پاکستان میں کسی چیز نے اگر سدابہار ترقی کی ہے تو وہ سیاست ہے۔ اب تو سیاست بھی ایسی کی جانے لگی ہے کہ عوام اسے جھوٹ و فریب سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ یعنی حکمران اور سیاستدان کسی ایشو پر اگر کوئی بیان دیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایسی بات کر رہے ہوتے ہیں جس کا حقیقت سے دور پار کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ جھوٹ کے علاوہ سیاست کے دوسرے معنی دو رخی یعنی منافقت کے بھی سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی ایک سیاستدان اگر اپنی حکومت میں یہ کہتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی وجہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی ہے تو چند ہی ہفتے بعد جب وہ حکومت سے اپوزیشن میں آتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا کہ اس وقت ملک میں مہنگائی اس لیے ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی کی لہر آئی ہوئی ہے بلکہ وہ اس کا ذمہ دار سیدھا سیدھا حکومتِ وقت کو قرار دیتا ہے؛ چنانچہ سیاست کے اس کھیل میں اس وقت سوائے جھوٹ اور منافقت کے کچھ بھی باقی نہیں بچا۔
کھیل سے یاد آیا 28 اگست کو ایشیا کپ میں پاک بھارت کرکٹ میچ ہوا جس میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد آخری اوور میں پاکستان کو بھارت سے شکست ہوئی۔ ویسے تو میں شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے یہ میچ نہیں دیکھا‘ نہ ہی دیکھنے کا دل کیا کیونکہ اس وقت پورے ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے اور ایسے میں میچ دیکھنے کا دل ہی نہیں کرتا۔ جن لوگوں نے میچ دیکھا‘ وہ ساری رات سر پکڑ کر بیٹھے رہے۔ کوئی کھلاڑیوں کو برا بھلا کہتا رہا کوئی مینجمنٹ کو کوستا رہا اور یوں ایک‘ دو دن تک لوگ شکست کے باعث ذہنی خلجان اور دبائو کا شکار رہے۔ کھیلوں کی بات کی جائے تو بنیادی طور پر دو قسم کے کھیل ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن میں انٹرٹینمنٹ زیادہ ہوتی ہے اور کھیل کم اور دوسرے وہ جو واقعی صحتمند کھیل کہلائے جا سکتے ہیں‘ ان میں انٹرٹینمنٹ کا عنصر بظاہر کم ہوتا ہے لیکن یہ کھلاڑیوں کی صحت کے لیے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔ کرکٹ کو اگر اس میزان پر پرکھا جائے تو یہ کہیں سے بھی صحتمند کھیل نہیں رہا۔ ویسے بھی جب سے اس میں سٹے بازی آئی ہے تب سے اس کھیل سے دل اٹھ گیا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کے بڑے بڑے کھلاڑی سٹے بازیوں میں ملوث رہے ہیں۔ درجنوں سزائیں بھگت رہے ہیں اور جرمانوں اور پابندیوں وغیرہ کے زیرِ عتاب ہیں۔کرکٹ میں دلچسپی میں کمی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ٹیسٹ میچ‘ جو کرکٹ ٹورنامنٹس اور کھلاڑیوں کی مہارت کے لیے بہت اہم سمجھے جاتے تھے‘ اب تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی ٹیسٹ میچ ہوتا بھی ہے تو شائقین کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔ ٹیسٹ میچ کو تو چھوڑیں‘ اب تو ون ڈے یعنی پچاس اوورز کے میچ کے ٹورنامنٹ کو بھی کوئی مکمل نہیں دیکھتا۔ کرکٹ سکڑتے سکڑتے ٹونٹی ٹونٹی تک آ گئی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ یہ کچھ برسوں بعد دس اوورز تک محدود ہو جائے۔ ٹونٹی ٹونٹی ٹورنامنٹس میں بھی میچز سے زیادہ لوگوں کی دلچسپی کہیں اور ہوتی ہے۔ نپی تلی بیٹنگ تو ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ جب پچاس اوورز کے میچ میں دو اوپنر میدان میں اترتے تھے تو کھیل کا سماں ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ دونوں پارٹنر شپ طویل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ون ڈائون پر اگلا پلیئر آ کر صورت حال کو سنبھالتا۔ ہر طرح کے شاٹس دیکھنے کو ملتے لیکن بیس اوورز کے ٹونٹی ٹونٹی میچ میں سوائے بائونڈریز کے کچھ بھی دلچسپ نہیں لگتا۔ آنکھیں بند کر کے بلا گھمانے والا پلیئر آف دی میچ بن جاتا ہے جبکہ تجربہ کار پلیئر اگر وکٹیں بچانے اور سنگل ڈبل کے چکر میں رہے تو لوگ اسے ناکام کھلاڑی قرار دے دیتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھی کرکٹ میں تمام کھلاڑیوں کو ایک جیسا موقع نہیں ملتا۔ کوئی بائونڈری پر کھڑا ہے تو بس کھڑا ہی ہے۔ اس کے پاس بال آ گئی تو آ گئی وگرنہ وہ وہیں کھڑا رہتا ہے۔ بیٹنگ کرنے والا آتے ہی پہلی بال پرآئوٹ ہو جائے تو پویلین جا کر دو‘ تین گھنٹوں تک بیٹھا رہتا ہے جبکہ بائولنگ کرنے والے بیٹر کم ہی ہوتے ہیں اور اگر انہیں موقع مل جائے تو وہ خال خال ہی چلتے ہیں اور اکثر ''ڈک‘‘ پر آئوٹ ہو کر پویلین کی راہ لیتے ہیں۔
