پاکستان کو اس وقت جتنا غیر ملکی قرض ادا کرنا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ ڈالرز بھارت کی ٹاپ آئی ٹی کمپنیاں ایک سال میں کما لیتی ہے۔ اِدھر حالت یہ ہے کہ پاکستان کا پورا آئی ٹی سیکٹر مل کر بھی سالانہ دو‘ ڈھائی ارب سے زیادہ نہیں کما پا رہا ۔آئی ٹی سیکٹر کو تو چھوڑیں‘ پاکستان کے تمام شعبے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی برآمدات کو تیس‘ چالیس ارب ڈالر سے آگے نہیں لے جا سکے ۔ اگر ماضی کی تمام حکومتوں نے آئی ٹی کے حوالے سے یکساں اور مثبت پالیسی اپنائی ہوتی تو آج ہم سیاسی طور پر باہم دست و گریباں ہوتے نہ ہماری ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہوتی۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بھارت کی ٹاپ چھ کمپنیوں نے 2022ء میں جتنا بزنس کیا ہے‘ اتنا پاکستان نے گزشتہ دس برس میں بھی نہیں کیا ہو گا۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز 2022ء میں ساڑھے ستائیس ارب ڈالر‘انفوسیس اٹھارہ ارب ڈالر‘ایچ سی ایل ٹیکنالوجیز بارہ ارب ڈالر‘وائپرو گیارہ ارب ڈالر‘ ٹیک ماہندرا ساڑھے چھ ارب ڈالر اور ایل ٹی آئی مائنڈ ٹری چار ارب ڈالر آئی ٹی ایکسپورٹس کے ساتھ سرفہرست رہی ہیں۔
ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز‘ ٹاٹا گروپ کی ہی ایک شاخ ہے۔ ٹاٹا گروپ بھارت میں گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے مختلف کاروبار کر رہا ہے جن میں ایئرلائنز‘ کیمیکل‘ ڈیفنس ‘الیکٹرانکس ‘ہوٹلز‘ سیمنٹ‘ چائے اور دیگر شامل ہیں۔ اس گروپ کا 2022ء کا ریونیو 128 ارب ڈالر ہے۔(واضح رہے کہ جولائی 2022ء میں قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا کُل بیرونی قرضہ 126 ارب ڈالر ہے) آئی ٹی کے شعبے میں ٹاٹا گروپ نے 1968ء میں قدم رکھا جبکہ پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ 1990ء کی دہائی میں‘ تقریباً تیس پینتیس سال بعد پنپنا شروع ہوا۔ ٹاٹا کنسٹلنسی سروسز کے بانی جہانگیر رتن جی ٹاٹا نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی کمپنی کو دنیا کے چھ براعظموں‘ چھیالیس ممالک اور ڈیڑھ سو مرکزی دفاتر تک پھیلا دیا۔ آج اس کمپنی میں لگ بھگ چھ لاکھ ملازمین کام کر رہے ہیں اور اس کا سالانہ ریونیو 25 ارب ڈالر ہے جو پاکستان کی کل برآمدات کے لگ بھگ ہے۔بھارت کی دوسری بڑی آئی ٹی کمپنی انفوسیس 1981ء میں صرف اڑھائی سو ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ قائم ہوئی اور آج ساڑھے تین لاکھ ملازمین کے ذریعے یہ سالانہ 16 ارب ڈالر کا بزنس کر رہی ہے۔ بھارت‘ امریکہ‘ چین‘ آسٹریلیا‘ جاپان ‘مڈل ایسٹ اور یورپ میں اس کے 82سیلز اور مارکیٹنگ دفاتر ہیں جبکہ 123ڈویلپمنٹ آفسز بھی قائم ہو چکے ہیں۔ بھارت کی تیسری بڑی آئی ٹی کمپنی ایچ سی ایل ٹیکنالوجیز 1976ء میں قائم ہوئی۔ آج یہ باون ممالک میں سوا دو لاکھ ملازمین کے ساتھ 11 ارب ڈالر سالانہ کا ریونیو کما رہی ہے۔یہ امریکی‘سویڈش‘ جرمن اور دیگر سولہ بڑی کمپنیوں کو خریدکر بھارت کی ٹاپ 20 تجارتی کمپنیوں میں شامل ہو چکی ہے۔