ویسے تو اکیسویں صدی کا آغاز ہی بڑا جارحانہ تھا۔ نائن الیوین کا واقعہ اس کی ایک مثال ہے۔ دو عشرے تو عالمی جنگ و جدل میں گزر گئے جب جنگ کے بادل چھٹے اور تیسرے عشرے کا آغاز ہوا تو رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی۔ ان عشروں کے دوران موبائل فون اور انٹرنیٹ نے بھی بہت ترقی کی جس کی وجہ سے کورونا میں جہاں بہت سے لوگوں کی نوکریاں گئیں وہاں بہت سے شعبے اور افراد ایسے تھے کہ جن کا کاروبار چمک اٹھا۔ اب دنیا میں نہ صرف کاروبار کے انداز بدل رہے ہیں بلکہ تعلیم دینے اور حاصل کرنے کا طریقہ کار بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ اسی طرح کمانے اور خرچ کرنے کے انداز اور ڈھنگ بھی بدل رہے ہیں۔ پہلے پہل بچہ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی جاتا تھا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ نوکری کرکے پندرہ بیس سال میں جا کر سیٹ ہوتا تھا لیکن اب یہاں بھی اُلٹی گنگا چل پڑی ہے۔ اب نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے پانچ برسوں کے اندر اندر کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں اس کا اندازہ ہمیں اپنے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ان خبروں سے ہو جاتا ہے جن میں نوجوان چند ہی برسوں میں اپنا گھر‘ گاڑی اور بینک بیلنس بنانے کے سفر سے آگاہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بچوں کو دورانِ تعلیم ہی ایسے گُر سکھائے جائیں کہ وہ تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ کمانا شروع کر دیں۔ ویسے اس میں کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے اب مگر انداز بدل گئے ہیں۔ پہلے لوگ اپنے سکول کالج کی فیسوں کو پورا کرنے کے لیے مختلف کام کرتے تھے۔ زیادہ تر لوگ اپنے ہم عصر یا چھوٹی جماعتوں کو ٹیوشن پڑھا کر جیب خرچ بناتے تھے۔ اس طرح وہ والدین کا معاشی بوجھ بھی شیئر کر لیتے تھے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی کمائی کا طریقہ سیکھ جاتے تھے جو انہیں ایسا اعتماد فراہم کرتا تھا جس کا آنے والی زندگی میں چل کر انہیں بہت فائدہ ہوتا تھا۔ اسی طرح اب تعلیم کے انداز بھی بدل رہے ہیں۔ بہت سے لوگ جو مہنگے سکول کالج افورڈ نہیں کر سکتے وہ آن لائن بھی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح طویل برسوں کی ڈگریوں کا دورانیہ کم کرنے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ یعنی چار سال کی ڈگری کے بجائے دوسالہ ڈگری پروگرام کیونکہ جس تیزی کے ساتھ دنیا میں تبدیلیاں آ رہی ہیں‘ چار برس میں نصاب پرانا ہو جاتا ہے۔ ہم نے اس کی مثالیں اپنے ہاں دیکھی ہیں کہ ہمارے ہاں اب تو اکثر حکومتیں پانچ سال پورے نہیں کر پاتیں اور ہر حکومت آ کر اپنا نصاب لے آتی ہے یا پالیسی میں ایسی تبدیلیاں لاتی ہے کہ کتابیں نئے سرے سے چھاپنا پڑ جاتی ہیں۔ اب تو کاغذ جتنا مہنگا ہو گیا ہے‘ پرنٹنگ کے دیگر اخراجات جتنے بڑھ گئے ہیں اور عوام کی قوتِ خرید جتنی کم ہو گئی ہے‘ نہ تو حکومت کے لیے بار بار کتابیں چھاپنا اور ان پر سبسڈی دینا ممکن ہے اور نہ ہی والدین کے لیے انہیں خریدنا آسان ہے اس لیے آنے والے کچھ برسوں میں زیادہ تر نصاب آن لائن منتقل ہونے کا امکان نظر آتا ہے کیونکہ وہاں تبدیلی کرنا بھی آسان ہے اور طلبا کی پہنچ بھی آسانی سے ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نظام اس لحاظ سے بھی دنیا میں بہت پیچھے ہے کہ یہاں ننھے بچوں کو بھاری سکول بیگ اٹھا کر روزانہ سکول جانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی کمریں اوائل عمری میں ہی ٹیڑھی ہو رہی ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک بچہ جس کا اپنا وزن اٹھارہ بیس کلو ہے اگر وہ دس پندرہ کلو کا بیگ کاندھے پر اٹھائے گا تو لامحالہ اس کے مہرے اپنی جگہ سے ہل جائیں گے۔ ایسا بچہ سکول جانے میں کیا خوشی محسوس کرے گا جب بھاری سکول بیگ اٹھانے سے لے کر سکول کے روایتی تعلیمی نظام میں اسے کوئی کشش ہی دکھائی نہ دے گی۔ ترکیہ سمیت کئی ممالک ایسے ہیں جہاں بچے سکول آتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں بیگ ہوتا ہے نہ کتابیں۔ سکول کے گیٹ سے لے کر کلاس رومز تک اساتذہ سمائلنگ فیس لے کر ان کا استقبال کرتے ہیں‘ زیادہ چھوٹے بچوں کو ٹافیاں دی جاتی ہیں جس سے بچوں کو دن کے آغاز سے ہی دلچسپی اور اپنائیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ان کی کتابیں وہیں سکول میں ہوتی ہیں‘ وہیں وہ پڑھتے ہیں اور وہیں چھوڑ کر واپس آ جاتے ہیں۔ فن لینڈ‘ سنگاپور جیسے ممالک میں تو بچوں کو لنچ بھی سکول کی جانب سے ملتا ہے جو ہر بچے کی نشوونما کے حساب سے تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں گنگا یہاں بھی الٹی بہتی ہے۔ پہلے زمانوں میں سرکاری سکولوں میں صبح صبح ٹیچر تو استقبال کے لیے کھڑے ہوتے تھے لیکن ان کے ہاتھ میں بید کی لمبی چھڑی ہوتی جو اُلٹے ہاتھوں پر جان بوجھ کر ماری جاتی تھی تاکہ طالب علم کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچائی جا سکے۔ اس طرح کے استقبال سے تو بچوں کو یہ پیغام ملتا تھا کہ شاید وہ سکول نہیں بلکہ روزانہ کسی جیل میں کچھ وقت کے لیے جاتے ہیں جہاں انہیں اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ کسی جرم کی پاداش میں کچھ وقت گزارنے آتے ہیں۔ آج اگرچہ سکولوں میں بچوں کو مارنے کی اجازت نہیں ہے لیکن تشدد کا سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری ہے اسی لیے ہمارے ہاں بچے اس عمر میں وہ کچھ نہیں سیکھ سکتے اور اس طرح سے گرومنگ نہیں کر پاتے جیسے جدید ممالک میں بچے حاصل کر لیتے ہیں۔ وہاں بچوں کی سافٹ سکلز پر بھی اتنی توجہ دی جاتی ہے جتنی کے روایتی تعلیم پر۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے مگر ہمارے ہاں ابھی تک رٹا سسٹم ہی ختم نہیں ہو سکا۔ ہر بچے کا اپنا دماغ اور اپنا سافٹ ویئر ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ کسی ایسے دوسرے بچے کے ساتھ کرنا درست نہیں جو ایسی مختلف صلاحیتیں رکھتا ہو جو اس بچے میں موجود نہیں۔ بدقسمتی سے ہم اتنا بھی نہیں سمجھ سکے کہ بچے کی عمر کے ابتدائی پانچ سے دس سال اتنے اہم ہوتے ہیں کہ اس میں اس کے مستقبل کے فیصلے ہو جاتے ہیں یعنی اس نے بڑے ہو کر مسائل کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے‘ لوگوں سے کس طرح سے بات چیت کرنی ہے‘ کیسے اپنا موقف دے کر دوسروں کو قائل کرنا ہے۔ باہر کی دنیا میں بچوں کو ان نکات پر تیار کیا جاتا اور انہی خطوط پر ان کی تربیت کی جاتی ہے۔
دنیا بدل رہی ہے‘ ہم کب بدلیں گے۔ بدلیں گے بھی یا نہیں یا پھر یہاں حکومتیں آنے جانے کی میوزیکل چیئر ہی لگی رہے گی۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کیونکہ اس سال جس تیزی سے لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں اور حکومت اس بات کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ جو چل رہا ہے‘ ایسے ہی چلے گا یا اس سے بھی حالات بدتر ہو جائیں گے۔ کسی گھر سے ایک بچہ بھی اس لیے چھوڑ کر چلا جائے کہ گھر کے حالات خراب ہیں یا اس میں کچھ شدید نوعیت کے مسائل ہیں تو اس گھر میں والدین کو فکر لاحق ہو جاتی ہے لیکن یہاں ریاست کے ذمہ دار اس عوامی انخلا کو معمول قرار دے کر چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ اس ملک کی چودہ کروڑ آبادی پندرہ سے تیس برس کے نوعمر بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان نوجوانوں کو درست سمت نہ دکھائی گئی‘ اگر وہ نا امید ہو گئے تو پھر حالات سنبھالنے سے بھی سنبھل نہیں پائیں گے۔ بہتر ہے ایسے وقت سے پہلے ہی ہوش کے ناخن لے لیے جائیں۔