹ اور اس پر ہونے والے لائکس اور کمنٹس کی تعداد بڑھے اور پاکستان جیسے ملک میں لوگ ایسے لوگوں کی اندھا دھند تقلید کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں جن کے فالورز زیادہ ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیک نیوز کی اس دوڑ میں سبھی سیاسی پارٹیاں شریک ہو چکی ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ انفرادی طور پر بھی یہ ''فریضہ‘‘ سرانجام دیتے رہتے ہیں اور جس کی پگڑی اچھالنا مقصود ہو‘ اپنے ''قیمتی‘‘ وقت میں سے ڈھیر سارا وقت اس کے لیے نکال لیتے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی شہباز گل کی گرفتاری کے بعد یہ سلسلہ اور بھی تیز ہو گیا ہے۔ شہباز گل کی گرفتاری کے بعد ڈرائیور کی پھٹی ہوئی قمیص اور مرہم پٹی والی وڈیو ریلیز کر کے دعویٰ کیا گیا کہ اسے بہت مارا گیا ہے لیکن اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اسی طرح شہباز گل کے معاون کی اہلیہ کے حوالے سے حوالات میں قید ایک خاتون کی جو تصویر اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے‘ وہ صوبہ سندھ کے کسی تھانے کے حوالات میں بند ایک عورت کی تین سال پرانی تصویر ہے۔ یقینا اس کیس میں ایک خاتون کی گرفتاری غلط اقدام تھا مگر دوسری طرف کسی اور خاتون کی تصویر کو اس واقعے سے جوڑنا بھی غلط اقدام ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ملک میں کئی ایسے نوجوان ہیں جن میں غلط اور صحیح کے مابین تفریق کا شعور موجود ہے اور جو دیگر نوجوانوں کو صحیح صحافت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اوائل عمری سے ہی ان میں نہ صرف ملکی و عالمی حالات سے آگاہی پیدا ہو سکے بلکہ وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز بھی کر سکیں۔ لاہور کی ایک بارہ سالہ بچی ان دنوں میڈیا اور سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہو رہی ہے جس نے بچوں کیلئے صحافت کا اچھوتا پلیٹ فارم متعارف کرایا ہے۔ اس نے اپنے پروجیکٹ کا نام 'جرنلزم فار کڈز‘ رکھا ہے اور ایک غیرسرکاری ادارے کی ورکشاپ میں یہ آئیڈیا پیش کیا جہاں دیگر صحافیوں نے بھی 170 مختلف آئیڈیاز پیش کیے جن میں سے 26 آئیڈیاز کو شارٹ لسٹ کیا گیا اور ان میں سے پانچ فائنل مرحلے تک پہنچے۔ اس بچی کا پروجیکٹ اول پوزیشن لے گیا۔ اس طرح کے مزید پلیٹ فارمز سامنے آئیں گے تو بچوں کی اس جانب دلچسپی مزید بڑھے گی اور اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ ان کیلئے فیک اور درست نیوز میں فرق کرنا آسان ہو جائے گا۔ موبائل‘ کمپیوٹر اور ٹیبلٹ بچوں سمیت ہر شخص کی زندگی کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔ اب ان سے چھٹکارا تو ممکن نہیں لیکن ابتدائی عمر سے ہی اگر بچوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ کون سی معلومات درست ہیں‘ کون سی غلط تو انہیں زندگی بھر اس کا بہت فائدہ ہو گا‘ وہ جعلی اور سچی خبروں کی پہچان کرنا سیکھ جائیں گے اور یہ خوبی انہیں عملی زندگی میں بھی بہت فائدہ دے گی۔