وقت کے ساتھ تبدیلی کی رفتار میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ بلیک اینڈ وائٹ اور کلر ٹی وی کے درمیان کئی عشروں کا فاصلہ تھا۔ اسی طرح پہلے کمپیوٹر سے لے کر لیپ ٹاپ کی ایجاد تک بھی کافی برس لگے تھے؛ تاہم اب ٹیکنالوجی بدلنے میں برسوں نہیں بلکہ مہینوں کاعرصہ درکار ہوتا ہے۔ کینیڈا ‘ برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں آٹو میشن اسّی کی دہائی میں ہی شروع ہو گئی تھی اور بس سٹاپ اور مارکیٹوں میں ایسی ڈیجیٹل الماریاں عام نظر آتی تھیں جن میں پیسے ڈال کر کوڈ ڈرنکس‘ چاکلیٹس اور دیگر اشیا‘ بغیر کسی سیلز مین کی مدد کے‘ خریدی جا سکتی تھیں۔ آج ان ملکوں میں بغیر ڈرائیور کے گاڑیاں چل رہی ہیں‘ ڈرون گھروں میں پیزے اور برگر ڈِلیور کر رہے ہیں حتیٰ کہ جگہ جگہ گاڑی کی ڈپلیکیٹ چابی بنانے کی آٹو میٹک مشینیں بھی نصب ہو چکی ہیں جن میں آپ مطلوبہ رقم ڈالنے کے بعد اپنی چابی کی ڈپلیکیٹ چند منٹوں میں حاصل کر لیتے ہیں۔اس سارے عمل میں انسان کو اگر سہولتیں مل رہی ہیں تو نقصان بھی انسانوں ہی کاہو رہا ہے کیونکہ ڈرائیولیس گاڑیوں کا مطلب ہے کہ ڈرائیوروں کے روزگار کا خاتمہ۔اسی طرح دکان میں سیلز مین نہیں ہوں گے تو ایک چھوٹی دکان کے دو‘ تین سیلز مین بھی فارغ ہوجائیں گے۔
ایمیزون کا ایک ایسا سٹور کئی ماہ سے امریکہ میں کافی مقبول ہے جہاں نہ تو کوئی کیشیئرہے‘ نہ ہی سیلز مین۔ آپ سٹور میں جاتے ہیں‘ باسکٹ میں چیزیں ڈالتے ہیں اور سٹور سے باہرلے آتے ہیں‘ جیسے ہی آپ سٹور سے باہر نکلتے ہیں‘ سٹور میں لگے خود کار کیمرے اور سینکڑوں سینسرز کی مدد سے آپ کی خریدی گئی چیزوں کی تعداد اور قیمت کا حساب لگا کر بل آپ کے کریڈٹ کارڈ سے اسی وقت خودبخود کاٹ لیا جاتا ہے۔ بظاہر اس میں سہولت کا عنصر نمایاں ہے۔ یہ سیلف شاپنگ کا جدید ترین فیز ہے جس میں آ پ کا کسی انسان سے انٹرایکشن نہیں ہوتا اور آپ آزادی کے ساتھ خریداری کر سکتے ہیں مگر یہ ٹیکنالوجی درجنوں بلکہ سینکڑوں افراد کی بیروزگاری کا ذریعہ بھی بنی ہے۔ اسی قسم کی ٹیکنالوجی کی اگلی قسم الیکٹرک وہیکلز ٹیکنالوجی ہے جو پٹرول سے جڑی صنعت اور لاکھوں افراد کا روزگار آج نہیں تو دس‘ بیس برس بعد ضرور نگل جائے گی۔پٹرول کی بڑھتی قیمتیں اور خام تیل کی کمیابی اس رجحان کی تیزی میں اہم کردار ادا کرے گی۔پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے فضائی آلودگی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس کے سبب دنیاالیکٹرک ٹیکنالوجی کی طرف تیزی سے راغب ہو رہی ہے۔
