جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے‘ مادہ پرستی بڑھ رہی ہے اور زندگی کے معمولات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں کہ انہیں دنیا کے معاملات کو بھی دین کے احکامات کے مطابق خوش اسلوبی سے ادا کرنا ہے وگرنہ ان کی عبادات رائیگاں بھی جا سکتی ہیں۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ دین صرف عبادات یا چند ارکان پورے کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ‘ خوش اخلاقی‘ لین دین میں دیانت داری اور صاف گوئی جیسے اوصاف بھی اتنے ہی ضروری ہیں جتنا کہ نماز پڑھنا‘روزہ رکھنا‘ خیرات بانٹنا اور حج یا عمرے پر جانا۔ بہت سے لوگ مگر دین کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ پتا انسان کا تب چلتا ہے جب کسی ایسے شخص سے واسطہ پڑتا ہے جو ویسے تو حق بات کی تلقین کرتا ہو لیکن جب اس سے کوئی لین دین کا معاملہ آئے یا زندگی کا کوئی اور معاملہ درپیش ہو تب اصل حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ اصل امتحان بھی بندے کا تبھی شروع ہوتا ہے جب وہ کسی کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت دنیاوی معاملات کو دین سے ہٹ کر دیکھتی ہے۔ یہاں تو لوگ بغیر لائسنس گاڑی چلانے‘ اشارہ توڑنے‘ اونچی آواز میں گانے لگا کر ہمسایوں کو تنگ کرنے‘سڑک پر کوڑا اور تھوک پھینکنے‘ قطار توڑنے اور جسمانی صفائی ستھرائی کے عدم اہتمام سے دوسرے کو آنے والی بدبو سے ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ان کے خیال میں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ دنیا ان کی مرضی کے مطابق جینے کے لیے بنائی گئی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عبادتیں کرنا ہی اصل دین ہے‘ ہمسایہ اگر تنگ ہوتا ہے‘سڑک پر چھلکے پھینکنے سے پھسل کر کسی کی ٹانگ ٹوٹتی ہے تو ٹوٹ جائے ان کی جانے بلا‘ وہ ان چیزوں کو معیوب سمجھتے ہیں نہ غیر شرعی۔ باقی رہی قطار کی بات تو وہ ہمارے ملک میں روایتی طور پر ہی ممنوع نظر آتی ہے۔
ابھی حال ہی میں حکومت مفت آٹا سکیم کے تحت غریب طبقے کو آٹے کے تھیلے دے رہی تھی لیکن مجال ہے کہ کسی ایک جگہ بھی عوام نے قطار کو ضروری سمجھا ہو۔ شروع میں بھگدڑ مچنے سے چند ہلاکتیں بھی ہوئیں جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری ہر جگہ تعینات کرنا پڑی جس سے حالات کچھ بہتر ہوئے اور بھگدڑ بھی کم مچی مگر قطار بنانے کا کلچر پھر بھی نہ پنپ سکا۔ گزشتہ روز جیل روڈ پر ایک بڑی گاڑی کو دیکھا جس کے پیچھے ایک شخص کھڑا ہو کر لوگوں میں افطاری کے پیکٹ بانٹ رہا تھا۔ یہی منظر امریکہ‘ یورپ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں دیکھنے کو ملتا تو لوگ خاموشی سے قطار میں لگ جاتے اور جس کے نصیب میں جو ہوتا‘ وہ لے کر شکریہ کہہ کر خاموشی سے چل پڑتا۔ یہاں مگر قیامت کا سماں تھا۔ کئی لوگ ایک مرتبہ پیکٹ لے کر دوبارہ اچھل اچھل کر ایک اور پیکٹ لینے کے لیے دھکم پیل کر رہے تھے۔ اب ایسے میں کسی کی جان چلی جاتی یا کوئی زخمی ہو جاتا تو کون قصور وار ٹھہرتا۔ یقینا وہ شخص صدقہ خیرات کر رہا تھا مگر لوگ یہ بھی دیکھنے کو تیار نہیں کہ انہیں ایک چیز مفت میں مل رہی ہے تو کم از کم وہ مہذب انداز میں اسے وصول کر لیں اور اپنا حصہ لینے کے بعد باقی دوسروں کے لیے چھوڑ دیں، تاکہ دینے والے کو بھی خوشی ہو اور وہ دوبارہ پہلے سے زیادہ کھلے دل کے ساتھ صدقات و خیرات پر آمادہ ہو۔ لوگوں کے پیٹ تو بھر جاتے ہیں لیکن ساری زندگی نیت نہیں بھرتی۔ یہاںیہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ رویہ صرف ناخواندہ یا غریب طبقے میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ اشرافیہ کا بڑا حصہ بھی اسی بیماری کا شکار ہے۔ خواتین کے برانڈڈ کپڑوں کی دکان میں دس‘ بیس فیصد سیل لگ جائے تو خواتین یوں دکان پر ہلہ بولتی ہیں گویا یہ دنیا میں کپڑوں کی خریداری کا آخری دن ہو۔ یہ درست ہے کہ بھوک اور غربت انسان کوتہذیب و آداب بھلا دیتی ہے لیکن بھوک دو وقت کی روٹی کی ہو تو سمجھ میں آتی ہے‘ یہاں تو لوگ پورے پورے پلازے اور ہائوسنگ سوسائٹیاں ہڑپ کر جاتے ہیں لیکن بھوک پھر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
