موسمیاتی تبدیلی کسے کہتے ہے؟ ''وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ آپ یہ سوال کسی سے بھی پوچھیں گے تو وہ شاید یہی جواب دے گا۔ پاکستان جیسے ملک میں حکومتی مشینری اگر غیر ضروری امور پر ساری توانائیاں کھپا رہی ہو وہاں موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کو کون پوچھے گا۔ اگرچہ پاکستان دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ شکار دس ممالک میں شامل ہے پھر بھی یہاں اس ایشو کو سنجیدہ لیا جاتا ہے نہ ہی مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر کوئی اس پر بات کرنے کو تیار ہے۔ بنیادی طور پر ہم واقعات کے پیچھے بھاگنے والی قوم بن چکے ہیں۔ ایسا کوئی واقعہ جو وائرل ہو جائے اور جس کا ذکر زبان زدِ عام ہو‘ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں‘ اسے کھنگالتے رہتے ہیں یہاں تک کہ کوئی نیا واقعہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ ہماری آنکھیں پاکستان میں ہر سال موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات اور خطرات دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن ہمارا دماغ اسے سمجھنے اور پرکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اتنا احساس تو لوگوں کو ہو چکا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے سردی کا موسم تین چار ماہ تک سمٹ گیا ہے جبکہ گرمیوں کے دورانیے اور شدت‘ دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سردیاں فروری تک چلتی تھیں اور پھر مارچ اور اپریل میں بہار کا موسم چلتا تھا۔ مئی میں گرمی کا آغاز ہوتا تھا لیکن پنکھوں سے گزارہ ہو جاتا تھا۔ باقاعدہ گرمی جون میں شروع ہوتی لیکن جولائی میں ہلکی پھلکی بارشیں یا بوندا باندی ہوتی تو موسم خوشگوار ہو جاتا۔ ستمبر میں پنکھے بند ہو جاتے اور اکتوبر میں خنکی بڑھنے لگتی۔ اب مگر کافی کچھ بدل چکا ہے۔ سردیوں اور گرمیوں کے درمیان سے بہار کا موسم تو شاید نکل ہی گیا ہے یا چند دنوں تک محدود ہو گیا ہے۔ پہلے مارچ کا پورا مہینہ پھولوں کی نمائشیں لگتیں لیکن اب مارچ میں گرمی کی وجہ سے نمائشیں بھی کم دورانیے کی لگتی ہیں اور لوگ بھی خال خال ہی شریک ہوتے ہیں۔ پھر سال کے آخر میں سموگ کا ایک موسم مزید بڑھ گیا ہے اور اس مسئلے پر قابو نہ پایا تو یہ سال کے دیگر حصوں کو بھی لپیٹ میں لے لے گا جیسا کہ چین کے کئی حصوں میں تقریباً سارا سال ہی سموگ رہتی تھی اور کوئی شخص بھی مخصوص ماسک پہنے بغیر باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ اس سال پاکستان میں بارشوں کے سلسلے گزشتہ سالوں کی نسبت کافی زیادہ رہے اور خوب تباہی مچا رہے ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نہیں تو اور کیا ہیں؟ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیرز وقت سے پہلے اور زیادہ مقدار میں پگھل رہے ہیں جو سیلاب لانے کا باعث بن رہے ہیں۔ سیلاب محض پانی کے بہائو کا نام نہیں یہ جب آتا ہے تو اپنے ساتھ قیامت لاتا ہے۔ ہم تو یہاں شہروں میں بیٹھے ہیں‘ ذرا دیہات اور پہاڑی علاقوں پر رہنے والوں کی حالت کبھی دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ہی ایک تصویر میں ایک گائے مردہ پڑی تھی اور گھر کی عورتیں‘ مرد اور بچے اس سے لپٹ کر رو رہے تھے۔ ایسے لوگوں کی جمع پونجی ایک ہی تھپیڑے میں بہہ جاتی ہے اور وہ برسوں فاقوں پر مجبور رہتے ہیں۔ اب تو یہ قیامتیں شہروں کا بھی رخ کر رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی ملیر ندی کا پانی بپھر کر پل پر آ گیا تو اس پر سے گزرنے والی ایک گاڑی‘ جس میں تین بچے اور والدین سوار تھے‘ ندی کی طغیانی میں بہہ گئی۔ اس ساری صورتحال کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اس ایشو پر ہماری سیاسی جماعتیں اور بڑے سیاسی لیڈر منظر سے یکسر غائب ہیں۔
دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی نے لائف سٹائل پر بھی بہت برا اثر ڈالا ہے اور یہ صورت حال آنے والے برسوں میں مزید پیچیدہ ہو گی۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھنا اور غیر معمولی بارشیں‘ برف باری اور بعض جگہوں پر بارشوں اور برفباری کی کمی یا نہ ہونا بھی نت نئے مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ اس کا زراعت پر بھی منفی اثر ہوا ہے۔ پہلے ہی سرسبز زمینوں کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کیا جا رہا ہے‘ اوپر سے موسم نے الگ ظلم ڈھانا شروع کر دیا ہے اور خوراک و اجناس کی پیداوار میں کمی ہونا شروع ہو چکی ہے۔ یہ کمی خوراک کی قیمتوں کو بڑھانے کا باعث بن رہی ہے کیونکہ ڈیمانڈ تو اتنی ہی ہے یا پہلے سے بڑھ رہی ہے لیکن پیداوار کم ہو رہی ہے۔ پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری نے دنیا بھر میں عوام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘ اب اس طرح کی مشکلات سے ان کی زندگی مزید اجیرن ہو رہی ہے۔ انسانی جسم پر موسمیاتی تبدیلی کے مختلف اثرات ظاہر ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم غذائیت کی کمی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں پہلے ہی بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ اب خوراک کی پیداوار اور غذائی قلت سے دل کی بیماریوں‘ کینسر‘ ذیابیطس اور کمزور نشوونما جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کی اوسط نیند بھی کم ہو رہی ہے کیونکہ گرم علاقوں میں ہر کسی کو تو ایئرکنڈیشنر کی سہولت میسر نہیں حتیٰ کہ بہت بڑی آبادی آج بھی بجلی اور دیگر بنیادی سہولتوں کے بغیر جینے پر مجبور ہے‘ اس وجہ سے لوگوں کی نیند کا دورانیہ بھی کم ہو رہا ہے اور کوالٹی نیند بھی متاثر ہو رہی ہے یعنی نیند کے دوران بار بار کروٹ بدلنا بے چینی کو بڑھاتا ہے جس کی وجہ سے انسان صبح فریش نہیں اٹھتا اور سارا دن تھکاوٹ اور سستی کا شکار رہتا ہے۔ پھر سانس کے مسائل بھی اسی سے متعلق ہیں۔ اوزون کی تہہ سورج کی خطرناک شعاعوں کو زمین پر آنے سے روکتی ہے لیکن اس میں بھی شگاف پیدا ہو چکا ہے اور اس شگاف میں اضافہ اور فضا میں موجود مضر ذرات پھیپھڑوں کے کام میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔ گرمی اور سموگ سے لوگ سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اسی طرح زیادہ گرمی سے پانی کی کمی ہوتی ہے جو گردوں کے لیے مضر ہے۔ گردے پانی کو ٹھیک طریقے سے فلٹر نہیں کر پاتے جس کے نتیجے میں گردے میں پتھری پیدا ہو جاتی ہے جس سے گردے فیل بھی ہو سکتے ہیں۔ فضا میں پولن کی مقدار بھی موسمیاتی تبدیلی کے باعث تیزی سے بڑھی ہے جس سے لوگ پہلے سے زیادہ الرجی کا شکار ہو رہے ہیں۔ الرجی کی علامات جیسا کہ مسلسل چھینکیں‘ کھانسی‘ آنکھوں میں خارش‘ جلن اور درد والے مریضوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جبکہ جو لوگ پہلے سے موسمی الرجی کا شکار ہیں ان کی حالت مزید پیچیدہ ہو رہی ہے۔ یہ سب عوامل مل کر انسانی دماغی صحت کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر سکول جانے والے بچے بار بار بیمار ہو رہے ہیں اور ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونے سے ان کی دماغی صلاحیتیں ماند پڑ رہی ہیں۔
آب و ہوا میں تبدیلیاں ہمیشہ آتی رہی ہیں لیکن زمین پر انسانوں کی اپنی پیدا کردہ سرگرمیوں کی وجہ سے بھی عالمی درجہ حرارت تبدیل ہو رہا ہے۔ تیل‘ کوئلے اور گیس کے استعمال کی وجہ سے زمین کی گرمی میں ایک سے دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح لکڑی کا بے دریغ استعمال جنگلات کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ شاپنگ بیگ کا غیرضروری استعمال پوری دنیا میں سیوریج کے نظام میں خرابی اور آبی حیات کے خاتمے کا باعث بن رہا ہے؛ چنانچہ موسمیاتی تبدیلی یا اس سے متعلقہ مسائل‘ دونوں ہی انسانوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں اور ان کو حل بھی انسانوں کو ہی کرنا پڑے گا۔ فرانس‘ جرمنی‘ امریکہ جیسے ممالک تو یہ کام کر لیں گے لیکن پاکستان‘ بھارت اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں موسم ہر سال اپنا قہر ڈھاتا رہے گا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے اس قہر میں اضافہ ہی ہوگا۔ ہماری حکومتیں اس حوالے سے کیا سوچ رہی ہیں‘ ہمارا میڈیا اور ہماری نئی نسل اس مسئلے سے کتنی آگاہ ہے‘ یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ جن مسائل میں ہم الجھے رہتے ہیں اور جنہیں اہمیت دے کر سوشل میڈیا پر دن رات اول فول کہتے رہتے ہیں‘ ان سے ہماری زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آنے والی۔