وقت گزرنے کے ساتھ عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایسی ایسی باتیں اب سننے کو مل رہی ہیں کہ چند سال قبل تک جن پر یقین بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب تک دنیا میں لالچی افراد موجود ہیں‘ تب تک فراڈ کرنے والے بھوکے نہیں مر سکتے اور ان کی چاندی ہوتی رہے گی۔ ویسے تو دنیا بھر میں لاٹری اور یکدم پیسہ حاصل کرنے کے کئی ذرائع بہت مقبول ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک میں لوگ جانتے بوجھتے بھی لٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ اگلے کی ساکھ یا تجربہ نہیں دیکھتے بلکہ اس کی چرب زبانی اور دکھائے گئے سہانے خوابوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایسا ہر شعبے میں ہو رہا ہے۔ بڑی بڑی کروڑوں کی گاڑیاں رکھنے والے کو کامیاب گردانا جاتا ہے۔ جو کروڑوں کی گاڑیاں نہیں خرید سکتے‘ وہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں خریدنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جو چند لاکھ روپوں میں مل جاتی ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ اگر یہ گاڑی پکڑی گئی تو نہ صرف ان کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے بلکہ گاڑی بھی ضبط کر لی جائے گی اور واپس نہیں ملے گی۔ مگر اس کے باوجود وہ چھوٹی یا پرانی گاڑی کے بجائے جہاز نما امپورٹڈ گاڑیاں غیر قانونی طور پر خرید لیتے ہیں اور پھر ایک دن کسی سڑک پر لگے ناکے میں پکڑے جاتے ہیں اور یوں اپنی جمع پونجی گنوا بیٹھتے ہیں۔
گزشتہ کئی دنوں سے قرض دینے والی آن لائن فراڈ موبائل ایپس کا بہت چرچا ہے اور اس کی وجہ وہ شخص بنا جس نے آن لائن ایپس سے چند ہزار کا قرض لیا‘ جس کے بعد اسے ایپس کی جانب سے کچھ غنڈوں نے مسلسل بلیک میل کیا‘ اسے اور اس کے رشتہ داروں کو فون کر کے اضافی پیسے مانگے گئے اور انہیں مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں۔ اس کے فون سے اس کی اور رشتہ داروں کی تصاویر لے کر فحش تصاویر اور وڈیوز بنا کر وائرل کی گئیں‘ اس سب سے تنگ آ کر اس شخص نے اپنی زندگی ہی ختم کر ڈالی۔ یہ کیس جیسے ہی سامنے آیا‘ ہزاروں لاکھوں دیگر متاثرین‘ جنہیں اسی طرح بلیک میل کیا جا رہا ہے‘ بھی سامنے آ گئے۔ کسی نے بیس ہزار روپے قرض لیا تھا تو اس کا قرض چند ہی ماہ میں دس لاکھ روپے بن چکا تھا‘ کسی کا بیس لاکھ اور کسی کا اس سے بھی زیادہ۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ بیس‘ تیس ہزار روپے کے قرض پر اصل رقم کے علاوہ لاکھوں روپے سود بھی ادا کر چکے ہیں لیکن ان کا قرض شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یقینا اس سب کے پیچھے ایک پورا مافیا ہے جس نے عوام کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے آن لائن ایپس کا استعمال کیا۔ اس معاملے میں قرض لینے اور دینے والے‘ دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ لینے والے اس لیے کہ انہوں نے یہ تک نہیں دیکھا کہ جس ایپ سے وہ قرض لے رہے ہیں اس کا کہیں دفتر بھی ہے یا نہیں۔ اب کئی متاثرین سامنے آ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم انہیں کہتے ہیں کہ اپنا دفتر بتائو‘ ہم وہاں آ کر تمہیں قسط دیتے ہیں‘ تو یہی بات پہلے کرنی چاہیے تھی اور پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ یہ کمپنی مستند ہے بھی یا نہیں۔ ایپ بنانے میں کون سا ٹائم لگتا ہے‘ وہ تو کوئی بھی بنا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایپ جو سروسز دے رہی ہے‘ وہ قانونی ہیں یا نہیں اور یہ کہ ایپ کے پیچھے جو کمپنی ہے‘ وہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے رجسٹرڈ ہے یا نہیں۔ یہ باتیں شروع میں کوئی نہیں دیکھتا۔ اس وقت بس یہ نظر آ رہا ہوتا ہے کہ پانچ منٹ میں بیٹھے بٹھائے پچیس‘ تیس ہزار روپے ادھار مل جائیں۔ بس جلدی سے قرض لے لو‘ باقی بعد میں دیکھی جائے گی۔
اس سکینڈل میں صرف وہ لوگ ہی نہیں پھنسے جنہیں پیسوں کی اشد ضرورت تھی‘ یعنی جنہیں علاج کے لئے پیسے چاہیے تھے یا کوئی ضروری چیز خریدنی تھی بلکہ وہ لوگ بھی اس کا شکار ہو گئے جنہوں نے شوق شوق میں یا ایپ کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ڈائون لوڈ کیا کہ دیکھیں یہ کیسے کام کرتی ہے‘ یہ سوچ کر قرض اپلائی کر دیا کہ پچیس ہزار کون سی بڑی رقم ہے‘ ایک دو ماہ میں واپس کر دیں گے لیکن ایپ کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کو قبول کرتے وقت انہیں پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ شاید ننانوے فیصد لوگ سوشل میڈیا اکائونٹ بناتے وقت یا کوئی ایپ یا سافٹ ویئر انسٹال کرتے ہوئے ان شرائط کو پڑھنا گوارا نہیں کرتے حالانکہ یہ معاملہ مستند اور انٹرنیشنل اداروں کی ایپس یا سروسز لیتے وقت تو ٹھیک ہے جیسے کہ گوگل یا ایمیزون وغیرہ یا پاکستانی بینکوں کی سروسز‘ لیکن کسی نئی اور غیر مقبول کمپنی کی سروسز لیتے وقت بالخصوص مالی لین دین میں سب شرائط و ضوابط لازمی پڑھنے چاہئیں۔ یہ فراڈ ایپس بے انتہا کمپائونڈ انٹرسٹ ریٹ کے ذریعے صارف کے قرضے کو چند ہفتوں یا چند ماہ میں تیس سے چالیس گنا تک بڑھا دیتی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی شرائط میں یہ سب کچھ درج ہو لیکن اس کے باوجود یہ غیر قانونی ہے کیونکہ یہ سٹیٹ بینک کے قوانین کے خلاف ہے اور دیگر اداروں کے ساتھ ان کا الحاق بھی نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر ٹھگوں کا ایک گروہ ہے جو ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف سادہ لوح بلکہ شاطر لوگوں کو بھی لوٹ رہا ہے اور کئی سال سے یہی دھندہ کر رہا ہے۔ ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں نے بھی اس حوالے سے آنکھیں بند رکھی تھیں یا اس طرح سے کارروائی نہیں کی گئی جیسے کرنی چاہیے تھی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنگلی جھاڑیوں کی طرح یہ ایپس بڑھتی چلی گئیں اور ان سے قرض لینے والوں کی تعداد بھی لاکھوں یا شاید کروڑوں تک جا پہنچی۔
میں نے کچھ ایپس کے ڈائون لوڈز دیکھے تو کسی کے دس ملین یعنی ایک کروڑ تو کسی کے دس لاکھ تھے۔ اگر ایک کروڑ میں سے ایک فیصد نے بھی قرض لیا ہو تو یہ ایک لاکھ لوگ بنتے ہیں‘ جو اس مافیا کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہو گی کیونکہ جس نے بھی ایپ ڈائون لوڈ کرنا ہوتی ہے‘ اس نے صرف اپنا شناختی کارڈ ہی اَپ لوڈ کرنا ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کو قرض مل جاتا ہے۔ کئی ملین افراد ایسے ہوں گے جو اب تک ان بلیک میلرز کے ہتھے چڑھ چکے ہوں گے اور جنہیں دن رات ایپس کے حیوان نما ایجنٹس کالیں کر کے غلیظ دھمکیاں دیتے ہوں گے۔ مجھے ڈر اور خدشہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد اُن ٹین ایجرز کی ہو سکتی ہے جنہوں نے اپنی چھوٹی موٹی ضروریات کے لیے یا پھر شوقیہ قرض کے لیے اپلائی کیا ہو گا۔ جن گھروں میں بچوں کو زیادہ پاکٹ منی نہیں ملتی‘ ان کے بچے بھی ان کا شکار ہو سکتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ کئی بچوں نے اپنے والدین کا شناختی کارڈ استعمال کیا ہو یا والدین کو ہی مجبور کیا ہو کہ وہ انہیں قرض لے کر دیں۔ اس طرح یہ عذاب گھر گھر پھیل چکا ہو گا لیکن لوگ عزتِ نفس مجروح ہونے کے ڈر سے چپ بیٹھے ہیں۔ کہیں نہ کہیں سے وہ ان مافیاز کو پیسے ارینج کر کے دے رہے ہوں گے مگر یہ درندے کہیں نہیں رکنے والے بلکہ مزید کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔
ایک شخص کی خودکشی کے بعد میڈیا میں شور مچا تو لوگوں میں یہ شعور جاگا کہ یہ ایپس کیسے فراڈ کر رہی ہیں‘ اسی طرح متعدد متاثرین بھی سامنے آئے اور حکومت کی جانب سے ان ایپس کے خلاف ایکشن لینے اور انہیں بند کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے لیکن تاحال کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اب بھی اگر پلے سٹور پر جائیں تو درجنوں ایسی ایپس موجود ہیں‘ نہ تو انہیں گوگل کی جانب سے ہٹایا گیا ہے نہ ہی پی ٹی اے نے بلاک کیا ہے۔ یہ ایپس قرض اپلائی کرنے والے یا ایپ ڈائون لوڈ کرنے والے کی تصاویر‘ فون نمبرز اور دیگر ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں بلکہ اپلائی کرنے والا خود انہیں رسائی دیتا ہے اور یوں یہ اس کی تصاویر اور ڈیٹا کے ذریعے اسے بلیک میل کرتی ہیں۔ حکومت‘ ایف آئی اے‘ سائبر ونگ‘ پولیس و دیگر اداروں کو ان ڈیجیٹل درندوں کے خلاف سخت اور فوری کارروائی تو کرنی ہی چاہیے اور انہیں منظرِ عام پر لا کر عبرت کا نشان بھی بنانا چاہیے مگر ساتھ ہی حکومت کو ٹی وی‘ اخبارات اور سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر تشہیری مہم کے ذریعے لوگوں کو اس مافیا کی غلیظ سرگرمیوں اور غیر قانونی قرضوں کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے۔ یوٹیوبرز‘ انفلونسرز‘ معروف شخصیات اور ٹک ٹاکرز کو بھی ان کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے۔ ہمیں بھی اپنے دوستوں‘ رشتہ داروں‘ تعلیمی اداروں اور دفاتر سمیت آس پڑوس میں ایک دوسرے کو اس برائی سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ مزید کوئی شخص ان ایپس کو ڈائون لوڈ کرے نہ ہی قرض اپلائی کر کے ان کے چنگل میں پھنسے۔