اگر انٹرمیڈیٹ کے بعد کسی وجہ سے میڈیکل میں داخلہ نہیں ملتا تو بچوں کو کیا کرنا چاہیے‘ اس موضوع پر بات کرنے سے قبل میں ان کی بات کروں گا جو والدین کے کہنے پر یا محض اپنے شوق سے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں اور میڈیکل کے شعبے میں داخل ہو جاتے ہیں‘ انہیں چاہیے کہ وہ اس پروفیشن کو سنجیدگی کے ساتھ اپنائیں۔ ڈاکٹروں کو انسانیت کا مسیحا یونہی نہیں کہا جاتا۔ یہ بہت ہی عظیم شعبہ ہے کہ اس میں آپ کی وجہ سے کوئی شخص زندگی کی بازی ہارتے ہارتے زندگی میں واپس لوٹ آتا ہے اور اس شعبے کی وجہ سے سینکڑوں اور بعض مرتبہ لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ ڈاکٹر صرف پیسہ کمانے کے لیے بن رہے ہیں تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ آپ مسیحائی کے اس درجے پر خود کو برقرار نہ رکھ سکیں۔ آج کا زمانہ وہ نہیں رہا کہ آپ کسی غلط فہمی کے سبب اس فیلڈ میں آ جائیں اور پھر یہ کہیں کہ آپ کو اس کے بارے میں مکمل معلومات نہیں تھیں۔ اس پروفیشن میں ان لوگوں کو آنا چاہیے جو بہت زیادہ کھلے دل کے مالک ہوتے ہیں اور لوگوں کی مدد کر کے انہیں دلی سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ پہلے ڈاکٹر صرف کلینکس میں ملتے تھے لیکن اب انٹرنیٹ کی وجہ سے ہر شعبے کے افراد تک براہِ راست رسائی آسان ہو گئی ہے۔ میں ایسے ڈاکٹرز کو بھی جانتا ہوں جن سے اگر رات گئے ان کے کسی جاننے والے یا دور پار کے ملنے جلنے والے نے بھی ایڈوائس مانگی‘ تو وہ اگر جاگ رہے ہوں تو فوراً جواب دیں گے۔ ایسا ڈاکٹرشاید ہزاروں‘ لاکھوں میں سے کوئی ایک ہو گا لیکن ایسے ہی لوگوں کو مسیحا کہا جاتا ہے جو اس پروفیشن کی معراج پر رہ کر انسانیت کی صرف اس لیے خدمت کر رہے ہیں کہ انہیں اس کا صلہ دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ملنے کا سو فیصد یقین ہے۔ جبکہ ایسے ڈاکٹرز بھی ہیں‘ آپ ڈھائی‘ تین ہزار روپے فیس دے کر ہی ان کے کمرے میں داخل ہو پاتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ آپ کی بات سننے سے پہلے ہی آپ کے ہاتھ میں ایک نسخہ تھما دیتے ہیں۔ جب اگلی بار آپ طبیعت کی مزید خرابی کی شکایت لے کر دوبارہ اسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو وہ آپ کو ڈانٹتا ہے کہ آپ نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ آپ کو شوگر یا بلڈ پریشر کا بھی مرض ہے یا آپ دل کے مریض بھی ہیں۔ ایسے ڈاکٹرز مریض کی ہسٹری سے زیادہ اس کی جیب پر نظر رکھتے ہیں ۔ کئی ڈاکٹرز ایسے ہیں جو غریب مریضوں کو جان بوجھ کر مہنگی ادویات اور ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں تاکہ گلشن کا کاروبار پھل پھول سکے۔
ویسے تو اس وقت کوئی بھی شعبہ مافیاز کی دست برد سے بچا ہوا نہیں‘ اسی طرح اس شعبے میں بھی کئی مافیاز نظر آتے ہیں جن کا مقصد عوا م کی جیبوں سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نچوڑنا ہے۔ اس دھندے میں فارمیسی اور لیبز والے اپنا اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ کورونا کے دنوں میں سو‘ ڈیڑھ سو والا ماسک جس نے تین تین ہزار میں فروخت کیا ہو گا ذرا سوچیں اس نے کتنا مال بنایا ہو گا؛ چنانچہ ایسے افراد اس مقدس شعبے میں آ کر بھی انسانیت کی مجبوریوں سے کھیلنے سے باز نہیں آتے۔ انہیں پیسے کمانے کے لیے کوئی اور پیشہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح وہ ناجائز دولت کے ساتھ ساتھ مریضوں اور ان کے لواحقین کی جانب سے بددعائیں بھی سمیٹ کر ساتھ لے جائیں گے۔ دولت انہیں وقتی طور پر دنیا میں پُرتعیش زندگی گزارنے کا موقع تو فراہم کر رہی ہو گی لیکن ایسی بداعمالیاں آخرت میں اژدھوں کی طرح منہ کھولے ان کی منتظر ہوں گی۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس شعبے کی طلب و رسد میں توازن پیدا کرے اور ڈاکٹروں کے لیے نوکریوں کے مواقع فراہم کرے۔ وگرنہ ہمارے طلبہ بھیڑ چال کا شکار ہو کر اس فیلڈ میں آ تو جائیں گے لیکن پانچ‘ دس سال کے بعد پچھتا رہے ہوں گے اور مجبوراً دیگر شعبوں میں قسمت آزمائی پر مجبور ہوں گے یا بیرونِ ملک چلے جائیں گے جس سے برین ڈرین بھی ہو گا اور وہ اپنے پیاروں‘ عزیزوں اور رشتہ داروں سے دور بھی ہو جائیں گے۔ جو بچے چند نمبروں کے فرق سے ڈاکٹر نہیں بن سکتے وہ فارمیسی اور دیگر متعلقہ شعبوں میں جا سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور اپنے شوق سے اپنی فیلڈ کا انتخاب کریں۔
