جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ سیلاب کی تباہی کی ہوشربا داستانیں سامنے آ رہی ہیں۔ سب سے زیادہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ اگرچہ سیلاب کا پانی بعض جگہ کم ہو رہا ہے لیکن بعض علاقوں میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد اس سانحے کے نتیجے میں براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس پاکستان میں تھے۔ انہیں سیلاب کی تباہ کاریوں پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر وزرا اس موقع پر موجود تھے۔ بعد ازاں انہوں نے پریس کانفرنس میں اس بات کا برملا اظہار کیا کہ یہ تباہی سوچ سے کہیں زیادہ ہے ‘ پاکستان کو بہت زیادہ مالی امداد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ موسمیاتی تبدیلی کے عوامل میں پاکستان کا کردار بہت کم ہے لیکن یہ اس سے متاثربہت زیادہ ہوا ہے۔ پاکستان کو ایک اندازے کے مطابق سیلاب سے ہوئے نقصان کی مرمت اور تعمیرِ نو کے لیے تیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے یہ رقم کچھ کم ہو لیکن فوری طور پر جو نقصانات نظر آ رہے ہیں‘ ان کا ازالہ اس سے کم میں ہونا ممکن نہیں، اسی لیے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی اور یہ بھی کہا کہ ہر ملک کو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا چاہیے کہ اس قدرتی آفت سے کوئی بھی ملک دوچار ہو سکتا ہے۔
دو سال قبل آنے والی عالمی وباکورونا نے کیا کم قیامت ڈھائی تھی کہ اب سیلاب نے پاکستانی عوام اور ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ دوسری جانب ملکی معیشت ڈالر اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کے سبب الگ بے حال ہے۔ لگتا ہے اس پر کسی آسیب کا سایہ ہے کہ آفتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ سیلاب سے تباہی بہت وسیع ہے اور اس سے نمٹنا پاکستان جیسے ملک کے لیے تنہا ممکن نہیں۔ سینکڑوں علاقوں کی رابطہ سڑکیں پانی میں بہہ چکی ہیں جس کی وجہ سے امداد کی ترسیل میں بھی شدید رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔حکومت کے علاوہ رفاہی ادارے بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں لیکن تباہی کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ جتنی بھی امداد کی جائے‘ وہ کم دکھائی دیتی ہے۔ یونیسیف کے مطابق حالیہ سیلاب کے باعث بچوں کی بڑی تعداد کے لیے خطرات کھڑے ہو گئے ہیں اور قریباً تیس لاکھ بچوں کو پانی سے پیدا ہونے والی وبائی بیماریوں اور دیگر مصائب نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔سیلاب سے کل متاثر ہونے والے افراد یعنی تین کروڑ تیس لاکھ میں تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچے شامل ہیں۔ہر آفت میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ جس انسان کے سامنے اس کی زندگی بھر کی کمائی‘ اس کا گھر ‘اس کے بال بچے پانی میں بہہ جائیں اس کے لیے زندہ رہنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے وقت بھی یہی ہوا تھا۔ لوگ راتوں کو اپنے گھر کے اندر سونے سے بھی خوف محسوس کرنے لگے تھے۔ خاص طور پر زلزلے کے سبب جن علاقوں میں تباہی ہوئی تھی‘ وہاں آفٹر شاکس کی شکل میں زلزلے کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے کافی بعد تک محسوس کیے جاتے رہے تھے جس کی وجہ سے لوگوں نے کھلے آسمان تلے سونا شروع کر دیا تھا۔ سیلاب میں صورت حال اس سے بھی زیادہ بد تر ہے۔ لوگوں کو خشک جگہ میسر آ جائے تو وہ اسے نعمت تصور کرتے ہیں۔ تدفین کیلئے بالخصوص خشک جگہ درکار ہوتی ہے۔ نجانے متاثرین نے میتوں کو کیسے اور کہاں دفن کیا ہو گا۔ اس کرب کو وہی جان سکتے ہیںجو اس سے گزر رہے ہیں۔ ہم آرام دہ جگہوں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر اس ناگہانی صورت حال کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔
آفت کے اس دور میں پوری قوم بالخصوص صاحبانِ استطاعت کو بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم متاثرین کی تھوڑی یا زیادہ امداد کر رہے ہیں، ہمیں بس اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ بعض لوگ اس موقع پر یہ سوچتے ہیں کہ ان کے تھوڑے سے پیسوں سے کیا ہو گا حالانکہ قطرہ قطرہ مل کر ہی سمندر بنتا ہے۔ تھوڑے تھوڑے پیسوں سے ہی بڑی رقم اکٹھی ہو سکتی ہے۔اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ امداد‘ خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ‘ مسلسل کی جائے۔ ہر پندرہ دن بعد یا اپنی ماہانہ آمدنی کا کچھ نہ کچھ حصہ سیلاب زدگان کیلئے مختص کر دیا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ زکوٰ ۃ بھی سیلاب زدگان کو دے دینی چاہیے۔ اس کے لیے رمضان المبارک کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر وقت اور مصرف زکوٰۃ کا اور کیا ہو سکتا ہے۔
