کچھ ہفتوں‘ مہینوں سے ملک میں ایک غلغلہ مچا ہوا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ نکلو یہاں سے‘ یہاں کچھ نہیں رکھا! یہاں سخت مہنگائی ہے۔ روزگار بھی ناپید ہو چلا ہے۔ بجلی‘ گیس اور پٹرول‘ اب کچھ بھی افورڈ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ باہر بہت آپشنز ہیں‘ کینیڈا اور آسٹریلیا نے ویزے کھول دیے ہیں۔ یورپی ممالک کو لوگوں کی سخت ضرورت ہے‘ فوری اپلائی کرو۔ فلاں فیملی نے چار ماہ قبل اپلائی کیا تھا‘ کل وہ سب جہاز میں بیٹھ کر یورپ جا رہے ہیں۔ روز بروز پاسپورٹ دفاتر کے باہر قطاریں لمبی ہوتی جا رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اندرونِ ملک جنگ کا سماں ہے۔ سب کو بس ایک ہی دھن ہے کہ اپنی جان بچائیں اور یہاں سے نکل جائیں۔ باہر جائیں گے تو سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ نہ وہاں مہنگائی ہے نہ بیروزگاری۔ سب کو یکساں حقوق ملتے ہیں۔ کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ ہر کسی کے پاس گھر ہے‘ گاڑی ہے‘ نوکری ہے۔ وہاں سیر و تفریح کے بھی مواقع ہیں۔ ہر کوئی اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ فرقہ بازی نہیں ہے۔ دھڑے بندی نہیں ہے۔ ٹانگیں کھینچنے والے نہیں ہیں۔ ہر کسی کو ترقی کے یکساں مواقع ملتے ہیں۔ سفارش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رشوت بھی کوئی نہیں لیتا۔ قانون پر عمل کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔ وہاں سڑکیں ہمارے گھروں کے ڈرائنگ رومز سے بھی زیادہ صاف اور اجلی ہیں۔ کوئی پروٹوکول نہیں لگتا۔ وزیراعظم بھی قطار میں لگ کر برگر خریدتا ہے۔ علاج کی سہولتیں بھی عمدہ ہیں۔ ٹیکس البتہ بہت زیادہ ہیں‘ آدھی تنخواہ ٹیکسوں میں کاٹ لی جاتی ہے لیکن یہ تنخواہ بہترین سہولتوں کی شکل میں واپس بھی مل جاتی ہے۔ ان پیسوں سے سڑکوں کی تعمیر و مرمت ہوتی ہے۔ مرمت کے ٹھیکوں میں ہیرا پھیری بھی نہیں ہوتی۔ ان پیسوں سے سرکاری تعلیم مفت ملتی ہے۔ وہاں دودھ خالص ملتا ہے۔ وہاں کا گوالا دودھ میں پانی ملاتا ہے نہ ہی دودھ کے نام پر سرف ملا محلول بیچتا ہے۔ خالص دودھ بیچ کر بھی وہ اچھا منافع کما رہا ہے۔ وہاں اس طرح پرائیوٹ اور سرکاری سکولوں کے تعلیمی معیار کا فرق نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ آپ کسی اسلامی سکول میں اپنے بچوں کو داخل کرانا چاہیں۔ وہاں آپ کو پارک جا بجا اور صاف ستھرے ملیں گے۔ ٹرینیں اور بسیں ایسی ملیں گی کہ آپ اپنی گاڑی کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا پسند کریں گے۔ کورونا جیسی کوئی عالمی وبا آ جاتی ہے تو آپ کو حکومت کی جانب سے امداد ملے گی۔ بیروزگاری الائونس ملے گا۔ آپ کا بچہ جس دن پیدا ہو گا‘ اسی روز سے اس کا پانچ‘ سات سو ڈالر کا وظیفہ لگ جائے گا جس سے آپ اس کا دودھ خرید سکیں گے‘ دیگر دیکھ بھال کر سکیں گے۔
