سینکڑوں بلکہ ہزاروں پاکستانی نوجوان آن لائن فری لانسنگ کے تحت کام کرکے ایک گھنٹہ کے دس ڈالر سے لے کر پچاس ڈالر یا اس سے بھی زیادہ چارج کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ جہاں دس ڈالر فی گھنٹہ میں انہیں دو ہزار آتے تھے اب ڈالر پونے تین سو کا ہونے سے وہ تقریباً تین ہزار فی گھنٹہ کما رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی مرضی سے کام کرتے ہیں اور جتنا چاہے کرتے ہیں۔ اس طرح کی آئیڈیل قسم کی آمدن دیکھنے اور سننے میں جتنی پرکشش اور دلفریب لگتی ہے‘ اسے حاصل کرنا اتنا ہی مشکل کام ہے۔ لیکن کام آسان کون سا ہے اور اگر کوئی کام آسان ہے تو اس میں کمائی پرکشش نہیں ہو گی۔ قدرت کا یہ قانون ہے کہ آپ جتنی محنت کریں گے‘ آپ کو اتنا ہی صلہ ملے گا‘ چاہے آپ کا تعلق دنیا کے کسی مذہب اور کسی فرقے سے ہی کیوں نہ ہو۔ محنتی شخص کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دیکھا دیکھی ہر نیا کام شروع تو کر دیتے ہیں لیکن اس کے لوازمات پورے کرنا تو درکنار‘ سمجھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ پہلے میں آپ کو اَپ ورک فری لانسنگ پلیٹ فارم پر چند کامیاب پاکستانی فری لانسرز کے بارے میں بتا دیتا ہوں تاکہ آپ کو یقین ہو جائے کہ یہ سراب نہیں حقیقت ہے اور ہمارے دور دراز کے شہروں‘ قصبوں حتیٰ کہ دیہات کے نوجوان کیسے خوش حال ہو رہے ہیں اور یہ تفصیل آپ خود بھی اس ویب سائٹ پر جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ عمر وقاص کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ اَپ ورک کے ٹاپ ریٹڈ فری لانسرز ہیں۔ ٹاپ ریٹڈ بننے کے لیے کچھ شرائط پوری کرنا ہوتی ہیں مثلاً آپ کا جاب حاصل کرنے کا سکور نوے فیصد سے زائد ہو۔ آپ کے پہلے اَپ ورک فری لانسنگ پراجیکٹ کو نوے دن یا تین ماہ گزر چکے ہوں۔ آپ کا پروفائل سو فیصد مکمل ہو۔ اَپ ورک پر آپ کی گزشتہ ایک سال کی آن لائن آمدن کم از کم ایک ہزار ڈالر ہو چکی ہو۔ آپ سے جب بھی کلائنٹ رابطہ کرے‘ آپ اس کا جلد از جلد جواب دیتے ہوں۔ آپ کے اکائونٹ پر کوئی غلط ایکٹیوٹی نہ ہوئی ہو۔ عمر وقاص فری لانسنگ میں تھری ڈی اینیمیشن‘ تھری ڈی ماڈلنگ‘ گیم ڈیزائن کی سروسز دیتا ہے اور پچیس ڈالر فی گھنٹہ چارج کر رہا ہے جو ہماری کرنسی میں تقریباً سات ہزار روپے فی گھنٹہ بنتے ہیں۔ عمر اب تک تین سو سے زائد ٹاسک مکمل کر چکا ہے اور دو ہزار تین سو اڑسٹھ گھنٹے اَپ ورک پر کام کر کے کما چکا ہے۔ وہ ایک گھنٹے کے پچیس ڈالر چارج کرتا ہے‘ اس حساب سے وہ تقریباً ساٹھ ہزار ڈالر کما چکا ہے جو سوا دو سو روپے فی ڈالر کے حساب سے بھی دیکھیں تو سوا کروڑ روپے سے زائد بنتے ہیں۔ سلیمان کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔ یہ یو آئی اور یو ایکس ڈیزائنر ہے‘ اس کی جاب حاصل کرنے کی شرح سو فیصد ہے۔ یہ چالیس ڈالر یا دس ہزار روپے فی گھنٹہ چارج کرتا ہے اور پچاس گھنٹوں پر محیط دو سو ستاسی جابز مکمل کر چکا ہے۔ اس حساب سے یہ بیس ہزار ڈالر یا پچاس لاکھ روپے کما چکا ہے۔ سمیع کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ سمیع پچاس ڈالر یعنی چودہ ہزار روپے فی گھنٹہ چارج کرتا ہے۔ سمیع سرٹیفائیڈ بُک کیپر اور سینئر اکائونٹنٹ ہے۔ یہ تین ہزار گھنٹے مکمل کر چکا ہے۔ اس حساب سے یہ ساڑھے تین کروڑ روپے یا اس سے زائد کما چکا ہے اور یہ سب وہ کسی جدید ترقی یافتہ علاقے سے نہیں بلکہ گلگت بلتستان میں بیٹھ کر کما رہا ہے۔ آپ محمد صفی کو دیکھ لیں۔ یہ چارسدہ جیسے شہر میں بیٹھ کر آن لائن فری لانسنگ کر رہا ہے۔ یہ گرافکس ڈیزائنر ہے۔ عربی کیلیگرافی ایکسپرٹ ہے اور فی گھنٹہ تیس ڈالر یا تقریباً آٹھ ہزار روپے کما رہا ہے۔ یہ کسی آرڈر پر دن میں دو گھنٹے بھی کام کرتا ہے تو سولہ ہزار روپے کما لیتا ہے۔ پورے مہینے کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ یہ بھی دو سو گھنٹے مکمل کر چکا ہے۔ یہ تو لڑکوں کی بات تھی۔ لڑکیاںبھی پیچھے نہیں رہیں۔ کراچی کی زارا‘ ٹی شرٹ‘ پیکیجنگ‘ کتابوں کی لے آئوٹ‘ میگزین اور بروشر ڈیزائن میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ اکیس ڈالر یا پانچ ہزار روپے فی گھنٹہ چارج کرتی ہے اور ایک سو دس گھنٹے اَپ ورک پر کام کر چکی ہے۔ سانگلہ ہل کا طلحہ بھی اَپ ورک کا ٹاپ ریٹڈ فری لانسر ہے۔ یہ تھری ڈی آرٹسٹ ہے۔ یہ تیس ڈالر فی گھنٹہ چارج کرتا ہے۔ یہ پونے چار سو گھنٹے مکمل کر چکا ہے اور یہ بھی دو اڑھائی کروڑ سے اوپر آمدنی کما چکا ہے۔ ان سب نوجوانوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے مسلسل محنت‘ نئی معلومات اور کام سیکھنے کا عزم اور صبر۔ ان میں سے کچھ نوجوانوں کا بیک گرائونڈ وہی تھا جس میں وہ کام کر رہے ہیں لیکن زیادہ تر ایسے ہیں جن کی تعلیم مختلف تھی لیکن انہوں نے نئے سکلز سیکھے‘ انہیں پالش کیا اور ہار نہیں مانی۔ ان لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ حکومت انہیں نوکریاں دے گی تو وہ کام کریں گے وگرنہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گھر بیٹھے رہیں گے۔ یہ بھی دیگر طبقات کی طرح سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر سکتے تھے کہ ہم نے ڈگریاں مکمل کی ہوئی ہیں‘ تعلیم میں سولہ سولہ سال لگائے ہیں پھر بھی حکومت انہیں نوکری نہیں دے رہی۔ ایسا اگر یہ سوچتے تو اب تک اسی دائرے میں رہ رہے ہوتے جس میں اسی فیصد عام لوگ رہ رہے ہیں۔ یہ کبھی بھی اس خول سے باہر جھانکنے کو تیار نہیں جس کے باہر قسم قسم کی نئی دنیائیں آباد ہیں‘ جہاں لوگ اپنے خواب پورے کر رہے ہیں‘ جہاں وہ اپنی مرضی سے جی رہے ہیں نہ کہ زندگی انہیں جس طرف لے جائے اس طرف ہانک دیے جائیں۔
چند ماہ قبل میں گورنر ہائوس کی ایک تقریب میں شریک تھا جس میں ایک چوبیس سالہ بچی کے لیے گورنر سمیت تمام حاضرین کھڑے ہو کر تالیاں بجانے پر مجبور ہو گئے۔ اس لڑکی نے بتایا کہ ان کے والد ین کے پاس پلاٹ تو تھا لیکن گھر بنانے کے پیسے نہیں۔ وہ کرائے کے مکان پر رہنے پر مجبور تھے۔ ان کی بیٹی مگر بہت سے بیٹوں سے آگے نکل گئی۔ اس نے ای روزگار سے تربیت لی۔ ڈیجیٹل ہنر سیکھے اور فائیور پر کام شرو ع کر دیا۔ جب اس لڑکی نے بتایا کہ وہ گزشتہ پانچ برس سے فائیور پر کامیابی کے ساتھ ایک ہزار سے زائد آرڈر مکمل کر چکی ہے اور اس کی کمائی گئی آمدنی سے اس کے والدین کے خالی پلاٹ پر اس کے پیسوں سے گھر بھی تعمیر ہو چکا ہے۔ ذرا خود سوچیں‘ فری لانسنگ نہ ہوتی تو کیا یہ بچی چند برس میں ساڑھے پانچ کروڑ روپے کما پاتی‘ کیا اس ملک میں گھر بیٹھے وہ باعزت انداز میں اتنی معقول رقم کما سکتی اور کیا ان کا گھر بنانے کا خواب کبھی پورا ہوتا؟ جب اس بچی نے بتایا کہ ہمارے گھر میں ایک وقت میں ایسے حالات تھے کہ ہم کوئی انتہائی ضرورت کی چیز بھی خریدتے ہوئے پہلے اپنی جیب دیکھتے اور پھر فیصلہ کرتے لیکن اب اللہ کے فضل سے ہم اپنی مرضی کی چیز‘ ترجیح اور پسند دیکھتے ہیں اور اسے خرید لیتے ہیں۔ یہ لڑکی ہمارے بارہ تیرہ کروڑ نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے جو سمجھتے ہیں کہ سب ختم ہو چکا ہے‘ کوئی امید باقی نہیں رہی اور جنہیں صرف مایوسی ہی دکھائی دیتی ہے‘ انہیں ایسی مثالیں بھی نہیں جگا سکتیں تو پھر کوئی بھی ان کے حالات نہیں بدل سکتا۔ جس نے بھی اپنی حالت بدلنی ہے اسے خود فیصلہ کرنا ہے اور یاد رکھیں جس طرح کا دور آ چکا ہے کوئی بھی چیز حتمی نہیں ہے۔ آج فری لانسنگ ہے‘ ہو سکتا ہے دس سال بعد نہ ہو لیکن دس سال بعد کچھ اور ہو گا اور اس کے مطابق خود کو فوری اَپ ڈیٹ کرنے والا شخص کبھی گھاٹے میں نہیں رہے گا۔ نقصان میں صرف وہی رہے گا جو کچھ نیا سیکھنے‘ مسلسل محنت کرنے اور رِسک لینے سے ڈرے گا اور یہی کامیابی کا فارمولا ہے۔