سیلاب کی اصل صورت حال اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے جو ہمیں میڈیا پر دکھائی دیتی ہے۔ جو لوگ ان علاقوں سے ہو کر آئے ہیں وہ بہت دکھی داستانیں سناتے ہیں۔ سیلاب میں ایسے لوگ بھی سڑکوں پر آ گئے ہیں جو کل تک عالی شان گھروں‘ بینک بیلنس اور گاڑیوں کے مالک تھے۔ ستم تو یہ ہے کہ ان کے عزیز و اقارب اور رشتہ دار بھی اس سانحے کا شکار ہو چکے ہیں اس لیے وہ کسی کے پاس جاکر ٹھہر بھی نہیں سکتے۔ کئی علاقوں میں اب بھی چار سے پانچ فٹ تک پانی کھڑا ہے۔ لوگ اپنے گھروں تک جانے کے لیے انتہائی بدبودار اور تعفن زدہ پانی میں تیر کر جانے پر مجبور ہیں اور اس حالت میں بھی وہ بچے کھچے سامان کو بچانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔بیشتر ڈیم اب گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں۔ بعض علاقوں میں بارشیں مسلسل جاری ہیں جس کی وجہ سے ڈیموں کے آس پاس کے علاقے زیرِ آب آ رہے ہیں۔ گھروں‘ سڑکوں‘ پلوں‘ سکولوں‘ کھیلوں‘سرکاری و نجی اداروں اور ہسپتالوں سمیت تمام انفراسٹرکچر تباہ ہونے سے حکومت کے لیے بھی مسائل بڑھ رہے ہیں جبکہ وسائل پہلے ہی محدود ہیں۔سردیوں کی آمد میں بھی دو‘ تین ماہ رہ گئے ہیں اور ان علاقوں میں سردی بھی شدید پڑتی ہے۔ اتنے کم وقت میں متاثرین کی بحالی آسان نہیں۔ مخیر حضرات کو مسلسل اس کارِخیر میں حصہ ڈالتے رہنا ہو گا کیونکہ متاثرہ خاندانوں کے گھر بار کے ساتھ ساتھ ان کی روزی کے ذرائع بھی ختم ہو گئے ہیں۔ ان کا واحد سہارا اب صرف اور صرف وہ امداد ہے جو ان تک پہنچتی ہے۔ پھر ہر کسی کو ہر طرح کی امداد پہنچانا بھی آسان نہیں ہے۔ کسی کے پاس چارپائیاں نہیں ہیں تو کوئی مچھر دانی نہ ہونے کے باعث ملیریا اور ڈینگی میں مبتلا ہو رہا ہے۔ پانی میں چل چل کر لوگوں کے پائوں جلدی بیماریوں اور فنگس وغیرہ کا شکار ہو گئے ہیں۔ بیمار افراد کی تعداد بھی ہزاروں یا شاید لاکھوں میں ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ڈاکٹروں کی ٹیمیں کم پڑگئی ہیں۔ دوست بتاتے ہیں کہ وہاں موجود ڈاکٹرز اپنی پوری جان مار رہے ہیں مگر ان کا وہاں چوبیس گھنٹے موجود رہنا بھی ناکافی ہو چکا ہے کہ ایک ہجوم گیسٹرو سمیت مختلف وبائی بیماریوں میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں بھی سیاسی جماعتیں ابھی تک سیاست سیاست کھیلنے میں مصروف ہیں۔ الیکشن کمیشن نے سیلاب کے باعث ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو تحریک انصاف کی جانب سے اس پر بھی اعتراض اٹھادیا گیا، انتخاب ملتوی کرنے پر ملتان سے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسیٰ گیلانی نے فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا اور موقف اختیار کیا کہ ملتان میں تو سیلاب نہیں آیا، الیکشن ملتوی کرنے کی وجہ بتائی جائے۔ اس طرزِ سیاست کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر بہترین ایڈمنسٹریٹر مانے جاتے تھے۔ آج اس آفت کے موقع پر ان کی توجہ کا مرکز سیلاب سے متاثرہ علاقے اور شہری ہیں۔ وہ روزانہ کسی نہ کسی جگہ کا دورہ کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن سابق وزیراعظم عمران خان صرف ایک بار جنوبی پنجاب اور ایک بار سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں گئے ہیں اور وہاں بھی وہ فوٹو سیشن کرا کے واپس آ گئے۔ وہ جس ٹائیگر فورس کا چرچا کرتے تھے وہ آج کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر واقعی ایسی کوئی فورس بنائی گئی ہوتی تو کہیں تو اس کے شواہد نظر آتے جیسے دیگر تنظیموں کی امدادی کارروائیاں زبان زد عام ہیں۔ یہ سیلاب سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کیلئے بھی ایک امتحان ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں عوام اور اپنے ووٹروں کی مدد کرتے ہیں یا پھر انہیں سسکنے اور تڑپنے کیلئے تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