کینیڈا میں خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما اور کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ کے قتل کے بعد کینیڈا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی آ ئے روز بڑھ رہی ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے مطابق سکھ رہنما ہردیپ سنگھ کے قتل میں بھارت کی بدنامِ زمانہ ایجنسی 'را‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جس کے بعد کینیڈا نے اپنے ملک میں موجود 'را‘ کے سربراہ کو ملک بدر کر دیا جبکہ بھارت نے جوابی وار کرتے ہوئے سینئر کینیڈین سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ بھارت نے کینیڈا کے لیے ویزا سروس بھی معطل کر دی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک بھی محتاط پوزیشن لے رہے ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر مغربی اور اہم ممالک کینیڈا کا ساتھ دیں گے یا بھارت کا‘ ایک طرح سے یہ ان ممالک کا امتحان ہو گا۔ کینیڈین وزیراعظم کی طرف سے ردِعمل بھارت کے لیے حیران کن ہے۔ بھارت اور کینیڈا کے باہمی تجارتی تعلقات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا کینیڈین وزیراعظم اس معاملے کو اس حد تک لے جائیں گے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پر بھی اثر آنے لگے۔ کورونا وبا کے اثرات کی وجہ سے کینیڈا اور امریکہ سمیت پوری عالمی دنیا شدید معاشی دباؤ کا شکار ہے اور ابھی تک سنبھل نہیں پائی۔ امریکہ اور کینیڈا سمیت مغرب میں بھی مہنگائی کا طوفان تباہی مچا رہا ہے۔ کینیڈا نے حال ہی میں امیگریشن پالیسی میں نرمی کرتے ہوئے پانچ لاکھ افراد کو شہریت دینے کے لیے پروگرام اوپن کیا تھا جس کی وجہ سے دھڑا دھڑ پوری دنیا سے لوگ کینیڈا کا رخ کر رہے ہیں۔
کینیڈا کی کل آبادی چار کروڑ سے بھی کم ہے۔ اس میں بیس لاکھ کے قریب بھارتی بھی شامل ہیں جبکہ پاکستانی تین لاکھ کے قریب ہیں۔ بھارت اور کینیڈا کے درمیان جو حالیہ چپقلش چل رہی ہے اس کے نتیجے میں بھارتیوں کو کینیڈا کے ویزوں کے حصول میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کینیڈین وزیراعظم سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس واقعی ایسے ثبوت ہیں جن کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکے کہ اس قتل میں براہِ راست بھارت ملوث ہے تو جواب میں جسٹن ٹروڈو نے بااعتماد انداز میں اس امر کی تائید کی اور کہا کہ ٹھوس اطلاعات کے بعد ہی یہ ایکشن لیا گیا ہے۔
بھارت کا یہ چہرہ نیا نہیں۔ پاکستان تو ایک عرصہ سے دنیا کو بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں جاری جارحیت اور ناجائز قبضے بارے باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ افغانستان کی سرزمین بھی بھارت جس طرح سے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کی سرزمین پر حملوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال کرتا آیا ہے‘ وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں ہونے والے کئی بم دھماکوں اور دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی 'را‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں اور اس کے ثبوت پاکستان کئی بار دنیا کے سامنے رکھ چکا ہے۔ پاکستان ایک عرصہ سے دہشت گردی کی آگ میں جھلستا آیا ہے۔ دہشت گردی کی اس جنگ میں 80 ہزار سے زائد پاکستانی شہری شہید ہو چکے ہیں جبکہ دس ہزار سے زائد فوجی افسران و اہلکاروں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد ہونے والی عالمی جنگ میں بہت بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن بھارت نے پاکستان کے نازک حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مذموم سرگرمیوں میں اضافہ کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک وقت میں کئی محاذوں پر لڑنا پڑا۔ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا تھا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ تعلقات بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے اور اس کی ہر ممکن حد تک کوشش تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان نفرت کے بیج بو سکے اور انتشار کی فضا پروان چڑھا سکے۔ اس مقصد کے لیے اس نے افغانستان کی سرزمین کو اپنے ناپاک ارادوں کے لیے استعمال کیا۔ یہی کام اب وہ کینیڈا میں کر رہا ہے۔