رمضان المبارک میں ہونے والی پُرتعیش افطار پارٹیاں ہوں یا پھر شادی اور ولیمے کے مواقع‘ کھانا لیتے وقت پلیٹ میں گوشت کا پہاڑ بنائے بغیر لوگوں کا دل بھرتا ہے نہ پیٹ۔ آدھے سے زیادہ کھانا ضائع ہو جاتا ہے لیکن کسی کو دین یاد آتا ہے نہ تہذیب۔ پچھلے دنوں ایک بڑے ہوٹل میں افطار پارٹی میں قیامت کا سماں دیکھنے کو ملا۔ کئی لوگ تو اذانِ مغرب سے قبل ہی کھانا شروع ہو گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ انہیں کئی مہینوں کے بعد آج کھانا ملا ہے۔ مفت آٹا لینے والوں کی دھکم پیل کا یہ جواز تراشا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق معاشرے کے پسے ہوئے طبقات سے ہے اور وہ اپنا حق لینے سے زیادہ چھیننے پر یقین رکھتے ہیں لیکن فائیو سٹار ہوٹلوں میں آنے والے افراد تو پسماندہ گھرانوں سے نہیں ہوتے‘ پھر ان کی کیا مجبوری ہے؟ یہی لوگ جب جدید ممالک کے ایئرپورٹس پر اترتے ہیں تو تہذیب کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں‘ وہاں نئے ماڈلز کے فون لینے کیلئے گھنٹوں قطاروں میں لگتے ہیں‘ سڑک پر ٹشو تک نہیں پھینکتے‘ کسی کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک نہیں کرتے‘ آدھی رات کو بھی سرخ سگنل توڑنے کی ہمت نہیں کرتے لیکن پاکستان آتے ہی تہذیب کا یہ لبادہ ایئرپورٹ پر اتار پھینکتے ہیں۔ یہاں انہیں گاڑی کا پچاس‘ سو روپے کا ٹوکن بھی مہنگا لگتا ہے اورچار‘ چار کروڑ روپے کی گاڑیوں میں بیٹھ کر مفت پارکنگ کیلئے جھگڑا کرتے نظر آتے ہیں۔ صاف گوئی‘ ایفائے عہد اور خوش اخلاقی کی باتیں ایسے لوگوں کیلئے صرف کتابوں تک محدود ہو چکی ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے حقوق میں کمی کوتاہی پر معاف فرما دے گا لیکن انسانوں کے آپس کے معاملات میں جو کمی کوتاہیاں ہوئی ہوں گی‘ وہ متعلقہ بندہ معاف کرے گا تو ہی جان خلاصی ہو گی۔
آج کون سی ایسی برائی ہے جو اس قوم میں نہیں پائی جاتی؟ پچھلی قومیں ان برائیوں کی وجہ سے زوال‘ عذاب اور اللہ کے غضب و قہر کا شکار ہوئیں۔ قوم عاد کو اپنی طاقت اور صحت پر بڑا غرور تھا۔ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں سیدھے راستے پر آنے کی دعوت دی مگر وہ باز نہ آئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا عذاب اتارا کہ وہ تنکے کی مانند ہوائوں میں بکھرنے لگے۔ قوم شعیب ناپ تول میں کمی اور کاروباری معاملات میں خیانت کا شکار تھی۔ کیا آج یہ سب دو نمبریاں ہمارے ہاں نہیں پائی جاتیں؟ ایک پھل‘ سبزی کی ریڑھی سے لے کر بڑے بڑے شاپنگ مالز تک‘ اوزان میں دو نمبری نہیں کی جاتی؟ کھلے عام ایک کلوگرام کے بجائے نو سو گرام مال بیچا جاتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا ''اے میری قوم! ناپ تول انصاف کے ساتھ پورا کرو، لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ پیدا کرو‘‘۔ (الاعراف: 85) مگر چند لوگوں کے علاوہ کوئی باز نہ آیا۔ ان پر خدا کا ایسا عذاب آیا کہ سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ قوم سبا کو ناشکری کی عادت تھی۔رب ذوالجلال نے سورۂ سبا میں فرمایا ''ہم نے ان کی ناشکری کا بدلہ انہیں دیا۔ ہم (ایسی) سخت سزا بڑے بڑے ناشکروں کو ہی دیتے ہیں‘‘۔ (آیت 17)
دیکھا جائے تو آج ہم میں بے شمار اخلاقی برائیاں اور خرابیاں ہیں جنہیں ہم معمولی شمار کرتے ہیں۔ اگر قرآنِ مجید کو ترجمے کے ساتھ غور سے پڑھیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ اگر یہ معمولی برائیاں ہوتیں تو پچھلی قوموں پر اتنے بڑے عذاب نہ آتے۔ اسی طرح لوگوں کی پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے‘ چغلی‘ غیبت‘ بہتان‘ جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسمیں کھانے کے بارے میں بھی سخت وعید سنائی گئی ہے اور یہ سب وہ کام ہیں جو ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر اور مسلسل ہو رہے ہیں اور اس بات کا احساس تک نہیں کہ ان کی کتنی سخت پکڑ ہو سکتی ہے۔ لین دین‘ روزمرہ کے معاملات اور اخلاقیات کو دین کے احکامات کے مطابق ڈھالے بغیر خود کو کامیاب اور شاندار انسان سمجھنا حماقت اور خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