کھیل ہو یا معیشت یا کوئی کاروبار‘ہم بحیثیت مجموعی اسی کام میں چھائے ہوئے ہیں جس میں کوئی تیرتُکا چلتا ہے یا کوئی شارٹ کٹ لگ جاتا ہے۔ جس کھیل میں انسان کی سب سے زیادہ توانائی لگتی ہے اور کھلاڑی کے سٹیمنا کا اصل امتحان ہوتا ہے وہ غالباً فٹ بال ہے جس میں گول کیپرز کو چھوڑ کر تمام کھلاڑیوں کو پرفارم کرنے کا ایک جیسا موقع ملتا ہے۔ سب کو دورانِ میچ مسلسل بھاگنا ہوتا ہے‘ فٹ بال کھیلنے والے کی صحت بھی اچھی رہتی ہے کیونکہ اس کھیل میں ٹانگیں انتہائی مضبوط ہو جاتی ہیں۔ کہتے ہیں بڑھاپا ٹانگوں سے اوپر کی طرف جاتا ہے یعنی اگر ٹانگیں کمزور ہوں تو انسان دس سال قبل ہی بوڑھا ہو سکتا ہے۔انسانی جسم کی زیادہ تر ہڈیاں اور پٹھے نچلے دھڑ میں ہی ہوتے ہیں۔ اب ہم وہ کام تو کریں گے نہیں کہ جس میں کوئی جان لگتی ہو اور وہ بھی فٹ بال جیسا کھیل جس میں بندے کو سستانے یا کرکٹ کی طرح بائونڈری پر کھڑے ہو کر تماشائیوں کے ساتھ گپیں لگانے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ اسی لیے پاکستان ابھی تک فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں اِکا دُکا میچ ہی جیت سکا ہے۔ اگر کسی اچھی عالمی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا ٹاکر پڑا بھی تو اس میں مخالف ٹیم یوں گول کرتی نظر آئی گویا وہ میدان میں اکیلی ہی کھیل رہی ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ پاکستان فٹ بال برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں جو فٹ بال استعمال ہوتے ہیں‘ ان میں سے بیشتر سیالکوٹ میں بنتے ہیں لیکن پاکستان کا کوئی ایک کھلاڑی بھی آج تک اس کھیل میں نام نہیں پیدا کر سکا۔ حالانکہ پاکستان میں فٹ بال فیڈریشن کئی دہائیوں سے قائم ہے اور اس کے کرتا دھرتا پُرکشش تنخواہوں‘ مراعات اور بیرونی دوروں سے مستقل مزاجی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن فٹ بال ٹیم کی کارکردگی اتنی ناقص ہے کہ یہ لوگ کبھی میڈیا کا سامنا ہی نہیں کرتے۔
کرکٹ‘ جسے ہم جنون کا نام دیتے ہیں‘ کے لیے بھی ہمارے حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت‘ جس سے کچھ امید وابستہ تھی‘ نے آتے ہی ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ ختم کر دیا تھا حالانکہ سپورٹس مین وزیراعظم سے لوگوں کو خاصی امید تھی اور وہ خود بھی کہتے تھے کہ وہ کرکٹ کو مقامی سطح سے اٹھائیں گے تاکہ نئے پلیئرز سامنے آئیں لیکن انہوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔ اب تک آسٹریلیا کرکٹ کے پانچ ورلڈ کپ جیت چکا ہے۔ بھارت اور ویسٹ انڈیز دو‘ دو مرتبہ کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح رہے ہیں۔پاکستان نے آج تک کرکٹ کا صرف ایک ورلڈ کپ جیتا ہے اور اس میں بھی قابلیت سے زیادہ قسمت کارفرما تھی۔
اگر غور کیا جائے کہ ہمارا بنیادی مسئلہ کیا ہے تو نظر آئے گا کہ ہمارے ہاں ہر شخص اپنی فیلڈ کے علاوہ ہر چیز کا ماہر ہے۔ دیگر ممالک بالخصوص مغربی دنیا میں لوگ کم ہی کسی ایسی فیلڈ میں ٹانگ اڑاتے ہیں جس میں ان کا تجربہ اور اہلیت نہ ہو۔ ہمارے ہاں موجودہ صورتحال کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں دو شعبے بڑے آرام سے اپنائے جا سکتے ہیں اور جن میں اہلیت اور معیار کی اہمیت ختم ہو چکی ہے۔ یہ دو شعبے ہیں سیاست اور صحافت۔ کوئی بھی آنکھیں بند کر کے ان شعبوں میں قدم رکھ سکتا ہے بس اس کی زبان چلتی ہو اور وہ تعلقات بنانے میں ماہر ہو‘ پھر چل سو چل۔ یہاں ترقی کرنے کے لیے سب سے زیادہ جو اہلیت درکار ہے وہ ہے قربت۔ جو کسی مقبول سیاستدان کے جتنا زیادہ قریب ہے‘ جو وزیراعظم یاوزیراعلیٰ کے دفتر تک رسائی رکھتا ہے‘ کل کو وہی آپ کو کسی اہم عہدے پر فائز ملے گا اور اسے ہی مقبول ترین رہنما بھی قرار دیا جائے گا۔ اسی طرح آج کل یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر آپ کے ہاتھ میں مائیک ہے اور آپ کے پاس کیمرہ ہے‘ تو آپ ''سیکھے سکھائے‘‘ صحافی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس ضمن میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور یوٹیوب چینل والے بھی خود کو صحافی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہر شخص حرفِ آخر اور عقلِ کُل کا درجہ رکھتا ہے۔ ہماری تنزلی کا اصل المیہ یہی ہے جو دیمک کی طرح وطن عزیز کی جڑوں کو مسلسل کھائے جا رہا ہے۔