یاد آیا یہ وظیفہ تو شاید مسلمانوں کے ہاں بھی کبھی ملتا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں بچے کی پیدائش کے بعد اس کے اخراجات ریاست کی ذمہ داری سمجھے جاتے تھے۔ درج بالا باقی چیزیں بھی وہی ہیں جو اسلام میں کسی نہ کسی صورت میں بیان کی گئی ہیں۔ ہمارا ایمان صفائی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا‘ یہ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے‘ تو پھر یہاں ایسا کیوں نہیں ہے؟ ہیرا پھیری‘ ملاوٹ‘ جھوٹ ان سب باتوں سے تو قرآن کریم میں سختی سے منع کیا گیا ہے‘ حدیث شریف میں اس حوالے سے شدید ممانعت آئی ہے‘ پھر یہ سب یہاں کیوں ہو رہا ہے‘ اور کون کر رہا ہے؟ کیوں ہم یہ ملک کینیڈا‘ امریکہ یا جاپان اور سنگاپور کی طرح صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے۔ کیوں ہم یہاں سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو نہیں بھیجتے۔ کیوں ہمارا گوالا دودھ میں پانی بلکہ پانی میں دودھ ملا کر بیچ رہا ہے، بلکہ یہ باتیں بھی اب پرانی ہو چکی ہیں۔ اب تو پانی میں سرف اور کچھ کیمیکل ملا کر انہیں دودھ کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں خالص دودھ بیچتے ہوئے کیا مسئلہ درپیش ہے؟ یہاں کے حالات ایسے کیوں ہیں‘ آخر کیوں؟
یہ سب سوالات اس وقت تیزی کے ساتھ ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں جب بھی ایسی کوئی خبر سننے کو ملتی ہے کہ اتنے لاکھ پاکستانی اتنے ماہ میں ملک چھوڑ گئے۔ لوگ صرف بہتر روزگار کے لیے بیرونِ ملک نہیں جاتے بلکہ ایک ایسے نظام کی تلاش میں جاتے ہیں جس میں تمام انسانوں کو یکساں اہمیت حاصل ہو۔ وہ مساوات کی تلاش میں غیر مسلموں کے دیس چلے جاتے ہیں لیکن یہ مساوات انہیں مسلمانوں کے ملکوں میں نہیں ملتی۔ پھر یہاں ان کو کیا ملتا ہے۔ لیکچر! تقریریں! اس کے باوجود بھی حالات بدتر ہو رہے ہیں تو پھر ان سب چیزوں کا فائدہ؟ جن کاموں پر ہم خود عمل نہیں کر سکتے‘ ان کے بارے میں دوسروں کو کیوں ترغیب دیتے ہیں۔
ہمارا دین ہمیں بہت اچھی تعلیمات دیتا ہے مگر یہ باتیں ہم آگے بیان کر دیتے ہیں‘ ان پر عمل کس نے کرنا ہے؟ نبی اکرمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں صراحت سے فرمایا کہ اسلام میں کسی کالے کو کسی گورے پر‘ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے‘ اسلام کی نظر میںسب برابر ہیں۔ تو کیا ان ممالک میں‘ ان معاشروں میں جنہیں ہم اسلامی جمہوری کہتے ہیں‘ وہاں ایسے ہی ہوتا ہے؟ ہم آئے روز ان باتوں پر احتجاج کرتے رہتے ہیں کہ فلاں ملک میں یہ ہو گیا، فلاں ملک نے وہ کر دیا مگر کیا ہم نے کبھی اپنے اعمال و افعال کے خلاف بھی احتجاج کیا ہے؟ سارا کا سارا زور حقوق اللہ پر ہے‘ حقوق العباد کے قریب بھی ہم نہیں پھٹکتے۔ یہ جو کچھ ہم کرتے ہیں‘ جس طرح ہم رہتے ہیں‘ جس طرح ہم حکومتیں چلاتے ہیں‘ جس طرح ہم لین دین کرتے ہیں‘ جس طرح ہماری مارکیٹوں میں کاروبار ہوتا ہے‘ کیا اسلام نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ کسی نے سچ کہا کہ مغرب کے لوگ اگر اسلام قبول کر لیں تو وہ ہم سے کہیں آگے نکل جائیں کیونکہ باقی بیشتر معاملات تو ان کے ویسے ہی ہیں جیسے ہمارا دین ہمیں حکم دیتا ہے اور ہم ان سے صرفِ نظر کیے ہوئے ہیں۔ روزِ قیامت ہم کیا عذر تراشیں گے کہ ہمیں علم نہیں تھا‘ یا ہمارے پاس وقت نہیں تھا؟
دین کے احکامات پر تو ہم نے کیا عمل کرنا ہے‘ یہاں لوگ چھ‘ چھ سال تک گاڑی کا نمبر نہیں لگواتے اور قانون کو توڑ کر کوئی رنج بھی محسوس نہیں کرتے۔ پکڑے جائیں تو سو بہانے اور سو کہانیاں سناتے ہیں۔ ایسی قوم جو ہیلمٹ نہ پہننے پر بھی سو‘ سو عذر تراشے‘ اس سے آپ کیا توقع لگا سکتے ہیں۔ صرف خواب دیکھنے اور بیانات جاری کرنے سے ملک ترقی کرتے تو پاکستان کا پاسپورٹ دنیا میں 194ویں نمبر پر نہ آتا۔ محنت سے نفرت اور بے کاری کے بیج بونے سے یہ ملک ترقی کر سکتا تو عرصہ قبل کر چکا ہوتا۔ جو اس ملک کی کشتی میں سوراخ کرنے کے ذمہ دار ہیں‘ ان کا ایک پائوں اِدھر تو دوسرا یورپ اور امریکہ میں ہے۔ انہیں تو کوئی فکر ہی نہیں۔ سرکاری مال و اسباب کی لوٹ مارکر کے خاندان کے خاندان بیرونِ ممالک شفٹ ہو چکے ہیں اور کبھی کبھار سیر و تفریح کے لیے وہ پاکستان آ جاتے ہیں۔ دوسری جانب یہاں کے عوام بھی کم نہیں ہیں۔ جس کا جہاں زور چلتا ہے‘ وہ چونا لگانے سے باز نہیں آتا۔ پھر چاہے وہ ریڑھی بان ہو یا کوئی طاقتور افسر۔ گِدھوں نے نوچ نوچ کر اس ملک کے جسم کو چور چور کر دیا ہے۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور اس سارے کھیل میں نقصان صرف ملک و ریاست کا ہو رہا ہے۔ کسی کو اس کی کوئی پروا ہی نہیں۔
ہر کوئی اپنے پسندیدہ لیڈر‘ علاقے کے ایم این اے‘ ایم پی اے کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ ہر کسی کے چھوٹے چھوٹے مفادات ہیں کہ وہ کسی طرح پورے ہو جائیں‘ بھلے ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچے‘ کوئی پروا نہیں۔ نہ کسی کا ضمیر جاگتا ہے نہ ایمان۔ گلی کی نالی جو پکی کرا دے گا ووٹ اسی کا‘ بریانی‘ قورمہ جو کھلا دے گا ووٹ اسی کا۔ اس میں اُن سب کا بھی مفاد ہے جو اسے لوٹ لوٹ کر کھا رہے ہیں۔ لوگ پڑھ لکھ گئے‘ انہیں شعور آ گیا تو وہ سوال کریں گے‘ قانون کی عمل داری ہو گئی تو ان کے شاہانہ طرزِ حیات کا کیا ہو گا۔ لوگوں کو بھوکا رکھو‘ کبھی تھوڑا سا دانہ ڈال دو‘ کبھی چھین لو‘ نئے خواب بُنو‘ انہیں دکھائو‘ بڑے بڑے دعوے کرو‘ نہ پورے ہوں تو کوئی عذر تراش دو‘ اللہ اللہ خیر سلا۔ ایسے سسٹم بھی چلتا رہے گا‘ لوگ بھی خوش رہیں گے اور ان کا دال دلیا بھی لگا رہے گا۔ اگر یہی ہماری سوچ کی معراج ہے تو پھر لوگ ملک سے باہر نہ جائیں تو کیا کریں۔ اسے رہنے کے قابل ہی کہاں چھوڑا گیا ہے۔