1977ء میں قائم ہونے والی بھارت کی چوتھی بڑی کمپنی وائپرو آج سالانہ 10 ارب ڈالر کا ریونیو کما رہی ہے۔ یہ کلائوڈ کمپیوٹنگ‘سائبر سکیورٹی‘ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن‘آرٹی فیشل انٹیلی جنس اورروبوٹکس کے شعبوں میں خدمات فراہم کر رہی ہے۔بھارت کی پانچویں بڑی آئی ٹی کمپنی ٹیک ماہندرا 1986ء میں قائم ہوئی اور آج نوے ممالک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کے ساتھ کام کر رہی ہے۔یہ سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ‘سسٹم سپورٹ‘نیٹ ورکنگ‘ ڈیفنس‘ انرجی اور دیگر شعبوں میں خدمات فراہم کر رہی ہے۔ بھارت کی چھٹی بڑی کمپنی ایل ٹی آئی مائنڈ ٹری 1996ء میں قائم ہوئی اور آج ایک لاکھ ملازمین کے ساتھ سالانہ 4 ارب ڈالر کا بزنس کر رہی ہے۔
بھارت کی یہ چھ بڑی آئی ٹی کمپنیاں بھارت کی معیشت کا گراف بلندیوں پر لے کر جار ہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں صرف گنتی کی چار پانچ آئی ٹی کمپنیاں ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی ابھی تک نصف بلین (500 ملین) ڈالر سالانہ کے ریونیو تک نہیں پہنچ سکی۔اس ترقی کی وجہ بھارتی حکومت کی پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے آئی ٹی سیکٹر تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ بھارت میں ہر شہر میں مختلف ‘جدید ٹیکنالوجی سروسز اور ریسرچز پر کام کیا جا رہا ہے۔دنیا میں آئی ٹی کا سب سے بڑا حب امریکہ میں سیلیکون ویلی ہے جبکہ دوسرا بڑا حب بھارت کی سیلیکون ویلی ہے جو بنگلور میں ہے۔بنگلور کی آبادی سوا کروڑ کے قریب ہے جو لاہور شہر کے برابر ہو گی؛ تاہم لاہور بلکہ پورے پاکستان میں اب تک صرف ایک ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک قائم کیا گیا جو بارہ برس قبل تعمیر ہوا تھا۔ حالانکہ صرف بنگلور میں آئی ٹی سیکٹر کے لیے تیس سپیشل اکنامک ٹیکنالوجی زونز موجود ہیں جہاں جدید ترین انفراسٹرکچر اور سہولتوں کے باعث ملکی اورعالمی آئی ٹی کمپنیاںاور سرمایہ کار کھنچے چلے آتے ہیں۔ان تیس سپیشل اکنامک زونز میں بجلی ایک سیکنڈ کے لیے بھی معطل نہیں ہوتی۔ ہر جگہ تیز رفتار فائبر آپٹک اور وائرلیس انٹرنیٹ میسر ہے۔صرف بنگلور میں پندرہ لاکھ تجربہ کار آئی ٹی پروفیشنلز کام کر رہے ہیں جن کی تعداد اگلے دو برسوں میں اسّی لاکھ تک پہنچ جائے گی۔بنگلور کو اس لیے بھی بھارت کا آئی ٹی حب کہا جاتا ہے کیونکہ اس شہر میں گوگل‘ مائیکروسافٹ‘سام سنگ‘نوکیا‘آئی بی ایم‘ایمیزون اور سسکو سمیت تمام بڑی عالمی اور بھارتی آئی ٹی کمپنیوں نے دفاتر کھول رکھے ہیں۔اس کے مقابلے میں پاکستان میں کتنی کمپنیوں کے دفاتر نظر آتے ہیں؟ ٹیکنالوجی حب بننے کی وجہ سے بنگلور کا جی ڈی پی 110 ارب ڈالر کی حد عبور کر چکا ہے۔ پورے بھارت میں کل 62 انفارمیشن ٹیکنالوجی پارکس قائم ہیں۔انٹرنیشنل ٹیک پارک‘ بھارت کا سب سے بڑا آئی ٹی پارک ہے۔ بیس لاکھ مربع فٹ پر محیط یہ پارک 1994ء میں قائم ہوا۔ یہاں 30ہزار ملازمین کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔اس میں صرف دفاتر ہی نہیں بلکہ جدید ترین لائف سٹائل سٹورز‘فوڈ کورٹس‘میڈیکل کلینک‘ہیلتھ حب‘بینک اور لانڈری سمیت ہر طرح کی سروسز دستیاب ہیں جو بیرونی سرمایہ کاروں کو اس جانب راغب کرتی ہیں۔بھارت کا دوسرا بڑا آئی ٹی پارک میگرپٹا سیٹلائٹ ٹائون شپ ہے جو 'پونا‘ شہر میں واقع ہے۔یہ چار سو ایکڑ پر محیط ہے۔ تیسرا بڑا پارک الیکٹرانکس سٹی‘ کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں ہے۔ تین سو ایکڑ پر محیط اس پارک میں دو سو جائنٹ قسم کی آئی ٹی کمپنیاں سافٹ ویئر‘ہارڈ ویئر اور ہائی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن سروسز فراہم کر رہی ہیں ۔اسی طرح 2004ء میں قائم ہونے و الا ہائی ٹیک سٹی حیدر آباد ڈیڑھ سو ایکڑ پر محیط ہے ۔
بھارت کی آئی ٹی انڈسٹری کو کھنگالنا شروع کریں تو سینکڑوں تحریریں بھی ناکافی ہوں گی ۔ محض یہ بتانا مقصود ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے لیکن بھارت اور پاکستان کی صنعت ‘پیداوار اور ترقی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بات آبادی کی نہیں!اگر ہم یہ کہیں گے کہ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے تو پھر آپ بنگلہ دیش اور سنگا پور کو دیکھ لیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی سترہ کروڑ ہے اور اس کی کل برآمدات 52 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ سنگاپور کی آبادی محض 54 لاکھ ہے جو لاہور کی آبادی سے بھی نصف ہے لیکن اس کی کل برآمدات 626 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔پاکستان میں آئے روز حکومتیں اور پالیسیاں بدلنے سے حالات مزید بد تر ہو رہے ہیں۔اگر ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز یہ فیصلہ کر لیں جس کی بھی حکومت ہو گی وہ آئی ٹی سیکٹر کی گروتھ اور اصلاحات پر خصوصی توجہ دے گا تو پاکستان کم ترین وقت میں مطلوبہ ہدف حاصل کر سکتا ہے‘ ریونیو کی صورت میں اربوں ڈالر کما سکتا ہے اور کروڑوں نوجوانوں کو برسرِ روزگار بھی کیا جا سکتا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ عالمی سطح پر آئی ٹی کی صورت میں ایک شعبہ موجود ہے جو پاکستان جیسے ملکوں اور ان میں کروڑوں بیروزگار نوجوانوں کو نہ صرف ڈالر میں آمدنی کمانے بلکہ اپنے ملک میں رہ کر کمانے کی سہولت دے رہا ہے، وگرنہ جمہوری و غیر جمہوری حکومتوں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ یہ شعبہ نہ ہوتا تو اب بھی ہمارے پڑھ لکھے ڈگری ہولڈرز بیرونِ ملک جا کر ٹیکسیاں چلا رہے ہوتے۔ اس شعبے کا کمال یہ ہے کہ آج کے دور میں جس پاکستانی نوجوان کے پاس دماغ ہے‘ موبائل اور انٹرنیٹ ہے وہ یوٹیوب سے سیکھ کر بھی لاکھوں روپے ماہانہ کما رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی آٹھ‘ دس بڑے عالمی‘ مستند اور مفت پلیٹ فارمز میسر ہیں جن کے ذریعے دنیا بھر میں لوگ ڈیجیٹل سکلز سیکھ کر بہترین لائف سٹائل اپنا رہے ہیں۔ ان کا ذکر ان شاء اللہ آئندہ کالم میں۔