گزشتہ ماہ تھنک ٹینک گلوبل فائر پاور نے دنیا کی طاقت ور ترین افواج کی سٹرینتھ رینکنگ جاری کی تھی جس کے مطابق امریکہ پہلے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کی فوج دنیا کی ساتویں بہترین اور جاپان‘ فرانس‘ اٹلی‘ ترکی‘ برازیل‘ جرمنی اور کینیڈا سے زیادہ طاقتور فوج شمار کی جاتی ہے۔ اس سے قبل کے تین برسوں میں پاکستانی فوج کی رینکنگ دنیا میں بالتریب 15ویں‘ دسویں اور نویں نمبر پر موجود تھی تاہم رواں سال اس کی رینکنگ دو درجے مزید بہتر ہوئی ہے۔ جس ملک کی فوج جتنی مضبوط ہو گی اس کا دفاع اور اس کی سلامتی بھی اتنی ہی مضبوط ہو گی اور یہی چیز ہمارے اُن دشمنوں کو بھی کھٹکتی ہے جو باہر بیٹھ کر اس ملک پر وار کرتے ہیں اور ان کو بھی جو ہمارے ہم وطنوں کا لبادہ اوڑھے اس ملک کے اداروں کو کمزور کرنے کے لیے ان پر حملہ آور رہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستانی فوج کو دنیا کی ساتویں عظیم فوج قرار دیا گیا ہے تو اس کی وجہ وہ جذبۂ شہادت ہے جو پاکستانی جوانوں کو دنیا سے ممتاز کرتا ہے۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں قسم کے روزگار ہیں‘ کسی میں کم کسی میں زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ جب چاہتے ہیں کام زیادہ کرتے ہیں جب چاہتے ہیں کم کرتے ہیں‘ شدید سردی یا بیماری آ جائے تو چھٹی کر لیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جہاں معاملہ آپ کی جان کو لاحق خطرے کا آجائے تو آپ کے پاس انکار کی آپشن موجود ہوتی ہے لیکن جنگ اور جہاد واحد چیز ہے جس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ آپ کو کتنی تنخواہ مل رہی ہے اور اگر آپ کو وطن کو بچاتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دینا پڑے گی تو کیا آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہو گا اور شہادت کا جو جذبہ مسلمان بالخصوص پاکستانی افواج کے دل میں پایا جاتا ہے وہ شاید ہی دنیا میں کہیں ملتا ہو۔ شہید کا رُتبہ قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہے اور احادیث میں بھی۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ ''اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مرنے والوں کو مردہ نہ کہو‘ درحقیقت وہ زندہ ہیں اور تمہیں اس کا ادراک نہیں‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ مت خیال کرو بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں‘ اپنے پروردگار کے مقرب ہیں‘ ان کو رزق بھی ملتا ہے۔ وہ خوش ہیں اس چیز سے جو اُن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں‘ ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے‘‘۔ شہادت ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف وہی حاصل کر سکتا ہے جس کے دل میں ایمان ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شہید کو بے شمار اعزازات سے نوازا ہے۔ قرآن پاک میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا بلکہ وہ تا ابد زندہ رہتا ہے۔ اسے اپنے رب کے پاس رزق دیا جاتا ہے‘ وہ جنت کی ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ قرآن و سنت میں شہید کے مقام و مرتبے کے حوالے سے جو ارشادات ملتے ہیں‘ ان سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں شہید کی عظمت اور شہادت کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند ہے۔
