پرویز مشرف…آئے یا لائے گئے

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ تین نومبر کی ایمرجنسی پر وفاق کا کیا موقف ہے؟ کیا ان پر آئین کا آرٹیکل 6لاگو ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے تو کارروائی آگے بڑھے گی؟ اپنی بات شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو ماضی قریب کی ایک خبر سے آگاہ کرانا ضروری سمجھتا ہوں جس میں بتایا گیا تھا کہ سابق صدرپرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا‘ جس کے لیے اسلام آباد کے تھانہ سیکرٹریٹ میں درخواست جمع کرادی گئی ہے ۔علاوہ ازیں اُن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت لاہور ہائی کورٹ میں دائر رٹ درخواست پر حکومت سے جواب طلب کرلیا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے تین نومبر کے اقدامات کو عدلیہ کی جانب سے غیر آئینی قرار دیا جاچکا ہے اس لیے ان کے خلاف تین نومبر کے حوالے سے بھی غداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اس پر جسٹس شیخ عظمت سید نے کارروائی کرتے ہوئے حکومت سے آئینی وضاحت طلب کرلی ہے۔ جنرل پرویز مشرف دراصل ایک ٹکرائو اور ہنگامے کی پیداوار ہے، ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کا بانی یہ فوجی نوسال میں بریگیڈیئر سے صدر مملکت تک جاپہنچا جبکہ عام حالات میں صرف جرنیلی تک پہنچنے کے لیے کم ازکم 30سال پیشہ ورانہ سروس درکار ہوتی ہے۔ اقتدار سے ان کا اترنا دراصل ہماری بدنصیبیوں میں صرف ایک کی کمی کا باعث بناتھا ۔ چھ اکتوبر 2001ء کو آرمی چیف کی حیثیت سے ان کی مدت ملازمت ختم ہوگئی تھی۔ ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے بھی اُن کودس اگست 2003ء کو ساٹھ برس کی عمرتک پہنچنے پر ریٹائرڈ ہوجانا چاہیے تھا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں تمام آرمی چیفس تین سال تک فوج کی سربراہی کے بعد ریٹائرڈ ہوگئے سوائے جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف کے ۔علاوہ ازیں موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اپنی دوسری باری لے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے جو طویل تاریخی اور لاثانی فیصلہ سنایا تھا اسے پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل رہے گی۔ عدالت عظمیٰ نے 3نومبر 2007ء کو جنرل پرویز مشرف کی نافذ کردہ ایمرجنسی کو غیرآئینی ، غیرقانونی اور غیراخلاقی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہنگامی حالات کا اعلان کرنے کے بعد سابق صدر نے چیف جسٹس کی حیثیت سے عبدالحمید ڈوگر سمیت جتنے بھی ججوں کی تقرریاں کیں وہ ساری غیرآئینی اور غیرقانونی تھیں ۔یہی نہیں بلکہ اسلام آباد میں راتوں رات جو ہائی کورٹ قائم کردی گئی وہ بھی غیرقانونی قرار پائی ۔اس تاریخی فیصلے سے تین ماہ قبل ’’میں تو کسی سے نہیں ڈرتا‘‘ کہنے والا جنرل برطانیہ چلا گیا تھا ۔ اس پر اگلے ہی روز برطانیہ کے اخبار گارڈین نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کو غیرآئینی قراردیئے جانے کے بعد اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف پاکستان کے بارے میں بھول کر برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاریں گے۔ اسی دوران انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت کے جج رانا نثار احمد کے حکم پر پرویز مشرف کو اشتہاری ملزم قرار دے کر اخبارات میں اشتہارات شائع کرائے گئے ۔پرویز مشرف ،جسے بے نظیر بھٹو قتل کیس میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا ،کے تمام اثاثے اور جائیداد منجمد کرنے کی کارروائی کا آغاز کردیا گیا ۔ عدالت نے سابق صدر کی منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد سے متعلق تفصیلات بھی طلب کر لیں ،پرویز مشرف کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے اور حکم دیا کہ جب تک مشرف گرفتار نہیں ہوگا وارنٹ برقرار رہیں گے۔ جنرل صاحب اس وقت لند ن میں قیام پذیر تھے اور انہوں نے عدالت کے تمام نوٹسوں اور احکامات کو نظرانداز کردیا ۔انہی دنوں انہوں نے بین الاقوامی میڈیا کو انٹرویو دیئے جو آج تک جاری و ساری ہیں۔ لندن میں اسلحہ کے تاجر اپنے ایک دوست سے ایک مہنگا اپارٹمنٹ خریدا۔ اپنے پہلے انٹرویو میں ’’میں کسی سے نہیں ڈرتا‘‘ کی گردان کرنے والے آمر نے کہا ’’بیرون ملک مصروفیات بہت زیادہ ہوگئی ہیں اس لیے بار بار پاکستان آنے جانے کی بجائے باہر ہی رہنا چاہتا ہوں۔ ان دنوں میں ’’جمہوریت‘‘ پر لیکچر دے کر محظوظ ہورہا ہوں۔ ‘‘ ریٹائرڈ جنرل صاحب کو وردی اتارنے (جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے) پر تیس لاکھ اور پنشن کی مد میں ہر ماہ پچاس ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ ریٹائر ہونے پر جنرل صاحب کی جائیداد (پاکستان میں) کا تخمینہ لگ بھگ دوارب تک لگایا گیا ہے ۔لیکچروں اور انٹرویو ز سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تخمینہ لگانا اہل حساب کتاب کا کام ہے۔ جنرل پرویز مشرف یوں تو اپنے خلاف مقدموں میں خودکفیل ہیں تاہم سپریم کورٹ نے فوری طورپر ان پانچ درخواستوں کی سماعت شروع کردی ہے جن میں 2007ء میں آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف درخواست بھی شامل ہے ۔ان تمام خلاف ورزیوں پر مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمات چلانے کی درخواست کی گئی ہے۔ میرے حساب سے اگر پرویز مشرف بغاوت کے ان مقدمات میں سزاسے بچ بھی گئے تو اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد کا سانحہ اور کارگل آپریشن منہ کھولے کھڑے ہیں ۔اسی وجہ سے بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ پرویز مشرف ان حالات میں پاکستان آنے کا فیصلہ نہیں کریںگے لیکن وہ کس کے کہنے پر اور کس کی حمایت سے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں‘ اس کا راز جلد ہی کھل جائے گا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ عہد آمریت کے ان تمام نقوش کو مٹا دیا جائے گا جن کی وجہ سے مملکتِ خداداد کو پوری دنیا میں ذلت ورسوائی اٹھانا پڑی ۔دیکھنے والی نظریں دیکھ رہی ہیں کہ پاکستان ان نقصانات کی تلافی کے لیے کمربستہ ہے جو عدلیہ کی معطلی کے بعد قانون وانصاف کو یرغمال بنائے جانے کی وجہ سے ہوئے ۔انہی نقصانات میں ایک آمر کے غیرقانونی وغیرآئینی اقدامات بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مبصرین (جن میں میں بھی شامل ہوں ) کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی چلایا جاسکتا ہے۔ پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے سے پہلے ’’نظریہ ضرورت ‘‘ کے تحت اقتدار پر قبضہ کرلیا جاتا تھا۔آئندہ یہ نہیں ہونے دینا چاہیے ۔آمروں سے جمہوریت کی توقع رکھتا سورج سے پانی کشید کرنے کے مترادف ہے۔ آدھی صدی گزر گئی بالغ نہ ہو سکا اے کشور حسیں تری قسمت خراب ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں