دل نہیں کرتا کسی چیز کو‘ بس یہی دل چاہتا ہے کہ الگ تھلک ہو جائوں سب سے‘ کسی سے بات نہ کروں‘نہ میں کسی کو پکاروں نہ کوئی مجھے بلائے‘ زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لوں‘ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چلا جائوں‘ کسی ندی کے کنارے پڑائو ڈال لوں‘کسی جنگل میں بسیرا کر لوں‘کسی غار میں پناہ لے لوں‘انسان کا جہاں وجود اور دور دور تک قربت موجود نہ ہو‘ بس ہوائوں کی چلمن ہو‘ دھوپ کی کرنیں ہوں‘ پھولوں کی خوشبو ہو‘جھرنوں کی مسکراہٹ ہو‘ پرندوں کی چہچہاہٹ ہو‘اس کے علاوہ پانچویں کوئی آواز‘کوئی شور اور کوئی مداخلت قبول نہیں۔ مجھے وہاں کوئی شاندار ہوٹل نہیں چاہیے‘ کوئی فور بائی فور گاڑی ‘کوئی مدد گار‘ انواع و اقسام کے کھانے و مشروبات درکار نہیں‘ راستہ ڈھونڈنے کیلئے موبائل اور اس موبائل پر موجود ایپس بھی نہیں چاہئیں‘ طرح طرح کے خواب دکھانے والے ساتھی اور بے معنی مشورے بھی نہیں چاہئیں‘ بس سکون چاہیے‘ سکون۔ ایسی جگہ چاہیے جہاں کسی گاڑی کے ہارن کا شور‘ کسی موبائل کی رنگ ٹون سنائی نہ دے‘ جہاں کسی سپیکر سے چنگھاڑتی آوازیں اور میوزک میرے کان کے پردوں کو پھاڑنے کیلئے نہ آ سکے‘ جہاں کوئی پیسے دگنے کرنے کا لالچ دے سکے نہ جمع پونجی لٹنے کے خوف میں مبتلا کر سکے‘ جہاں کوئی مستقبل کے اندیشوں سے نہ ڈرا سکے اور جہاں کوئی ملک سے زندہ بھاگنے پر مجبور نہ کرے ۔ مجھے نرم گداز بستر بھی درکار نہیں کہ میں کسی پتھر پر سر رکھ کر لیٹ جائوں گا‘ کسی گھاس کو مخمل کا بستر بنا لوں گا اور کسی درخت کی چھائوں کو لحاف سمجھ کر لپیٹ لوں گا کہ مجھے معلوم ہے میں دنیا میں فرانسیسی کپڑے اور اطالوی جوتے پہن کر نہیں آیا تھا اور نہ ہی قبر میں مجھے جرمن ایئرکنڈیشنر‘ جاپانی فریج‘امریکی موبائل فون اور سب سے بڑھ کر مطلب پرست رشتہ دار اور دوست میسر ہوں گے‘صرف سوکھی مٹی اور گھپ اندھیرا ہو گا اور یہی وہ دو چیزیں ہیں زندگی میں جن سے سب سے زیادہ الجھن ہوتی ہے اور بالآخر یہی دو چیزیں ہم سب کے حصے میں آتی ہیں۔کچھ دیر میں ایسی جگہ بتانا چاہتا ہوں جہاں میں دنیا کی اس شخصیت سے ملاقات کر سکوں جو میرے لئے واقعی سب سے زیادہ اہم اور قیمتی ہے‘ جس سے ملنے کا میں بچپن سے خواہشمند ہوں اور جس کو جانے اور سمجھے بنا میں دنیا جی سکتا ہوں نہ اگلی دنیا میں کچھ پا سکوں گا۔ جی ہاں۔ میں چاہتا ہوں میں خود سے ملاقات کر سکوں‘ میں اپنے آپ سے مل سکوں‘ اپنے آپ کو جان سکوں۔میں چاہتا ہوں اپنے آپ میں گم رہوں۔ اپنے آپ سے باتیں کروں۔ کچھ وقت اپنے لئے بھی نکالوں۔ کچھ اپنے بارے میں بھی سوچوں۔ میں کون ہوں۔ کیا چاہتا ہوں۔ کیا چاہتا تھا۔ کس لئے دنیا میں آیا۔ کیا کرتا رہا۔ کیا چاہیے۔ مجھے کیا پسند ہے۔ ان باتوں کے بارے میں سوچنے کیلئے اس روایتی زندگی میں تو میرے پاس فرصت ہے نہ وقت۔ جو زندگی میں جی رہا ہوں وہ تو لوگوں کی بتائی ہوئی ہے۔ میں خود کے بارے میں جاننے کیلئے آج تک خود سے پوچھنے کی ہمت بھی نہیں کر سکا ۔ سب مجھے بتاتے رہے ہم تمہیں تم سے زیادہ بہتر جانتے ہیں اور میں یقین کرتا رہا۔ بچپن میں پڑھا تھا یہ دنیا ایک کارخانہ ہے۔ آج یقین ہو تا ہے واقعی روز کسی بہت بڑے کارخانے میں آنکھ کھولتا ہوں۔ یہان بڑی بڑی جہازی سائز کی مشینیں ہیں۔ ان مشینوں کا کان پھاڑنے والا شور ہے۔ اوپر چھت سے تند و تیز روشنیاں آنکھوں کو چیرنے کے درپے ہیں۔میں کچھ ہی دیر میں خود کو ان مشینوں کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ رات جب تک سونے کا وقت نہیں ہو جاتا دیگر کروڑوں اربوں لوگوں کی طرح ان مشینوں میں ایک پرزے کی طرح میں بھی چلتا اور گھسٹتا رہتا ہوں۔میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں۔ حیران ہوتا ہوں ۔ مگر جب سب کو یہی کرتا دیکھتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں جب سبھی اس مشین میں ایک پرزے‘ایک نٹ بولٹ اور ایک گراری کی طرح گھسٹتے جا رہے ہیں تو میں بھی اسے معمول اور اسے ہی کامیابی خیال کرتا ہوں۔ یہاں تک کہ میرا سونے کا وقت ہو جاتا ہے اور زندگی کا یہ کارخانہ اگلے روز تک کیلئے موقوف ہو جاتا ہے۔ مگر اب تو اس مشینی زندگی سے بیزاری ہونے لگی ہے۔ اردگرد جو دیکھتا ہوں جو سنتا ہوں اس سے متعلق خیالات اور احساسات جس طرح مجھے اپنے آسیب میں لینے لگے ہیں مجھے تو سوچوں اور خیالات سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔یہ جو دماغ ہر وقت سائیں سائیں کرتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ دماغ سے کچھ دیر کیلئے معذرت کر لوں کہ وہ خیالات نہ پیدا کیا کرے اور نہ ہی مجھے بھیجا کرے۔ وہ بھی کچھ دیر سستا لے اور مجھے بھی رخصت دے۔ میں ان خیالات‘ ان وسوسوں سے نجات چاہتا ہوں۔سکون چاہتا ہوں۔ ٹی وی سے سکون۔ سوشل میڈیا سے ۔بریکنگ نیوز سے حتیٰ کہ سرگوشی میں بتائی گئی خبر سے بھی سکون۔ مجھے کسی خوشخبری کا انتظارہے نہ کوئی بری خبر سننے کا حوصلہ۔ جو بھی خوشخبری ملتی ہے کچھ ہی وقت کے بعد وہی خبر نارمل سی لگتی ہے اور دل دوبارہ بے چین ہو جاتا ہے۔نہ جانے بری خبریں آئے روز پیچھا کیوں کرتی ہیں۔ ٹی وی لگا لوں‘اخبار اٹھا لوں یا سوشل میڈیا پر چلا جائوں‘ کہیں خوفناک زلزلے سے تباہی کی داستانیں آ رہی ہیں‘ کہیں مہنگائی کے طوفان سے عوام زندہ درگور ہو رہے ہیں‘کہیں کوئی اندھی گولی کسی راہ چلتے کی جان لے رہی ہے‘ کہیں کوئی اپنا ہی حسد کے مارے جان لینے کے درپے ہے‘کہیں پٹرول چار سو اور ڈالر پانچ سو روپے پر جانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور کہیں کوئی اکیلا اور کوئی خاندان سمیت ملک سے زندہ بھاگنے کے منصوبے بنا رہا ہے اور یہ سب اتنی تیزی اور تواتر کے ساتھ ہو رہا ہے کہ کبھی کبھار اب یہ سب کچھ زیادہ عجیب نہیں لگتا بلکہ معمول دکھائی دیتا ہے کہ سبھی اس زندگی کے ساتھ جئے جا رہے ہیں۔ایسا کیوں ہوتا ہے ۔کیوں اس طرح کی کیفیت رہنے لگی ہے میں نہیں جانتا ‘لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں یہ کیفیت صرف میری نہیں بلکہ اَسی‘ نوے فیصد پاکستانی اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی یہی بیت رہی ہے۔ ان حالات میں وہ بھی شاید یہی کچھ سوچ رہے ہیں‘یہی کچھ سہہ رہے ہیں اور زندگی کی دلدل سے خود کو بچانے کیلئے دن رات ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ میں اس وقت بہت حیران ہوتا ہوں جب ایک وقت میں مجھے ایک شخص بہت خوش اور نارمل محسوس ہوتا ہے لیکن اگلے ہی لمحے یا اگلی ملاقات میں وہ انتہائی ناخوش اور بدلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
شاید یہ اس لئے ہے کہ ہر کوئی اپنی نہیں دوسروں کی زندگی میں جی رہا ہے‘ دوسروں کے خوابوں دوسروں کی آنکھوں میں اپنے خواب تلاش کر رہا ہے اور دوسروں کے کہنے پر اپنے سفر کی سمت تبدیل کر رہا ہے۔عجیب مذاق چل رہا ہے۔ ہر ایک دوسروں کے بارے میں جاننا چاہتا ہے‘ دوسروں کے گھروں‘ دوسروں کی جیبوں میں جھانک رہا ہے اوردوسروں کی اچھائیوں اور خامیوں کو کریدنے کے درپے ہے لیکن اپنے لئے کسی کے پاس وقت ہے نہ ترجیح۔ کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ انسان کا مقابلہ اپنے آپ سے ‘ اپنے گزرے ہوئے ماضی اور گزرے ہوئے کل سے ہوتا ہے۔ وہ کل کی نسبت اگلے روز جتنا بہتر ہوتا ہے کامیابی ‘خوشی اور اطمینان کی سیڑھیاں چڑھتا جاتا ہے لیکن ایسا وہی لوگ کر پاتے ہیں جو دنیا کے ساتویں براعظم کے آخری کنارے پر موجود شخص کی کامیابی کے راز یا کمزوریاں کھوجنے سے پہلے اپنے اندر چھپے ہوئے انسان سے ملاقات کرتے ہیں‘ اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس برق رفتار زندگی کی چکا چوند میں جس شخص کے پاس اپنے اندر جھانکنے کا وقت نہیں‘ وہ دنیا کے کروڑوں لوگوں ‘ اربوں چیزوں اور واقعات کا انسائیکلوپیڈیا بھی ازبر کر لے‘ وہ پھر بھی خود کو پیاسا‘نامکمل اور تشنہ ہی محسوس کرے گا۔