ہماری نئی نسل کو گزشتہ دو عشروں کے دوران پاک فوج کی قربانیوں کا ادراک ہونا چاہیے کیونکہ نائن الیون کے بعد تو سب نے اپنی آنکھوں سے یہ جنگ دیکھی اور پاکستانی افسران اور جوانوں کو شہید اور غازی بنتے دیکھا۔ پاکستان میں فوج محاذِ جنگ کے ساتھ ساتھ اندرونی طور پر مسلسل آپریشن کرتے بھی دکھائی دی۔ آپریشن دیر‘ آپریشن بونیراور آپریشن بلیک تھنڈر جو زیریں سوات بونیر میں ہوا تھا۔ آپریشن راہِ راست‘ آپریشن ضرب عضب‘ آپریشن راہِ نجات اور آپریشن راہِ حق بھی پاک فوج کی جرأت کی طویل کہانی بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملکِ عزیز پاکستان دھیرے دھیرے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے پاک ہوتا چلا گیا۔ کیا ہم بھول گئے کہ آج جس سوات‘ بحرین‘ مینگورہ اور کالام میں ہم مزے سے سفر کرتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں اور موسم اور قدرتی نظاروں کو انجوائے کرتے ہیں‘ وہاں پر صرف چند برس قبل دہشت گردوں کا راج تھا‘ جب وہاں سیرو تفریح تو دُور کی بات عام طور پر جانا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ آئے روز بم دھماکوں‘ فائرنگ اور خودکش حملوں میں نہ صرف بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا تھا بلکہ ملکی معیشت بھی زوال کا شکار تھی۔ کوئی ادارہ‘ کوئی ملک یہاں آنے اور اپنا سرمایہ لگانے کو تیار نہ تھا۔ لوگ گھروں سے نکلتے ڈرتے تھے اور دو دو تالے لگانے کے بعد خوف سے نیند نہیں آتی تھی۔ کیا ہم بھول جائیں کہ کس طرح دہشت گرد ہمارے جوانوں کو شہید کرکے ان کے سروں کی بے حرمتی کرتے تھے۔ وہ قربانیاں نہ دی گئی ہوتیں‘ وہ سر نہ کٹوائے گئے ہوتے تو آج ہم اس طرح آزادی سے جی رہے ہوتے نہ ہی ملک میں امن و امان قائم ہوتا۔ مگر ہم نے فوج کی ان قربانیوں کا کیا صلہ دیا اور گمراہی کا شکار ہو کر اسی کے خلاف پروپیگنڈے میں لگ گئے‘ انہی شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا جنہوں نے ہمیں ہمارے والدین اور ہمارے بچوں کو سکون کی نیند سونے کے لیے ایک محفوظ ماحول مہیا کیا۔ کسی نے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا شروع کی تو ہم اس کے پیچھے لگ گئے یہ سوچے بغیر کہ ہمیں اپنی بھی عقل و فہم سے کام لینا ہے۔ یہ بھی نہ سوچا کہ یہی تو دشمن کا خواب تھا کہ پاکستان کی فوج کو نشانہ بنائو‘ اس کو کمزور کرو‘ اس کی املاک اور تنصیبات پر تو دشمنوں کی نظر تھی‘ ہم نے ان کی طرف لپکتے وقت پل بھر کے لیے بھی نہ سوچا کہ ہم کرنے کا کیا جا رہے ہیں اور دنیا میں اس کا پیغام کیا جائے گا۔ بھارت نو مئی کے دن سے شادیانے بجا رہا ہے۔ وہ داعش سمیت دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی اور فنڈنگ کے باوجود وہ کچھ نہیں کر سکا جو ہم نے اپنے ہی شہیدوں کی یادگاروں اور قومی اور دفاعی تنصیبات کے ساتھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اگر پاکستان کی فوج دنیا کی ساتویں طاقت ور فوج ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہے۔ کیا اس کا فائدہ بھارت کے عوام کو ہو گا یا بھوٹان کے عوام کو؟ ظاہر ہے پاکستان کی فوج ہے تو یہ پاکستان کی سرحدی حدود کا دفاع کرے گی اور بدلے میں ہم اس امید اور یقین کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے کہ جیسے ہی کسی نے بری نظر سے پاکستان کی طرف دیکھا‘ پوری قوم چاہے اس وقت خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہو‘ لیکن سات لاکھ جوان چوبیس گھنٹے اس کی حفاظت پر مامور رہیں گے۔ کیا فوج کے ان احسانات کا بدلہ ہمیں اس طرح چکانا ہے کہ ہم اسی کے خلاف سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی شروع کر دیں۔ کیا ہماری مت ماری گئی ہے یا پھر ہم واقعی برین واشنگ کا شکار ہو کر یہ سب کرتے ہیں‘ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس بارے میں سوچنا ہو گا۔ دنیا میں کہیں بھی مادر پدر آزادی کا تصور نہیں۔ سوشل میڈیا تک تقریباً مفت اور آسان رسائی کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ہم جب چاہیں جس کے خلاف چاہیں جو مرضی لکھنا اور پوسٹ کرنا شروع کر دیں اور جب دل کرے توڑ پھوڑ کے لیے نکل پڑیں۔ عجیب بات ہے ہم جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں اور جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے لگے ہیں‘ کچھ تو عقل کرنی چاہیے ہمیں۔