فری لانسنگ میں کتنا پیسہ ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیجیے کہ اَپ ورک جو دنیا بھر میں آن لائن کام کرنے اور کروانے والوں کو آپس میں ملانے والا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے‘ اس نے 2021ء میں سوا کھرب روپے کا بزنس کیا۔ پاکستان فری لانسنگ کی مارکیٹ میں دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور اس کی وجہ اٹھارہ سے تیس برس کے وہ کروڑوں نوجوان ہیں جو اس کام کو سمجھتے ہیں اور نہ صرف اپنا روزگار چلا رہے ہیں بلکہ ڈالر کی صورت میں پیسہ پاکستان لا رہے ہیں۔ میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کے لیے جلد از جلد ڈالر پاکستان لانے کا سوائے اس کے کوئی طریقہ نہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ساتھ جوڑا جائے جہاں وہ اپنی مہارتیں دکھا کر پیسہ کما سکیں۔ یہ واحد شعبہ ہے جس میں نہ تو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لمبی چوڑی منظوریاں لینا پڑتی ہیں‘ نہ فائلوں پر دستخط درکار ہوتے ہیں۔ بس سکلز درکار ہوتی ہیں جس کے بعد کسی فری لانسنگ ویب سائٹ پر جا کر اکائونٹ بنانا پڑتا ہے جس کے کوئی پیسے چارج نہیں کیے جاتے۔ اکائونٹ میں پروفائل بنائی جاتی ہے اور آپ کو جو سکلز آتی ہیں اور جو کام آپ کر چکے ہیں‘ وہ آپ بہتر انداز میں وہاں درج کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد پہلا آرڈر ملنے میں تھوڑا سا ٹائم یعنی چند ماہ لگتے ہیں‘ بعض صورتوں میں چند دن میں بھی پہلا آرڈ ر مل جاتا ہے اور اس کا انحصار آپ کی پروفائل اور سکلز پر ہوتا ہے۔ ایک آرڈر مل جائے تو آپ کی پروفائل بہتر ہونے لگتی ہے‘ آپ کو اعتماد ملتا ہے اور مزید کام ملتے ہی آپ کا پورٹ فولیو بننے لگتا ہے۔ پھر آپ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں اور جتنا چاہے کر سکتے ہیں۔ زیادہ کام ملنے پر آپ اپنے دوستوں یا دیگر افراد میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ بعض فری لانسرز درجنوں افراد کو کام بانٹ دیتے ہیں اور ان کے حصے کے پیسے بھی انہیں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اس شعبے میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کو جو آمدنی ملتی ہے‘ وہ پاکستانی کرنسی میں نہیں بلکہ ڈالر میں ملتی ہے۔ آپ جو آرڈر لیتے ہیں‘ وہ ڈالر میں ہونے کے باعث آپ کو ملکی کرنسی کی ڈی ویلیوایشن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ کچھ لوگ تو یہ دعا کرتے ہیں کہ ڈالر مزید مہنگا ہو تاکہ انہیں تبدیل کرنے کے بعد ملکی کرنسی زیادہ مل سکے۔ اَپ ورک کے علاوہ بھی درجنوں ویب سائٹ فری لانسنگ کا کام دیتی ہیں۔ دنیا بھر سے عام لوگ‘ کمپنیاں اور تنظیموں کو جن سکلز کی ضرورت ہوتی ہے وہ انہی ویب سائٹ کے ذریعے اپنی ڈیمانڈ پوری کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کون سی سکلز ایسی ہیں جن کی اس وقت سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ یہاں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ جس طرح سے ٹیکنالوجی تبدیل ہو رہی ہے بلکہ ہر چیز ہی بدل رہی ہے‘ موسم‘ زمین کا درجہ حرارت سب کچھ بدل رہا ہے‘ ایسے ہی ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی ہر چند سال بعد نئی چیز آ جاتی ہے۔ جو شخص خود کو اَپ ڈیٹ کر لیتا ہے وہ بہتر آمدنی کماتا ہے۔ نئے بندے کے لیے بھی ڈیجیٹل سکلز سیکھنا زیادہ مشکل نہیں اور بغیر کسی ٹیکنالوجی بیک گرائونڈ کے بھی اگر کوئی شخص تین سے چھ ماہ محنت کرکے لگائے تو وہ بھی فری لانسنگ شروع کر دیتا ہے اور ایسی کئی بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ آرٹس کے طلبا یا میڈیکل کے طلبا نے بھی ڈیجیٹل مارکیٹ میں قدم رکھا تو وہ ٹیکنالوجی ایکسپرٹ سے زیادہ کامیاب ہوئے۔ جس بندے میں بھی سیکھنے کا کیڑا ہوگا وہ اس فیلڈ میں کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ باقی جس بندے کو روایتی نوکری کی عادت ہے اور جو دماغی طور پر شکست تسلیم کر چکا ہے کہ وہ تو چونکہ اس فیلڈ کا بندہ نہیں ہے‘ اس لیے اس میں جانے کا فائدہ نہیں یا یہ مشکل کام ہے تو پھر ایسا بندہ کہیں بھی نہیں چل سکتا۔ وہ صرف دال روٹی کے چکر اور پٹرول گیس کی قیمتوں کو دیکھ کر ہی سر پکڑتا رہے گا۔ وہ یہی ماتم کرتا رہے گا کہ ہماری حکومتیں ہمارے لیے کچھ نہیں کرتیں‘ سیاستدانوں نے ملک برباد کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ موبائل فون کی شکل میں اس کے پاس دنیا سے رابطے کا ایک سستا ترین ذریعہ موجود ہے‘ یوٹیوب کی شکل میں چلتی پھرتی یونیورسٹی اس کے ہاتھ میں ہے‘ دنیا کا سستا ترین انٹرنیٹ اس کے ملک میں دستیاب ہے‘ اس کے باوجود وہ اگر حکومتوں اور سیاستدانوں کو کوسنے میں لگا رہے گا تو پھر یہ اس کی اپنی چوائس ہے‘ اس لیے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم چار چار‘ پانچ پانچ سال کی ڈگریاں کر لیتے ہیں لیکن چار پانچ ماہ لگا کر کوئی ہنر سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بھائی اب ایم اے‘ بی اے کا دور گزر چکا۔ ایک وقت میں لوگ اپنے نام کے ساتھ بی اے لکھوایا کرتے تھے کیونکہ اس وقت بی اے اعلیٰ تعلیم سمجھی جاتی تھی اور ایسے بندے کو فوری سرکاری نوکری بھی مل جاتی تھی۔ اب نہ بی اے بلکہ ایم اے کی کوئی ویلیو ہے اور نہ ہی کسی بھی حکومت کی تجوری میں لاکھوں نوکریاں پڑی ہیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ حکومت نوکریاں دے سکے بلکہ اب وہ آپ کے لیے ایسی سہولیات پیدا کر سکتی ہے جس کے ذریعے آپ نوکری یا فری لانسنگ حاصل کر سکیں۔ حکومتی نوکریاں سن کر یقینا ہمارے ذہن میں ابھی تک پی آئی اے‘ سٹیل ملز اور اس جیسے اداروں والی روایتی نوکریاں آتی ہیں کہ جو سیاستدانوں کے قریبی ورکرز کو ان کی جدوجہد کے اعزاز میں کوٹے کی صورت میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جاتی تھیں۔ اب تو ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پہلے ہی یہ ادارے سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں اور ماہانہ اربوں روپے تنخواہوں اور پنشنز کی صورت میں جا رہے ہیں جبکہ یہ ادارے منافع تو دور کی بات‘ ہر سال خسارے میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ امید لگائے رکھنا کہ اب جو حکومت آئے گی‘ وہ پھولوں کی ٹوکری میں ہمارے لیے نوکریاں لائے گی‘ سوائے دل لگی کے کچھ نہیں۔ یہ کوئی خیالی یا جادوئی باتیں نہیں بلکہ ہمارے سامنے ہمت‘ عزم اور کامیابی کی جیتی جاگتی مثالیں موجود ہیں۔ فیصل آباد میں ایک لڑکی جسے بچپن میں پولیو ہو گیا تھا‘ نے سرکاری فری لانسنگ ای روزگار پروگرام سے تین ماہ کی تربیت لی جس کے بعد وہ گھر بیٹھے دو اڑھائی لاکھ روپے کما رہی ہے اور اپنے بھائی اور بہن کو بھی ساتھ ملا کر آمدنی کا بہترین اہتمام کر رہی ہے۔ اس وقت ہر دوسرا شخص موبائل فون پر روزانہ تین چار گھنٹے اوسطاً سوشل میڈیا پر ادھر اُدھر کی چیزیں دیکھ کر وقت گزار رہا ہے۔ یہی وقت اگر کسی ڈیجیٹل ہنر کو سیکھنے میں لگایا جائے تو دو تین ماہ میں ہنر سیکھ کر گھر بیٹھے فری لانسنگ سے ڈالر کمائے جا سکتے ہیں لیکن یہ بات اس قوم کو سمجھانا آسان نہیں ہے کیونکہ اب زیادہ تر لوگوں نے نیا وتیرہ یہ بنا لیا ہے کہ آپ انہیں جتنا مرضی اچھا مشورہ دے دیں‘ وہ کیڑے ہی نکالیں گے اور دیگر لوگ بھی دیکھا دیکھی ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ دنیا چاند سے آگے جا رہی ہے۔ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ فلپائن حتیٰ کہ پاکستان ٹاپ ٹین فری لانسنگ ممالک میں شامل ہو چکا لیکن بدقسمتی سے اسی ملک میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک یہی سمجھ رہی کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہنر سیکھنے اور اس سے آمدنی کمانے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
پندرہ ایسی ڈیجیٹل سکلز ہیں جن کی اس وقت اَپ ورک اور دیگر فری لانسنگ پلیٹ فارمز پر سب سے زیادہ طلب ہے‘ وہ کون سی سکلز ہیں‘ ان کیلئے کیا اہلیت درکار ہے اور ان سے کتنے ڈالر فی گھنٹہ کمائے جارہے ہیں‘ ان پر روشنی ان شاء اللہ اگلے کالم میں۔