موسم بہار کا اپنا ہی رنگ اور چارم ہے۔ فرحت بخش ہوائیں ہر کسی کی طبیعت میں تازگی اور نیا پن پیدا کر دیتی ہیں۔لاہور ہمیشہ سے موسمِ بہاراں کے حوالے سے مرکزِ نگاہ رہا ہے۔ اس مرتبہ خاص طور پر سرکاری سطح پر کئی منفرد پروگرامز اور ایونٹس کا انعقاد کیا گیا ہے تاکہ شہریوں کو ان تقریبات کے ذریعے موسم کو انجوائے کرنے اور خوشی کے لمحات کو دوبالا کرنے کا موقع ملے۔ یہ جشنِ بہاراں مکمل طور پر سپانسرڈ ہو گا۔ یہ ایک احسن اقدام ہے کیونکہ جس معاشی بحران سے ملک گزر رہا ہے اس میں حکومت کی جانب سے وسائل کے ضیاع کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ نہ صرف سرکاری وسائل کے ضیاع کو روکا جائے بلکہ عوام کو ماضی کے برعکس زیادہ سے زیادہ تفریح کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔اس حوالے سے پانچ مارچ سے بارہ مارچ تک مختلف ثقافتی و روایتی تقریبات مختلف علاقوں میں شروع کی گئی ہیں۔ لاہور میں جیلانی پارک (ریس کورس) میں فوڈ فن میلہ جاری ہے۔ یہ پارک شہر کے عین وسط میں واقع ہے‘ اس کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔ پارک کو بڑی خوبصورتی سے سجایا گیا ہے۔ بالخصوص رات کے وقت تو جشن کا سا سماں ہوتا ہے۔ ڈپریشن اور کام کی مصروفیات کے دبائو سے نکل کر کچھ دیر یہاں وقت گزارنا صحت اور طبیعت‘ دونوں کے لیے راحت بخش ثابت ہو سکتا ہے۔ویسے بھی موبائل فون کی مشینی زندگی سے ہٹ کر بھی کچھ کام کر لینے چاہئیں۔ ایسے ایونٹس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایک ہی جگہ ہر طرح کے سٹال اور تمام مصنوعات مل جاتی ہیں۔ دیسی کھانے بالخصوص لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ حلوہ پوری‘ پٹھورے ‘جلیبیاں‘گلاب جامن سمیت طرح طرح کے لذیذ کھابے، کھانے اور ناشتے ہمیشہ سے لاہوریوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔لاہور کے اندرون شہر کی تو پہچان ہی یہ کھانے ہیں۔ یہ کلچر اگرچہ اب پورے شہر میں پھیل چکا ہے اور اندرون شہر کے بہت سے مشہور کھانوں کی دکانیں شہر بھر میں کھل چکی ہیں لیکن جشنِ بہاراں ایسا موقع ہوتا ہے کہ جہاں سب کچھ ایک ہی جگہ دستیاب ہو جاتا ہے۔
آج کی نسل پڑھائی میں رٹا مارنے میں لگی ہوئی ہے یا پھر موبائل اور وڈیو گیموں کی لت کا شکار ہے۔ اس میں چھوٹی عمر کے ننھے بچے بھی شامل ہیں اور بڑوں کا تو کیا ہی کہنا کہ بچے بڑوں کو دیکھ کر ہی رنگ پکڑتے ہیں۔جب بڑے خود صوفوں میں دھنس کر سکرین سے آنکھیں چپکائے رہیں گے تو بچوں کو سیر و تفریح اور جسمانی ورزش کی طرف کون راغب کرے گا۔ جشنِ بہاراں کا میلہ صرف جیلانی پارک تک ہی محدود نہیں بلکہ گریٹر اقبال پارک‘لاہور ہاکی سٹیڈیم سمیت کئی جگہوں پر مختلف نوعیت کے پروگرام کرائے جا رہے ہیں جن میں نامور فنکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے‘ میراتھن ریس‘ یعنی دوڑ نے کا کھیل جو عنقا ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ دوڑنا تو دُور کی بات چلنا تک چھوڑ یا بھول چکے ہیں‘کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔ گھروں میں عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے بچوں کو ڈانٹنے میں تو کوئی کوتاہی نہیں برتتے لیکن پانی پینا ہو تو چار فٹ کے فاصلے سے بھی خود اٹھ کر پانی نہیں پئیں گے بلکہ آواز دے کر پورے گھر سے پانی مانگیں گے۔ ہماری اسی سستی اور آرام پسندی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں نے ہمارے معاشرے اور گھروں میں بسیرا کر رکھا ہے جن میں سرفہرست شوگر اور بلڈ پریشر ہیں۔تیسرے نمبر پر موٹاپا اور چوتھے نمبر پر پھیلتے امراضِ معدہ اور جگر کے مسائل ہیں جن کی لپیٹ میں آدھا ملک آ چکا ہے۔ ہر دوسرا شخص بے خوابی اور موٹاپے کا شکار ہے۔ بچے بھی گھروں میں قید رہتے ہیں۔ ایسے میں اس طرح کے صحت بخش مواقع غنیمت سے کم نہیں ہیں کہ جہاں ہر عمر ‘ جنس اور مزاج کے شہری کے لیے دلچسپی کا سامان موجود ہوتا ہے۔
