اس ملک کے دیگر مسائل میں سے ایک مسئلہ نمبروں کی دوڑ کا ہے۔ جب بھی میٹرک کے امتحانی نتائج کا اعلان ہوتا ہے تو پوزیشنز حاصل کرنے والوں کی تو بہت تشہیر کی جاتی ہے لیکن درمیانے یا کم نمبر لینے والوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا پھر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ انتہائی نالائق بچے ہیں اور زندگی میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ حقیقت اس کے برعکس نکلتی ہے۔ ہم بھی جن سکولوں کالجوں میں پڑھے ہیں‘ ہم خود دیکھ لیں کہ ہمارے ساتھ جو بچے میٹرک میں یا دیگر جماعتوں میں کم نمبر لے سکے تھے کیا وہ آج ہم سے عملی طور پر کامیابی میں آگے ہیں یا پیچھے ہیں۔ بعض تو ایسی مثالیں ملیں گی جن سے پتا چلے گا کہ نمبروں کا زندگی میں کامیابی یا دولت اور رزق سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ خاص طور پر کاروباری افراد کی آپ فہرست نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ان میں خال خال ہی اعلیٰ تعلیم والے نظر آئیں گے۔ بلکہ اعلیٰ تعلیم تو دور کی بات میٹرک پاس بھی آپ کو کم ہی ملیں گے لیکن یہ بڑی بڑی کمپنیاں چلا رہے ہوں گے‘ کوئی ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک بن کر روزانہ کروڑوں کما رہا ہوگا‘ کوئی ریسٹورنٹ یا ہوٹل بنا کر درجنوں شہروں میں کاروبار پھیلا چکا ہوگا‘ کوئی بیرونِ ملک جا کر اربوں کی ایمپائر کھڑی کر چکا ہو گا‘ کوئی کار شوروم بنا کر ارب پتی بن چکا ہو گا اور اگر ان سب کے میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے نمبر نکال کر دیکھیں جائیں تو اس لحاظ سے تو کئی لوگوں کی ماہانہ آمدنی آج تیس چالیس ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آج کے پڑھے لکھے ماسٹرز ڈگری ہولڈرز اور ٹاپرز کو تو چالیس پچاس ہزار کی نوکری بھی بمشکل مل پاتی ہے۔ بلکہ گزشتہ دنوں لاہور کے ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی کہانی سامنے آئی تھی جس نے 29گولڈ میڈل حاصل کیے لیکن پنجاب کا کوئی ہسپتال اسے نوکری دینے کو تیار نہیں تھا۔ اب اس ڈاکٹر کو خود کو منوانے کے لیے باہر جانا پڑے گا جہاں اسے پیسہ بھی ملے گا‘ ٹریننگ بھی اور عزت بھی۔ نمبر لینے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پیسے اور رزق کا تعلق نمبروں سے نہیں ہوتا۔ انسان کی تقدیر‘ حالات‘ قسمت‘ اس کے فیصلے اور دیگر عوامل مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ایک انسان اپنی زندگی میں کس قدر رزق کمائے گا۔
گزشتہ ایک‘ دو برس سے ملکی حالات میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آ رہے ہیں بلکہ اتار ہی آ رہے ہیں ۔ آئے روز خبر آتی ہے کہ اتنے لاکھ لوگ روزگار کے لیے ملک چھوڑ گئے۔ ان میں پروفیشنل لوگ بھی ہوتے ہیں اور نان پروفیشنل بھی جو باہر جا کر محنت مزدوری کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ غلط راستہ اپناتے ہیں اور ایجنٹوں کو پیسے دے کر سمندری راستے سے غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں مارے جاتے ہیں جیسا کہ کچھ ہفتے پہلے یونان میں ہوا۔ اس طرح کی خبریں اتنی تواتر سے آ رہی ہیں اور سوشل میڈیا کھولو تو وہ ان خبروں سے بھرا ہوتا ہے۔ پھر چند ماہ قبل کینیڈا نے بھی پانچ لاکھ ویزے کھول دیے ہیں اور لوگوں کا رُخ اب دھڑا دھڑ کینیڈا کی جانب ہو رہا ہے۔ اگرچہ وہاں بھی مہنگائی عروج پر ہے اور کچھ لوگ کینیڈا کو بھی چھوڑ کر امریکہ یا دیگر ممالک کا رُخ کر رہے ہیں کیونکہ مہنگائی اور عالمی کساد بازاری کی لہر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ امریکہ اور دیگر جدید ممالک نے کساد بازاری یا ری سیشن کا باقاعدہ اعلان تو نہیں کیا جیسا کہ 2008ء میں کیا تھا کیونکہ اس طرح کے اعلانات سے معیشت کا بھٹہ بیٹھنے کی رفتار مزید تیز ہو جاتی ہے۔ ایک صاحب کی پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا کہ وہ پاکستان کے حالات کی وجہ سے نقل مکانی کا سوچ رہے ہیں کہ انہیں ان کے بچوں کا یہاں مستقبل محفوظ نظر نہیں آ رہا۔ ایک اور پوسٹ میں ایک خاتون کی سٹوری بالکل مختلف تھی۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ سب کچھ بیچ کر امریکہ پہنچ تو گئی ہیں لیکن وہاں جا کر پتا چلا ہے کہ یہاں سیٹ ہونا تو پاکستان سے بھی مشکل ہے۔ نوکری مل نہیں رہی حتیٰ کہ جو پیسے پاس تھے‘ وہ بھی ختم ہونے کو ہیں۔ اب انہیں پاکستان یاد آ رہا ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اتنے پیسے بچا لیں کہ ٹکٹ خرید کر سب واپس پاکستان لوٹ سکیں۔
پاکستان میں قسم قسم کے تعلیمی نظام ہیں اور روزگار کے مواقع اتنے ہیں نہیں۔ بچوں کو بچپن سے ڈرایا جاتا ہے کہ نمبر لو وگرنہ بڑے ہو کر اچھا روزگار حاصل نہیں کر پاؤ گے۔ اب بچے محنت کرتے ہیں‘ رٹے مار مار کر نمبر لیتے ہیں اور جب ڈگری ہاتھ میں لے کر مارکیٹ میں نکلتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان سے سینئر ابھی تک یا تو نوکری حاصل نہیں کر پائے یا پھر معمولی معاضے پر کام کرنے پر مجبور ہیں یا پھر انہوں نے اپنا پروفیشن ہی تبدیل کر لیا ہے۔ اتنے غیریقینی حالات میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ جو قدم اٹھا رہا ہے وہ درست ہے یا نہیں اور کیا اسے اس کا پھل مل پائے گا۔ ایک بندہ اسی صورت حال پر کہہ رہا تھا کہ چالیس پچاس لاکھ روپے خرچ کرکے باہر جانے سے کہیں بہتر ہے کہ یہی پیسہ پاکستان میں لگا دیا جائے اور پھر دیکھیں آپ حیران ہوں گے کہ آپ نے لگایا تو پچاس لاکھ تھا لیکن نقصان پچپن‘ ساٹھ لاکھ کا ہو گیا۔ ویسے اس ملک میں اب بھی بہت سے آپشنز ہیں لیکن یہ سب کے لیے نہیں ہیں یا سب انہیں اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ مثلاً کھانے کا کاروبار بہت اچھا ہے۔ یہاں لوگوں کے پاس آؤٹنگ کرنے کو اور کچھ ہے نہیں اس لیے وہ کھانے پینے کو ہی آؤٹنگ شمار کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں سے ٹائی سوٹ لگا کر ڈگریاں لے کر بچے چھوٹے ڈھابے یا ریسٹورنٹ کھولنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ کام پھر لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس کرتی ہے یا پھر وہ لوگ جن کے پاس بہت زیادہ سرمایہ ہے اور وہ پوش علاقوں میں کوئی ریسٹورنٹ وغیرہ کھول لیتے ہیں۔ بیکری کا پاکستان میں بہت سکوپ ہے لیکن یہ کام بھی ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ پھر یہاں آئے روز قوانین تبدیل ہوتے ہیں۔ کراچی میں تو بھتہ خوری اور موبائل چھن جانے کے واقعات نے الگ ہی سناٹا کر رکھا ہے۔ کاروبار وہاں ہوتا ہے جہاں ریاست آپ کے ساتھ کھڑی ہو‘ آپ کو ایک جگہ تمام سہولتیں دے‘ پولیس اور دیگر ادارے آپ کی حفاظت کریں‘ عدالتیں آپ کو فوری ریلیف دیں لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ سیاستدانوں اور عوام میں مقابلہ چل رہا ہے کہ کون ڈھٹائی میں آگے ہے۔ نہ سیاستدان ٹھیک ہونے کو تیار ہیں نہ عوام۔ سب اپنا اپنا کام دوسروں پر ڈالے بیٹھے ہیں۔ آبادی بڑھانے میں البتہ یہ ملک مستقل مزاج ہے۔ وسائل تیزی سے ختم ہو رہے۔ گیس کے نئے کنکشنز مل نہیں رہے‘ نہ ملنے ہیں۔ کچھ عرصے میں پانی بھی نایاب ہو جائے گا۔ جہاں منصوبہ بندی نام کی چیز نہ ہو اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہو کہ کیسے اس ملک سے نکلنا ہے یا اپنے اثاثے باہر شفٹ کرنے ہیں تو پھر اس ملک کا یہی حال ہو گا جو ہو چکا ہے۔ رہی بات میٹرک یا انٹر میڈیٹ کے نمبروں کی تو ہماری قوم ابھی تک انہی چکروں میں پھنسی ہے اور یہ واحد قوم ہے جس کے بچے چاہیں تو گیارہ سو میں سے بارہ سو نمبر بھی لے سکتے ہیں کیونکہ پاکستانی قوم اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں ہی تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کبھی بھی کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