ویب سائٹ اور انٹرنیٹ کی بات کریں تو اس میں بھی تیسرا فیز شروع ہونے کو ہے۔ ویب ون کا فیز 1990 ء کی دہائی سے 2004ء تک رہا جس میں ویب سائٹس پر ڈیٹازیادہ تر ٹیکسٹ اور تصاویر کی صورت میں موجود ہوتا تھا۔ اس کے بعد 2004ء میں ویب ٹو ٹیکنالوجی لانچ ہوئی۔ اس میں انٹرنیٹ پر وڈیوز بھی عام ہونا شروع ہوئیں اور ویب سائٹس پہ صارفین ایک دوسرے کے ساتھ انٹرایکشن کرنے کے قابل ہوئے۔سمارٹ موبائل فون آیا تو نئی نئی اپیلی کیشنز بننے لگیں جن کی وجہ سے بینکنگ سیکٹر بھی سکڑ کر موبائل میں سما گیا اور جن چھوٹے چھوٹے کاموں کی وجہ سے لوگوں کو بینک جانا پڑتا تھا‘ مثلاً بل جمع کرانا، پیسے ٹرانسفر کرنا‘ وہ سارے کام گھر بیٹھے موبائل فون پر ہی ہونے لگے۔
اسی طرح سوشل میڈیا کے آنے کے بعد کال سنٹرز کی تعداد بھی کم ہونے لگی او روایتی مارکیٹنگ کا طریقہ کار دم توڑنے لگا۔ سوشل میڈیا کم وقت میں دنیا بھر میں ٹارگٹڈ مارکیٹنگ کا انتہائی آسان‘ تیز اور سستا ترین ذریعہ بن چکا ہے۔ اس عمل کے ذریعے بھی روایتی نوکریاں ختم ہوئیں؛ البتہ جن لوگوں نے خود کو بروقت اَپ ڈیٹ کر لیا‘ وہ نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہو گئے۔ ویب ٹو کے بعد اب ویب تھری ٹیکنالوجی پر تول رہی ہے۔ یہ اس لیے بھی مقبول ہو رہی ہے کہ اس کی وجہ سے بڑے بڑے ٹیکنالوجی گروپوں کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی کیونکہ فی الوقت چند بڑی کمپنیاں پوری دنیا کے اربوں افراد کا ڈیٹا استعمال کر رہی ہیں اور اس کے عوض انہیں ادائیگی بھی نہیں کرتیں بلکہ یہ دوسروں کی پرائیویسی تک رسائی حاصل کر کے امیر سے امیر تر ہوتی جا رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک‘ ٹویٹر‘ انسٹاگرام اور دیگر آئی ٹی کمپنیاں اور موبائل ایپس شامل ہیں۔
ہم جب بھی کوئی ایپ اپنے موبائل فون میں انسٹال کرتے ہیں تو وہ ایپ ہم سے ہمارے فون میں موجود دوستوں‘ رشتہ داروں کے نمبروں تک رسائی‘ تصاویر‘ آڈیوز‘ وڈیوز ‘ میسجز (پیغامات) اور دیگر اہم ڈیٹا مثلاً لوکیشن جیسی چیزوں تک رسائی کی اجازت مانگتی ہے اور ہم فوری طور پر allow کر کے اس ایپ کو انسٹال کر لیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں ہمیں یہ ایپ فری میں ملی ہے تو ہماری بلا سے‘یہ کون سا ہم سے پیسے مانگ رہی ہے جو ہم اسے ''نو‘‘ کریں۔ حالانکہ ہمارا ڈیٹا‘ ہماری لوکیشنز کی تفصیلات‘ سرچ ہسٹری اور دیگر اہم و قیمتی ڈیٹا دنیا بھر کی مارکیٹنگ اور ریسرچ کمپنیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جن کی بنا پر وہ ہمیں اپنے اشتہارات دکھاتی ہیں۔ ہم جو کچھ گوگل پر سرچ کرتے ہیں‘ روزانہ جس جس علاقے اور جس جگہ پر اپنا وقت گزارتے ہیں‘ جن ہوٹلز میں کھانا کھاتے ہیں حتیٰ کہ جو کچھ ہم بولتے ہیں‘ جن برانڈز کا ہم نام لیتے ہیں وہ ساری معلومات ہمارے موبائل فون کے مائیک اور لوکیشن ڈیٹا کے ذریعے ان موبائل ایپس تک پہنچ جاتی ہیں جن کو انسٹال کرتے ہوئے ہم انہیں ہر قسم کی رسائی فراہم کر دیتے ہیں۔
آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہو گا کہ کئی مرتبہ ہم کسی عالمی برانڈ کا دو چار مرتبہ نام لیتے ہیں یا اپنے کسی دوست‘ عزیز سے کسی چیز کے خریدنے کی بات کرتے ہیں اور چند منٹوں بعد فیس بک یا کوئی اور ایپ کھولتے ہیں تو اسی برانڈ‘ اسی چیز کے اشتہارات سکرین پر ہمیں نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔بعض لوگوں نے تو یہاں تک نوٹ کیا کہ وہ جو چیز اپنے ذہن میں سوچ رہے ہوتے ہیں‘ بعض اوقات اس سے متعلقہ وڈیوز اور اشتہارات بھی انہیں نظر آنے لگتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں مغالطہ لگا ہو لیکن ویب تھری ٹیکنالوجی کے بعد یہ بھی ممکن ہو جائے گا کہ انسان جو سوچے‘ وہی کچھ اس کو اپنے سامنے نظر آنا شروع ہو جائے۔ ویب تھری میں بلاک چین ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے جس میں صارفین کی پرائیویسی بہت زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔ اسی طرح اس میں ورچوئل ریلیٹی کی دنیا کا بھی آغاز ہو گا جس میں لوگ آنکھوں پر ''وی آر سیٹ‘‘ لگا کر ایک نئی دنیا میں پہنچ جایا کریں گے‘ وہاں مختلف الخیال لوگوں سے ملاقات کر سکیں گے‘ دنیا کے دوسرے کونے‘ دوسرے خطوں میں موجود افراد کے ساتھ ایک کمرے میں بیٹھ کر براہِ راست میٹنگز کر سکیں گے‘ دنیا میں کسی جگہ کوئی بلند عمارت کا تعمیراتی منصوبہ شروع ہو رہا ہو تو آپ اپنے اپنے ملک میں بیٹھ کر ورچوئل طریقے سے اس جگہ یا اس سائٹ کا بالکل اس طرح معائنہ کر سکیں گے جیسے حقیقی طور پر وہاں موجود ہوں۔ یہ سب کچھ ویب تھری ٹیکنالوجی میں ممکن ہو سکے گا۔ دبئی نے تو اس کام کا آغاز کر بھی دیا ہے اور اگلے پانچ برس میں ٹورازم اور دیگر شعبوں کو ویب تھری سے جوڑتے ہوئے چار لاکھ نوکریاں پیدا کی جائیں گی۔ چین‘ امریکہ‘ جاپان‘ برطانیہ اور جرمنی بھی ویب تھری کو لے کر بہت پُر جوش ہیں۔
پاکستان میں یہ قدم سب سے پہلے پنجاب حکومت نے اٹھایا ہے اور صوبائی حکومت کی بنائی گئی ایک کمیٹی نے ویب تھری پورٹل لانچ کر دیا ہے جس کے بعد دنیا بھر میں مختلف افراد اور کمپنیاں اپنی اپنی تجاویز اس پورٹل پر دے سکیں گے اور یوں کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد ویب تھری کو پنجاب کے مختلف سرکاری اور نجی منصوبوں میں نافذ کر دیا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں 2030ء تک ویب تھری ٹیکنالوجی سیکٹر کی اکانومی کئی ٹریلین ڈالرز تک پہنچ جائے گی جبکہ براہ راست روزگار کے لاکھوں اور بالواسطہ روزگار کے کروڑوں مواقع سامنے آئیں گے۔ جو ملک اور جو ادارہ اس ٹیکنالوجی کو بروقت اپنا لے گا‘ اس کی معیشت بہتر ہو جائے گی اور زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا اور جو اس معاملے میں سستی دکھائے گا‘ وہ عشروں بلکہ صدیوں پیچھے رہ جائے گا۔