عجیب وقت چل رہا ہے۔ کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی۔ ہر شعبہ زوال کو چھو رہا ہے۔ ایسے وقت میں صرف دیہاڑی بازوں کی چاندی ہو رہی ہے۔ ڈالر سے جڑی ہر چیز اوپر جا رہی ہے۔ دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی بلاجواز طور پر اضافہ ہو رہا ہے۔ اب لوگوں نے ریئل سٹیٹ سے پیسہ نکال کر ڈالر اور سونے کی خریداری پر لگانا شروع کر دیا ہے۔ چونکہ امپورٹڈ اور لوکل‘ دونوں گاڑیوں کی قیمت ڈالر سے منسلک ہوتی ہے اس لیے سٹہ بازوں نے درجنوں بلکہ پچاس پچاس گاڑیاں فیک ناموں پر خرید کر سٹاک کرنا شروع کر دی ہیں اور ایسی ایسی گاڑیوں پر لاکھوں روپے اون منی کی مد میں طلب کیے جانے لگے ہیں جن کی طرف کوئی مڑ کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ درآمدی گاڑیوں پر ڈیوٹی اچانک اس قدر بڑھا دی گئی ہے کہ آٹھ کروڑ والی گاڑی دیکھتے ہی دیکھتے بتیس کروڑ کی ہو چکی ہے۔ یقینا اس سے فائدہ بھی امیر ترین طبقے ہی کو ہوا ہے۔ جو آٹھ کروڑ کی گاڑی خرید سکتا ہے‘ وہ بتیس کروڑ کی گاڑی بھی خرید سکتا ہے، لیکن وہ شخص‘ جو کسی نہ کسی طرح بارہ‘ تیرہ لاکھ کی گاڑی خرید لیتا تھا‘ اب وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کیونکہ معمولی معمولی گاڑیاں بھی ستائیس‘ اٹھائیس لاکھ روپے تک جا پہنچی ہیں۔ اون مافیا ہر طرف سرگرم ہے‘ اسے کھلی چھٹی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اس وقت پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت صرف اسلام آباد تک محدود ہے جبکہ پی ٹی آئی‘ جس نے اتنا شور مچا رکھا ہے‘ پنجاب اور کے پی کے علاوہ بلوچستان‘ جی بی اور آزاد کشمیر میں بھی حکومت میں ہے۔ سولہ کروڑ عوام اس کی رعایا ہیں لیکن اسے ہر قیمت پر وفاق سے بھی اقتدار لینا ہے اور پورے ملک پر بلاشرکت غیرے حکومت کرنی ہے ۔ اس تگ و دو میں سیاسی درجہ حرارت کو بڑھایا جا رہا ہے اور اداروں کے حوالے سے بھی غیر ضروری بیان بازی کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نت نئی محاذ آرائیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ سیلاب سے تباہ حال عوام کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ فوکس اگر ہے تو صرف اس پر کہ کسی طرح الیکشن ہو جائیں اور اقتدار دوبارہ پی ٹی آئی کو مل جائے۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر اس ملک میں جو کھلواڑ کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے‘ اس سے عوام کو کیا ملا ہے۔ جمہوریت کا تو نام ہی چل رہا ہے عملاً تو مطلق العنانی ہی نافذ ہے۔ سوائے جماعت اسلامی کے‘ ہر سیاسی جماعت میں موروثیت قائم ہے۔ پی ٹی آئی میں بھی عمران خان کے علاوہ کوئی پارٹی چیئرمین بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) میں تو نون کا مطلب ہی نواز شریف ہیں۔ اگر وہ پارٹی سے وابستہ نہیں رہیں گے تو مسلم لیگ (ن) بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی میں بھٹو خاندان کی بادشاہت چل رہی ہے۔ بلاول بھٹو کے بعد بختاور اور آصفہ بھٹو اور ان کے بچے کئی نسلوں تک کے لیے ہم پر حکمرانی کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ پھر یہ جمہوریت کا کھیل کس کو دکھانے کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ عمران خان صاحب سے امید تھی کہ وہ اپنی پارٹی میں انفرادیت لائیں گے وہ ملکی سیاست میں خوشگوار تبدیلی کی علامت بنیں گے لیکن وہ بھی روایتی سیاسی پارٹیوں کی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ان کی جماعت میں بھی پارٹی کے نائب صدر قریشی صاحب نے اپنا پورا خاندان پارٹی میں شامل کر لیا ہے۔ اس سے قبل خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک صاحب کے بارے میں یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ اپنے خاندان کے بے شمار افراد کو انہوں میں پارٹی ٹکٹ دلائے تھے۔ ایسے تمام افراد خان صاحب کے لیے قابلِ قبول محسوس ہوتے ہیں کیونکہ اقتدار کا ہما انہی سے ہو کر سر پر بیٹھتا ہے اور اگر مقصد ہی حصولِ اقتدار ہو تو پھر اس کے لیے اخلاقی اقدار کو خیرباد کہہ کر یوٹرنز بھی لینا پڑتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ غیر یقینی کی صورت حال بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر خبر مزید تشویش ناک ثابت ہو رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط کی خبریں آنے سے مارکیٹ عارضی طور پر مستحکم ہوئی تھی۔ ڈالر کا ریٹ نیچے گیا تھا اور سونے کے دام بھی واپس آ رہے تھے لیکن یہ صورت حال چند دن بھی برقرار نہ رہ سکی۔ اب ڈالر ایک مرتبہ پھر بڑھ رہا ہے اور سونا بھی ایک لاکھ چھپن ہزار روپے فی تولہ سے تجاوز کر چکا ہے۔ وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے جو اس ساری صورتحال کی ذمہ داری اُن بارودی سرنگوں پر ڈال رہی ہے جو بقول اس کے‘ تحریک انصاف کی سابق حکومت لگا کر گئی تھی۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے باوجود اس کی شرائط پر عمل نہ کیا گیا۔ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں منجمد کرنے سے عوام کو عارضی ریلیف تو ملا لیکن بعد میں جو حالت ہوئی‘ اس کے سبب اب پوری قوم کے کانوں سے دھواں نکل رہا ہے۔ اس وقت بجلی کے بلوں نے الگ قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ جو گھر بند پڑے ہیں اور جہاں چند ایک یونٹ خرچ ہوئے ہیں‘ وہاں بھی کئی کئی ہزار روپے کا بل آیا ہے۔ بعض بل دیکھ کر تو لگتا ہے کہ شاید پانچ‘ چھ سو روپے فی یونٹ کے حساب سے چارج کیا گیا ہے۔ اس مرتبہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی تاریخ میں کچھ اضافہ شاید اسی لیے کیا گیا ہے تاکہ لوگ آخری تاریخ سے پہلے اپنے زیورات‘ اثاثے اور گھریلو اشیا وغیرہ بہ آسانی فروخت کر کے بروقت بجلی کا بل جمع کرا سکیں۔ یہ سہولت ملنے کے بعد عوام یقینا گھروں کی الماریوں اور کونوں کھدروں میں پڑے دس‘ بیس روپے کے نوٹ حتیٰ کہ ایک‘ دو اور پانچ روپے کے سکے تک اکٹھے کر رہے ہوں گے کیونکہ ان کے پیسے ہمارے سیاستدانوں کی طرح سوئس بینکوں میں تو پڑے نہیں۔ نہ ہی ان کی جائیدادیں لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں موجود ہیں جو وہ بے فکر ہو کر سو جائیں۔ انہیں تو بچوں کی فیسیں دینی ہیں‘ گھر کا کرایہ‘ یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے ہیں‘ مہنگا پٹرول خرید کر آئی ایم ایف کا پیٹ اور حکومت کا خزانہ بھرنا ہے۔ نہ ہی ان کی شوگر ملیں یا سیمنٹ و سریے کی فیکٹریاں ہیں کہ پانچوں گھی میں ہوں اور سر کڑاہی میں۔ وہ تو پہلے ہی گردن تک مہنگائی میں ڈوبے ہوئے تھے‘ اب پورے کے پورے اس دلدل میں غرق ہو چکے ہیں۔ یہ عالمی مہنگائی کے اثرات ہیں یا ملکی بدانتظامی ہے‘ اس سے عوام کو کیا سروکار۔ وہ پہلے دو سیاسی جماعتوں کی نورا کشتی میں لٹتے چلے آ رہے تھے اب ایک تیسری پارٹی بھی انہیں بہلانے اور ورغلانے کے اس کھیل میں شامل ہو چکی ہے۔ پہلے دو پارٹیاں باریاں لگاتی تھیں‘ اب تیسری بھی میدان میں آ چکی ہے۔
ایک وقت تھا جب خان صاحب سابق حکمرانوں پر تنقید کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ شریف خاندان نے تمام اداروں کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ ماڈل ٹائون کا سانحہ پیش آیا تو خان صاحب کہا کرتے تھے کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب پولیس کو گھر کی باندی بنایا ہوا ہے‘ اسے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ شکر ہے کہ اہم ریاستی اداروں پر ان کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ وہاں بھی اپنی مرضی کی ٹرانسفر پوسٹنگ کریں۔ آج خان صاحب خود کیا کر رہے ہیں؟ وہ اپنی متنازع بیان بازی سے اداروں کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ ایک طرف توہینِ عدالت اور دوسری طرف توہینِ الیکشن کمیشن جیسے کیسز کا انہیں سامنا ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت وہ ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں‘ ان کی جڑیں عوام میں ہیں اور عام انتخابات میں انہیں واضح فتح ملے گی تو پھر وہ سہاروں کی تلاش میں کیوں ہیں؟ کیوں وہ کسی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے معاملے کو متنازع بنا رہے ہیں؟ ریاستی اداروں کے حوالے سے یہ بات کیا کم تسلی بخش ہے کہ ادارے کا جو بھی سربراہ بنے گا‘ وہ اندر سے ہی چنا جائے گا اور تمام افسران بلاشبہ وطن عزیز کے دفاع کے لیے ایک جیسا جذبہ اور جوش رکھتے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں اداروں کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور دوسری جانب وہ اداروں سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں ان کا ساتھ دیا جائے۔ اب انہوں نے بیان بازی کا جو نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ہر روز اس حوالے سے جو نیا بیان دیتے ہیں تو کیا یہ اداروں کے کام میں مداخلت اور انہیں متنازع بنانے کی کوشش نہیں؟ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی حوالوں کو جس طرح وہ غیر ضروری طور پر اپنی سیاسی تقریروں میں لا رہے ہیں‘ اس سے ایک طرف وہ عوام کو متنفر کر رہے ہیں اور دوسری جانب اپنی مشکلات میں خواہ مخواہ اضافہ کر رہے ہیں۔ انہیں ریاستی اداروں اور مذہبی معاملات کو سیاسی بیان بازی سے دور رکھنا چاہیے۔