پاکستان بظاہر ایک ترقی پذیر ملک ہے لیکن اس کے پاس آگے بڑھنے کے لیے ایسے وسائل اور مواقع موجود ہیں جنہیں ٹھیک طریقے سے اگر استعمال کر لیا جائے تو یہ ملک بہت مختصر عرصے میں ترقی یافتہ بن سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان محل وقوع کے اعتبار سے بہترین جگہ پر واقع ہے۔ یہاں ہر طرح کے موسم ملتے ہیں۔ دنیا کا بہترین نہری نظام پاکستان میں ہی واقع ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات دیکھ کر لوگ سوئٹرز لینڈ کو بھول جاتے ہیں۔ یہاں دنیا کے مزیدار اور چٹ پٹے کھانے ہیں۔ کرکٹ‘ سکواش‘ سنوکر اور ہاکی جیسے کھیلوں میں پاکستان نے دنیا بھر میں نام روشن کیا ہے اور ان کھیلوں کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا ہے۔ پاکستان کی افواج دنیا کی بہترین افواج شمار کی جاتی ہیں۔ غرضیکہ پاکستان کے پاس ہر وہ ٹیلنٹ اور وسائل ہیں جن کی بدولت کوئی ملک ترقی کی منازل بہ آسانی طے کر سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی 65فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں درست سمت پر ڈال کر ہم غیرمعمولی نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں معمر افراد کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ انہیں دیگر ممالک سے نوجوانوں کو بلا کر ان پر امورِ زندگی کے لیے انحصار کرنا پڑتا ہے؛ تاہم ہمارے نوجوان کیا کر رہے ہیں‘ کس طرف جا رہے ہیں‘ کیا سوچ رہے ہیں‘ اس کی ایک جھلک آپ نے گزشتہ روز کے ہنگاموں میں دیکھ لی ہو گی۔
آپ کسی نوجوان‘ کسی نو عمر بچے سے موجودہ حالات کے تناظر میں مباحثہ کر کے دیکھ لیں‘ آپ کو چند منٹ میں حالات کی سنگینی کا ندازہ ہو جائے گا۔ آپ کو یہ بھی علم ہو جائے گا کہ یہ نوجوان اور یہ بچے کسی بات کی گہرائی میں جانے کی سکت نہیں رکھتے بلکہ ان کے اذہان میں کچھ باتیں فیڈ کی جا چکی ہیں اور بار بار مختلف اداروں کے خلاف ایک ہی بات سننے کی وجہ سے ان کے ذہن اتنے پکے ہو چکے ہیں کہ وہ کوئی دوسرا مؤقف سننے کو تیار نہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے اکیسویں صدی کے اوائل میں آنکھ کھولی۔ یہ آج بیس‘ بائیس برس کے ہو چکے ہیں اور چونکہ شوقِ مطالعہ ہے نہ ہی ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے میں دلچسپی‘ اس لیے یہ حال میں رہتے ہیں اور جو اِدھر اُدھر سے سنتے ہیں اسی پر یقین کر لیتے اور اسے آگے بڑھا دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آپ ان کی کارگزاریاں خوب دیکھ سکتے ہیں۔ اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنیوالے ایسے کئی نوجوان اور نوعمر بچوں کو سائبر ونگ سامنے لا چکا ہے۔ ان کے گھر والوں کو تنبیہ بھی کی جا چکی ہے لیکن ان نوجوانوں کے ذہن اتنے ناپختہ ہیں کہ یہ سلسلہ اتنی جلدی تھمتا نظر نہیں آتا۔ نوعمر بچوں اور نوجوانوں کو کیا کہنا‘ یہاں کئی والدین اور معمر افراد ایسے ہیں جن کی سوچ کو 'سلام‘ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بچے اور نوجوان وہی کرتے ہیں جو بڑوں سے سیکھتے ہیں‘ اس لیے بڑوں کو اپنے گھروں میں ایسی کوئی رائے دینے یا بات کرنے سے قبل متعدد بار سوچنا چاہیے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں‘ اس کے نئی نسل پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مار دو‘ جلا دو‘ ختم کر دو‘ بند کر دو‘ یہ باتیں کرنی آسان ہیں لیکن انہیں بھگتنا انتہائی مشکل! کسی چیز کو کسی مکان کو یا کسی ملک کو بنانے میں بہت قربانیاں‘ بہت سا پیسہ اور بہت وقت لگتا ہے لیکن اسے ختم کرنے یا گرانے میں چند منٹ یا چند گھنٹے ہی لگتے ہیں۔ سوچ تخریبی ہو گی تو اس کے نتائج بھی پھولوں بھرے نہیں ہوں گے۔ جو سیاست دان اپنے مخصوص مقاصد کے لیے کچے ذہنوں کو استعمال کرتے ہیں کہ انہیں انکے حلقے سے ووٹ زیادہ مل جائیں‘ ان کے مخالفین کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچ جائے‘ وہ نہ ملک کے وفادار ہیں نہ اس قوم سے انہیں کسی قسم کی کوئی ہمدردی ہے۔ یہ اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کر دیتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ قرآن حفظ کرنے کے لیے چھ‘ سات برس کی عمر بہترین ہوتی ہے کیونکہ اس عمر میں بچہ جو کچھ دیکھتا‘ سنتا اور پڑھتا ہے وہ اسے عمر بھر کے لیے اچھی طرح یاد ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے‘ اس کی دماغی صلاحیت اور یادداشت ویسی نہیں رہتی۔ اس عمر میں بچے کے ذہن میں آپ جو کچھ اتاریں گے‘ وہ اسے قبول کر لے گا اور اس پر پکا بھی ہو جائے گا۔ اگر آپ اسے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں تو آپ اسے میڈیکل کے پروفیشن سے متعلقہ چیزیں بتائیں اور اس ماحول میں لے جائیں۔ اسی طرح اگر آپ اسے آرٹسٹ بنانا چاہتے ہیں تو پارک‘ سمندر اور پہاڑوں میں لے جا کر پینٹنگ کروائیں‘ اس طرح اس کی بنیادوں یعنی سرشت میں یہ صلاحیت رچ بس جائے گی؛ تاہم اگر اس عمر میں آپ اس کے ساتھ بار بار نفرت انگیز مواد شیئر کریں گے‘ سیاسی مباحثے کریں گے تو اس کا ذہن اس برین واشنگ کے نتیجے میں ان باتوں کو محفوظ کر لے گا اور بڑا ہونے کے بعد اگر آپ خود بھی اس بچے کا ذہن تبدیل کرنا چاہیں گے یا اسے کہیں گے کہ جو تمہیں بچپن میں بتایا گیا تھا‘ وہ درست نہیں تھا‘ تب وہ آپ کی بات پر بھی یقین نہیں کرے گا۔ وہ ایک ایسے میزائل کی مانند بن جائے گا جسے آپ نے لانچ تو دوسروں کے لیے کیا تھا لیکن پھر اس کا رخ خود آپ کی طرف ہی ہو گیا۔ اب آپ چاہتے ہوئے بھی اس کا رُخ تبدیل نہیں کر پائیں گے۔
اسی طرح ٹین ایج کی عمر بہت زیادہ حساس ہوتی ہے۔ اس عمر میں انسان دماغ سے نہیں بلکہ جذبات سے سوچتا اور اپنے امور سرانجام دیتا ہے۔ وہ اپنی پسند‘ ناپسند پر چلتا ہے اور ایسے میں اگر اس کے سامنے ایک سیاسی جماعت دوسری جماعت اور اس کے لیڈر یا کسی ادارے کے خلاف کوئی پروپیگنڈا شدت اور تسلسل کیساتھ کرے تو اس کا ذہن لامحالہ اسے قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے گا کیونکہ اس عمر میں آج کے نوجوان اتنا وقت نہیں نکالتے کہ وہ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کی پڑھائی کیساتھ ساتھ تاریخ‘ جغرافیہ‘ سیاسیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق کتابیں اور مواد پڑھیں۔ آج کل تو ویسے ہی سوشل میڈیا کا دور ہے۔ بچے اور نوجوان زیادہ تر موبائل فون اور لیپ ٹاپ سے ہی چیزوں کو پرکھتے ہیں اور وہاں بھی وہ تفصیلات میں جانے کی زحمت نہیں کرتے، یہ تک نہیں دیکھتے کہ وہ جو خبر یا معلومات لے رہے ہیں‘ وہ کسی مصدقہ ذرائع سے آ رہی ہیں یا نہیں؟ زیادہ تر معلومات کسی نے اپنے ذاتی پیج یا وی لاگ کی پروموشن کے لیے شیئر کی ہوتی ہیں۔ گزشتہ روز سرکاری و نجی املاک کو جس طرح سے نقصان پہنچایا گیا‘ وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ اس کے پیچھے جو کوئی بھی ہو‘ اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ والدین کو بھی اپنے بچوں پر بھرپور نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور انہیں خود بھی زیادہ جذباتی ہونے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ زیادہ تر سیاست دان دوسروں کے بچوں کو ہی استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں اور یہ وطن سے کتنے مخلص ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ ان کی لیک ہونے والی آڈیو‘ وڈیو ٹیپس سے لگایا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کی فکر کریں۔ ادبی‘ فکری سوسائٹیز اور سرگرمیوں کا اہتمام کریں۔ ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کریں نہ کہ انہیں غلط قسم کے پروپیگنڈے میں الجھائیں کیونکہ اس سے ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا اور اس ملک کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ پائے گا۔ ایک آزاد ملک کی آزاد فضا میں مستعد ریاستی اداروں کی وجہ سے ہی ہم رات کو بے فکری کی نیند سوتے ہیں‘ اور ساتھ میں اسی ملک کو بند کرنے کے ٹرینڈ بھی چلاتے ہیں۔ ایسی سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ جو کام پچھتر سال میں دشمن نہ کر سکے‘ وہ اپنوں نے کر دکھایا۔ آئی ایس پی آر نے درست کہا کہ اس دن کو سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ کاش‘ شرپسندوں کو یہ احساس ہو جائے کہ انہوں نے اپنی ہی املاک پر حملہ کر کے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