پہلے زمانوں کے لوگوں کی صحتیں دیکھنے لائق ہوتی تھیں۔ اب بھی دیہات میں آپ کو ایسے بزرگ مل جائیں گے جن کی عمرایک سو برس سے تجاوز کر چکی ہو گی لیکن وہ عینک اور سہارے کے بغیر بھی بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔جس طرح آج لاہور، فیصل آباد و دیگر شہروں میں جشنِ بہاراں کی تقریبات ہو رہی ہیں دیہات میں یہ سلسلہ سارا سال ہی چلتا رہتا ہے۔ فصل کی کٹائی کا موقع ہو‘ عید شب رات یا پھر کشتی کا دنگل‘ پورے کا پورا گائوں ان ایکٹوٹیز میں شامل ہو جاتا ہے۔ بچے‘ نوجوان اور بوڑھے تو ان میلوں میں آتے ہی ہیں‘ خواتین بھی ان میں خوب شرکت کرتی ہیں۔ ویسے بھی دیہات کا کلچر قدرے مختلف ہے۔ وہاں عورتیں کھیتی باڑی میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ ان کا مکمل ہاتھ بٹاتی ہیں۔ کھانا بھی گھر سے بنا کر لے جاتی ہیں اور گھر کا خیال بھی رکھتی ہیں۔ اسی لیے دیہات میں خواتین کم ہی فربہ نظر آتی ہیں۔ آج مگر کلچر وہاں بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ پہلے ٹی وی‘ وی سی آر پہنچا اور اب موبائل فون۔ کوئی گھر ایسا نہیں جہاں پیکیج لگا کر لمبی لمبی گھنٹوں کی کالز نہ کی جاتی ہوں۔ اسے قدرتی تبدیلی کہہ لیں یا پھر انسان کی اپنی چاہت کہ وہ آرام پسندی کی طرف مائل ہوتا جا رہا ہے۔
لاہور میں جشنِ بہاراں کی تقریبات میں ایک اہم ایونٹ نیشنل ہسٹری میوزیم میں ہو گا جہاں قیامِ پاکستان سے متعلق آگاہی دی جائے گی۔ یہاں بچوں اور نوجوانوں کو خاص طور پر جانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ جس آزاد فضا میں وہ بے فکری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں‘ وہ کیسے حاصل ہوئی اور اس کے لیے کتنی قربانیاں دینا پڑیں۔ انسان بہت سی چیزوں کو ''فار گرانٹڈ‘‘ سمجھ لیتا ہے کہ یعنی وہ اسے مل کر ہی رہنی تھیں یا اس کی قسمت میں لکھی تھیں۔ وہ ان پر پڑا حقائق کا پردہ نہیں اٹھاتا جن کی بنا پر وہ اس معاشرے میں اپنی مرضی سے جی رہا ہے۔ جہاں اسے مذہبی آزادی میسر ہے۔ کہیں آنے جانے کی کوئی قید نہیں ہے۔ کوئی اسے روک کر یہ نہیں پوچھتا تم کس دھرم یا مذہب سے ہو‘ تمہاری ذات کیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آپ ہمسایہ ملک بھارت میں چلے جائیں۔ کہنے کو وہ بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا لیکن آج وہاں کروڑوں انسانوں کے لیے جینا عذاب بنا دیا گیا ہے۔ ان کی اپنی زمین ہی ان پر تنگ کر دی گئی ہے۔ نچلی ذات کے شخص کو دوسروں کے معاملات میں دخل دینے کا اختیار تو دُور کی بات ‘ اشارتاً اس بارے اظہارِ رائے کرنے کی بھی آزادی نہیں۔ انہیں نوکریوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان کے ہاں شادیاں نہیں کی جاتیں۔ وہ ایک برتن سے پانی پی لیں تو انہیں اچھوت قرار دے دیا جاتا ہے۔ مندروں میں ان کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم ان سے لاکھ درجے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ مسائل ہمارے ہاں بھی ہیں لیکن جس نوعیت کی ذلت اچھوت بھارتی شہریوں کو اٹھانا پڑتی ہے‘ اس کی کوئی مثال ہمارے ہاں نہیں ملتی۔
رات کے وقت لاہور شہر کی خوبصورتی اس موسم میں اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ خاص طور پر نہر کو رنگ برنگی روشنیوں اور مختلف فلوٹس کی مدد سے سجایا جاتا ہے۔ لاہور کی خوبصورتی ضرور دیکھیں‘ مختلف جسمانی و ذہنی مقابلوں میں حصہ بھی لیں‘ کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوں‘ شاپنگ بھی کریں لیکن اس بات کا ضرور خیال کریں کہ یہ ہمارا اپنا ملک‘ اپنا شہر ہے‘ ہم نے اسے اسی طرح صاف و شفاف رکھنا ہے جیسے کہ ہم اپنے گھر کو رکھتے ہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے‘ یہ بات ہم سب جانتے ہیں لیکن براہِ مہربانی اس پر عمل پیرا بھی ہوں۔ جشنِ بہاراں کی تقریبات میں سیر وتفریح کے دوران ذمہ داری شہری ہونے کا ثبوت دیں تاکہ ان ایونٹس میں آنے والے غیرملکی مہمان ہمارا مثبت امیج لے کر یہاں سے جائیں۔