جو بچے ایم بی بی ایس میں داخلہ حاصل نہیں کر پاتے ان کے لیے کئی دیگر راستے کھلے ہیں۔ ایک در بند تو سو در کھل جاتے ہیں۔ ضرورت صرف سوچنے اور غور کرنے کی ہے۔ جو لوگ صرف پیسہ کمانے کے لیے ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں‘ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اس وقت جتنا پیسہ ہے‘ شاید کسی اور فیلڈ میں نہیں۔ آج دنیا کے امیر ترین سبھی افراد کا تعلق آئی ٹی کی صنعت سے ہے‘ پھر وہ چاہے فیس بک کے مارک زکربرگ ہوں‘ مائیکرو سافٹ کے بل گیٹس ہوں‘ ٹیسلا کے ایلون مسک ہوں‘ علی بابا کے جیک ما ہوں یا پھر ایمیزون کے جیف بیزوس ہوں۔ یہ سب گھنٹوں کے حساب سے کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔ چلیں‘ یہ تو انتہائی کامیاب لو گ ہیں‘ فیصل آباد یا سرگودھا کا ایک چھوٹا سا سافٹ ویئر ہائوس بھی لاکھوں ڈالر کما رہا ہے اور یہ صرف دورِ حاضر کی جدید ڈیجیٹل سِکلز کو سیکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
ویسے تو کسی شعبے میں بھی سب سے اوپر والا طبقہ ترقی یافتہ اور خوشحال زندگی گزارتا ہے لیکن آئی ٹی غالباً وہ واحد فیلڈ ہے جس میں نام اور پیسہ بنانے کیلئے اس وقت انتہائی کم وقت درکار ہے۔ یہ بات نہیں کہ اس میں محنت نہیں چاہیے‘ اس میں بھی وہی کامیاب ہو گا جو ڈاکٹروں کی طرح جان مار کر پڑھے گا اور عملی میدان میں دل و جان سے کام کرے گا۔ صرف تھیوری اور ڈگری آئی ٹی کی فیلڈ میں ذرا بھی کام نہیں آتی۔ میں کئی نوجوانوں کو جانتا ہوں جو اچھی یونیورسٹیوں سے کمپیوٹر سائنسز میں ڈگری لیے ہوئے ہیں لیکن فارغ پھر رہے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کسی چھوٹی سی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی لیکن جو سیکھا اس میں خوب جان ماری اور بالآخر اپنی سافٹ ویئر کمپنیاں بنا کر بہترین کمائی کی اور دیگر نوجوانوں کیلئے بھی روزگار کمانے کے قابل ہوئے۔ اسی طرح کئی ڈاکٹرز کو میں جانتا ہوں جو بمشکل دال دلیا کر رہے ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو لگژری لائف سٹائل جی رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کا شوق کس طرف ہے‘ آپ کتنی محنت کرنے‘ سیکھنے اور خود کو مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق اَپ ڈیٹ رکھنے کیلئے کس قدر تیار ہیں۔ اگر آپ ڈگری صرف سرکاری یا پرائیوٹ سیکٹر میں نوکری کے حصول اور پھر کمفرٹ زون میں ساری عمر گزارنے کے لیے حاصل کر رہے ہیں تو پھر ہر شعبے میں ناکام رہیں گے۔ جس طرح دودھ میں بالائی ہمیشہ اوپر رہتی ہے‘ اسی طرح آپ کو ہر شعبے میں بالائی کی طرح بننا ہو گا۔ کے ٹو کو سر کرنے کے لیے میدان کھلا ہے۔ جو اس کی چوٹی پر پہنچ جائے گا وہ کامیاب اور کامران ہو گا۔ اس دور کے تقاضوں کو سمجھیے۔ حکومتوں کے لیے ہر کسی کو نوکری دینا ممکن نہیں۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ موجودہ دور میں آئی ٹی انڈسٹری نے اب ایسا موقع دے دیا ہے اور آپ اپنی فیملی سے دور‘ بیرونِ ملک جا کر ڈالر کمانے کے بجائے پاکستان میں رہ کر آئن لائن کام کر سکتے ہیں اور معاوضہ بھی ڈالروں میں وصول کر سکتے ہیں۔ وگرنہ شاید آج بھی لوگ امریکہ اور یورپ جا کر ٹیکسیاں چلا کر اور سامان ڈھو کر ڈالر کمانے پر مجبور ہوتے۔
انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ جستجو کرتا ہے۔ کوشش کریں تو خدا بھی مل جاتا ہے تو پھر اتنی مایوسی کیوں؟ آج سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر اساتذہ‘ والدین اور بچوں کی کیریئر کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایسی پروفیشنل ورک فورس پیدا کی جا سکے جو دورِ حاضر کے تیزی سے بدلتے تقاضوں پر پورا اتر سکے اور اپنا اور ملک کا معاشی پہیہ چلا سکے۔ وگرنہ ہر سال یونیورسٹیوں سے اسی طرح سولہ ہزار میڈیکل گریجوایٹس نکلتے رہیں گے اور ان میں سے بہتر روزگار صرف چند سو ہی حاصل کر پائیں گے۔