ہر مسلمان کی خواہش ہے کہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ حج کی سعادت ضرور حاصل کرے تاہم اس سال تاریخی مہنگائی اور عالمی کساد بازاری کی وجہ سے بہت سے افراد‘ جنہوں نے حج کے لیے پیسہ جمع کیا تھا‘ چاہتے ہوئے بھی حج کے لیے درخواست نہ دے سکے کیونکہ اس سال حج کے اخراجات ان کی پہنچ سے باہر ہو چکے تھے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو حج کوٹہ واپس کرنا پڑا ہے کیونکہ اس سال کوٹے سے بھی کہیں کم درخواستیں موصول ہوئیں اور تمام کی تمام منظور کر لی گئیں۔ حج کوٹہ واپس نہ کیا جاتا تو پاکستان کو چوبیس ملین ڈالر ادا کرنا پڑتے اور حج کے انفرادی اخراجات بھی مزید بڑھ جاتے۔ گزشتہ برسوں میں تمام افراد کو حج کا موقع نہیں ملتا تھا اور قرعہ اندازی کے بعد ہی خوش نصیب سرکاری سکیم پر حج کے لیے جا سکتے تھے۔ حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر حج غریب اور مڈل کلاس طبقے کے لوگ کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ ساری زندگی پیسے جوڑتے ہیں۔ ان کے اندر ایک تڑپ ہوتی ہے جس سے وہ حج کی سعادت حاصل کر لیتے ہیں جبکہ اشرافیہ کا بڑا طبقہ ایسا ہے جو روپے پیسے کی ریل پیل کے باوجود حج پر نہیں جا پاتا اور اس کی وجہ بھی شاید وہی تڑپ ہے جو ان میں موجود نہیں ہوتی۔ بیشتر صاحبِ استطاعت زندگی کے آخری حصے کے لیے اس فرض کو موخر کر دیتے ہیں لیکن زندگی کا پتہ ہوتا ہے نہ حالات کا۔ جبکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو ایک سے زیادہ حج کرتے ہیں حالانکہ ایک حج ہی فرض کیا گیا ہے۔ بڑھاپے میں اگر حج کے لیے بندہ چلا بھی جاتا ہے تو اس طریقے سے ادائیگی نہیں کر سکتا جیسا کہ جوانی میں اس فرض کو ادا کیا جا سکتا ہے۔ ویسے عبادت کوئی بھی ہو‘ عبادت کا اصل وقت نہ بچپن کا ہے اور نہ بڑھاپے کا۔ بچپن میں بچہ یا نوعمر نوجوان جو عبادت کرتا ہے وہ والدین کے کہنے کی وجہ سے کرتا ہے اور بڑھاپے میں زیادہ تر لوگ دین کی طرف اس لیے راغب ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں سامنے اپنی منزل صاف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ انسان کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب جوانی کا شباب عروج پر ہوتا ہے۔ وہ روزہ‘ نماز اگر اداکرتا ہے تو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کرتا ہے۔ اس پر کوئی روک ٹوک اور زبردستی نہیں کی جا سکتی۔ وہ جسمانی طور پر طاقتور اور ذہنی طور پر توانا ہوتا ہے۔ جوانی میں ہی وہ نئے نئے خواب دیکھتا ہے اور انہیں پانے کے لیے اچھے برے راستے اختیار کرتا ہے اور یہیں سے اس کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ حج پر جانے کا بھی بہترین وقت ہوتا ہے مگر اس وقت زندگی کے کچھ اور مقاصد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
حج کا بہترین موقع ویسے شادی کے وقت ہوتا ہے۔ اگر دولہا دولہن پہلے سال ہی حج پر چلے جائیں تو نہ صرف وہ اس فرض کو بروقت ادا کر لیتے ہیں بلکہ ان کی آنیوالی زندگی پر بھی اس کے خوشگوار اور بابرکت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حج کی پلاننگ کرتے وقت دو تین عوامل زیر بحث آتے ہیں۔ پیسہ اور صحت یا پھر یہ کہ اگر بچے ہو جائیں تو پھر تیس چالیس دن ان کا کون خیال رکھے گا یا انہیں کس کے پاس چھوڑا جائے تو یہ فکریں بھی انسان کو حج ادا کرنے سے روکتی ہیں۔ شادی کے پہلے دوسرے سال حج کرنے کے اس ضمن میں کئی فائدے ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ پیسے کا اس طرح الگ سے انتظام نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے لیے اگر پہلے سے پلاننگ کی جائے تو معاملات کافی آسان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں شادیوں میں پانچ پانچ دن فنکشنز چلتے رہتے ہیں۔ مہندی کے دو فنکشن‘ مایوں‘ شادی اور اس کے بعد بھی کئی تقاریب رکھی جاتی ہیں جن میں بے دریغ پیسہ صرف اس لیے اڑایا جاتا ہے تاکہ کوئی رشتہ دار‘ کوئی دوست انگلی نہ اٹھا سکے۔ اپنی ناک کا بھرم رکھتے رکھتے انسان کی اپنی جیب کا کچومر نکل جاتا ہے۔ لوگ قرض لے لیتے ہیں لیکن فضول اخراجات سے باز نہیں آتے۔ اسی طرح ہنی مون پلان کیے جاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے ٹرپ لگائے جاتے ہیں جن پر لاکھوں روپے اضافی خرچ ہوتے ہیں۔ جہاں بیس مہمان بلا کر شادی کی تقریب مکمل ہو سکتی ہے وہاں دوتین سو لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جو آ کر پانچ چھ سو لوگوں کا کھانا ضائع کرتے ہیں اور جاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ کھانا مزے کا نہیں تھا‘ فلاں ڈش ہوتی تو اچھا ہوتا‘ قلفہ کی کمی تھی وغیرہ وغیرہ۔ دو چار دن کی ان تقریبات میں ہم جتنا پیسہ لگا دیتے ہیں‘ اسے سادگی سے انجام دیا جائے تو بہت سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں اور یہی پیسے نوبیاہتا جوڑے کو حج کے لیے دیے جا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی خوبصورت انداز میں آغاز کر سکیں۔ ہر بندے کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں اور ہر کوئی انہی کے مطابق اخراجات کرتا ہے لیکن شادی بیاہ کے موقع پر اصراف کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اسی طرح بہت سے لوگ‘ جن پر حج اس لیے فرض نہیں کہ وہ صاحبِ مال نہیں ہوتے‘ وہ حج کی پہنچ نہ ہونے کے باعث پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور اس پریشانی کو لے کر وہ فرائض بھی ادا نہیں کرتے جن پر کوئی پیسہ نہیں لگتا۔ نماز بھی فرض ہے اور اس کے لیے کوئی ادائیگی نہیں کرنا ہوتی۔ صرف وقت نکالنا اور مسجد جانا ہی کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح روزہ بھی غریب امیر دونوں برابر رکھ سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بیت اللہ کی زیارت اور حج کی سعادت بہت ہی خوش نصیبی کی بات ہے لیکن انسان سے روزِ قیامت انہی چیزوں اور اعمال کا حساب کیا جائے گا جس کا اس پر بوجھ تھا۔ اگر کسی کو ملک کی باگ ڈور ملتی ہے تو اس سے حکومت چلانے کا حساب ہو گا‘ رعایا کے ساتھ سلوک کے بارے میں سوال ہوں گے جبکہ یہ سوال عام آدمی سے نہیں ہوں گے۔ اسی طرح جو شخص منبر پر بیٹھا ہے‘ اس سے اس کے فرائضِ منصبی کے بارے میں پوچھا جائے گا جبکہ حاضرینِ مجلس سے وہ سوال نہیں ہوں گے جو مبلغ سے کیے جائیں گے۔ ہم مگر اس فرق کو بعض اوقات سمجھ نہیں پاتے۔ جو انسان حلال محنت کر کے اپنے بیوی بچوں کو پال رہا ہے اور وہ بھی آج کے اس مہنگائی کے دور میں تو یہ بھی بڑی عبادت اور نیکی ہے۔ ایسے شخص سے اسی کے دائرہ کار کی حد تک سوال کیے جائیں گے اور اگر وہ صرف کلمہ‘ نماز اور روزہ کی استطاعت رکھتا ہے اور زکوٰ ۃ اور حج کے قابل نہیں تو اسے اس ضمن میں بالکل بھی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ خدا اگر کسی کو صاحبِ مال اور صاحبِ اقتدار بناتا ہے تو اسی حساب سے اس پر ذمہ داریاں اور فرائض بھی لاگو ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ آپ جس حیثیت میں بھی رہ رہے ہیں‘ جو کچھ دین کے مقرر کردہ دائرہ کار اور حدود میں رہتے ہوئے آسانی سے کر سکتے ہیں‘ کریں اور ان باتوں اور مسائل کے لیے پریشان ہونا چھوڑ دیں جن پر آپ کا اختیار نہیں۔ ڈالر کی قیمت ڈیڑھ سو سے تین سو روپے ہونے سے نظامِ زندگی بری طرح تباہ ہوا ہے لیکن یہ عام لوگوں کا قصور ہے نہ انہیں اس پر پریشان ہونا چاہیے۔ انہیں اس بچے کھچے نظام اور وسائل میں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کون سے احکامات ہیں جن پر انہیں شریعت کی رُو سے عمل کرنا ہے تاکہ وہ اس مختصر سی زندگی میں اُن احکامات پر عمل کرتے ہوئے آخرت کے اصل امتحان میں کامیاب ہو سکیں۔