بھارت سکھوں کی آواز اور خالصتان کی تحریک کو دبانے کے لیے سکھوں کا پیچھا کر رہا ہے اور کینیڈا جانے والوں کے خلاف بھی شرانگیزی سے باز نہیں آ رہا۔ سکھ ایک عرصے سے آزاد ریاست خالصتان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ خالصتان کا لفظ 1940ء میں سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد ساٹھ کی دہائی میں یہ مطالبہ سامنے آیا۔ اکالی رہنمائوں نے 1966ء میں لسانی بنیادوں پر سکھوں کی خودمختاری کا مسئلہ اٹھایا۔ 1970ء کی دہائی میں چرن سنگھ اور ڈاکٹر جگجیت سنگھ نے پہلی مرتبہ کھلے عام خالصتان کا مطالبہ کیا۔ 1980ء کی دہائی میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ خالصتان تحریک کی مؤثر آواز تھے۔ سکھوں کی مسلح تحریک کا پہلا مرحلہ گولڈن ٹیمپل پر حملے کے ساتھ ختم ہوا جو کمپلیکس کے موجود سکھ علیحدگی پسندوں کو مارنے کے لیے کیا گیا تھا۔ 1984ء میں ہونے والے اس آپریشن کو 'بلیو سٹار‘ کا نام دیا گیا تھا۔ بھارت بظاہر خود کو ایک سیکولر ملک کہتا ہے؛ تاہم اس کا چلن اور اس کے اقدامات اس کے یکسر منافی ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور جو بھی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے اس پر تشدد اور ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں سکھ کمیونٹی آخر آزاد خالصتان کا مطالبہ کیوں کرتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم سکھوں کو معاشی‘ سماجی اور ثقافتی حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ ہندو ازم کے علاوہ کسی اور دھرم کا شخص اس کی سرزمین پر کسی اہم عہدے پر پہنچے یا پھر کوئی غیرمعمولی کارنامہ سر انجام دے۔ اگر کوئی ایسا کر بھی لیتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی شروع کرکے اس پر بھارت میں زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ خالصتان کا مطالبہ صرف بھارت میں رہنے والے سکھوں تک محدود نہیں بلکہ اب خالصتان کا مطالبہ امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں رہنے والے بہت سے سکھوں کی طرف سے بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ بھارت کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان ممالک میں رہنے والے سکھ دہری شہریت رکھتے ہیں اس لیے ان کی آواز زیادہ پُر اثر ہے اور دور تک سنی جاتی ہے۔ ویسے بھی یہ سکھ اب ان ممالک کے اُسی طرح شہری ہیں جیسے ان کے اپنے لوگ‘ اس لیے ان کے دُکھ سُکھ کا خیال رکھنا ان ریاستوں کے لیے لازم ہے۔
ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کے ساتھ پوری طرح کھڑے ہوتے ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک ہی میں کیوں نہ ہوں اور چاہے انہوں نے کوئی جرم ہی کیا ہو‘ تب بھی وہ انہیں ان کے حال پر نہیں چھوڑتے بلکہ ان کے لیے وکیل کرنا اور انہیں مکمل قانونی رہنمائی اور مدد فراہم کرنے کیلئے تگ و دو کرتے ہیں۔ کینیڈین وزیراعظم نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ ان کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کا قتل ہوا ہے اور وہ اس معاملے کو غیر اہم سمجھنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ایک شہری کے لیے بھارت جیسے ملک سے سیدھی سیدھی ٹکر لی ہے اور معاملات ویزا سروس کی معطلی اور سفارت کاروں کو بے دخل کرنے تک جا پہنچے ہیں۔ اس موقع پر پاکستان کو اپنی سفارتکاری مزید متحرک کرنا ہو گی اور بھارت کے اس بزدلانہ فعل کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اس کے قبیح چہرے سے پردہ اٹھانا ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ جب تک کوئی زخم خود کو نہ لگے تب تک دوسرے کا درد محسوس نہیں ہوتا۔ پاکستان کب سے بھارتی در اندازی پر آواز بلند کر رہا تھا لیکن کینیڈا جیسے ممالک اس مسئلے پر توجہ دینے کو تیار نہیں تھے۔ اب بھارت کی کھلی اور شرانگیز مداخلت کے بعد کینیڈا سمیت دیگر مغربی ممالک کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہئیں۔