زمین کی مرمت کون کرے گا؟

ایک خبر کے مطابق امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے دھرتی ڈے کے موقع پر نیویارک کے ایک ہوٹل میں وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’دنیا کے مستقبل کیلئے سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی نہیں بلکہ گلوبل وارمنگ ہے۔ہوسکتا ہے کہ دہشت گردی کے مزید حملے ہوں اور بیس برسوں میں ان حملوں کے دوران چھوٹے پیمانے پر کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیئر مواد استعمال کیا جائے لیکن دنیا میں کبھی کوئی قوم صرف دہشت گردی سے تباہ نہیں ہوئی۔‘‘ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل بل کلنٹن کے امریکہ سے ہی خبر آئی تھی کہ امریکہ اور گلوبلائزیشن دنیا کے لیے دہشت گردی اور جنگ سے بڑا خطرہ ہے۔ دنیا کو درپیش مسائل میں کرپشن دوسرے ؛تنازعات جنگیں اور دہشت گردی تیسرے ؛بھوک چوتھے ؛ ماحولیاتی تبدیلی پانچویں اور ناخواندگی چھٹے نمبر پر آتی ہے۔ یہ بات یونہی نہیں اڑا دی گئی تھی بلکہ بی بی سی ورلڈ کے عالمی ناظرین کے سروے سے سامنے آئی تھی جس میں اس ادارے نے اپنی خبروں اور عالمی چینل کے دو ہزار ناظرین سے سوال کیا تھا کہ آج دنیا کو جن ’’عالمی خطرات‘‘ کا سامنا ہے ان میں سب سے بڑا خطرہ کیا ہے؟ یورپ، ایشیا، شمالی و جنوبی امریکہ، مشرق وسطیٰ ،افریقہ اور آسٹریلیا سے 52.3 فیصد لوگوں نے امریکہ کی طاقت اور کرپشن کو سب سے زیادہ تشویشناک قرار دیاتھا۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ نے جنگوں اور دہشت گردی کو زیادہ تشویشناک بتایا۔ بی بی سی کے اس سروے میں یہ بات بھی پہلی بار سامنے آئی کہ جنگوں اور دہشت گردی کو پچاس فیصد، بھوک کو 49 فیصد، ماحولیاتی تبدیلی کو 44فیصد اور ناخواندگی کو 38فیصد نے سب سے بڑا عالمی خطرہ قرار دیا۔ جوہری طاقت کا حصول 38 فیصد کے ساتھ ساتویں اور اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم 36 فیصد کے ساتھ آٹھویں نمبر پر رہے۔ اسی طرح صحت و صفائی، پینے کے پانی کی عدم فراہمی 20فیصد کی رائے کے ساتھ بارہویں اور مائیگریشن نے 16فیصد کے ساتھ 16ویں پوزیشن حاصل کی۔ تجارتی رکاوٹیں 17فیصد کے ساتھ 15 ویں اہم مسئلے کے طور پر سامنے آئیں جبکہ افریقہ میں اسے چھٹا اور سائوتھ امریکہ میں نواں اہم مسئلہ قرار دیا گیا۔ بی بی سی ورلڈ سروس کے سربراہ نے یہ بھی کہا تھا کہ عالمی طاقتوں اور کرپشن کے بنیادی مسئلے کے طور پر سامنے آنے پر ہمیں تھوڑی حیرانی ہوئی تھی تاہم ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ یہ مسئلہ وقتی ہے یا طویل مدتی اثرات کا حامل ہے۔ بل کلنٹن کے بیان کو دیکھتے ہوئے مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ ان دنوں اہل زمین کیلئے سیاست سے زیادہ زمین کا ماحولیاتی نظام اہم ہورہا ہے اور یہ بات میرے حساب سے درست بھی ہے۔ کیونکہ ہم ایک ایسی دنیا میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یا کر دیئے گئے ہیں جو غربت کے روگ میں مبتلا ہے‘ غیر مساوی دولت کی تقسیم کے عذاب جھیل رہی ہے اور ہر دن ماحولیاتی آلودگی اور وارمنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔ زمین کے ماحول کو مغربی ممالک اور امریکہ کی اندھا دھند صنعتی مہم بازی اور بے لگام منافع خوری کی وجہ سے جو نقصان پہنچا ہے اس کی مرمت کی تمام تر ذمہ داری بھی مغرب پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف تو کائنات میں انسانوں کے واحد مسکن کرۂ ارض کو ناقابل رہائش بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف ایشیائی اور افریقی ممالک کے باشندے اس صنعتی جبر کی قیمت اپنی صحت اور زندگی سے ادا کررہے ہیں۔ جب امیر اور متمول ملکوں کو اپنی ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تووہ ان کی تلافی کیلئے مالی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں؛حالانکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نکاسی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ مغرب میں استعمال ہونے والی کاروں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اکیلے امریکہ میں موٹر کاروں کی تعداد اس ملک کی آبادی سے دُگنی ہے ۔گویا بل کلنٹن کے دیس کی سڑکوں پر دوڑنے والی کاروں کی تعداد 50 کروڑ سے زیادہ ہے ۔ان پچاس کروڑ کاروں کے سیاہ دھوئیں کی وجہ سے فضائی کرّہ گلوبل وارمنگ کی بیماریوں میں مبتلا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے اور مزید بڑھ رہاہے۔ قطب شمالی کی برف کے ساتھ ساتھ دنیا کی بلند ترین چوٹی ہمالیہ کی پانچ کروڑ سال سے جمی ہوئی برف بھی پگھلنے لگی ہے۔سیلاب بیشتر ملکوں کا مقدر بن گیا ہے۔ خود یورپ کے 15 ممالک بدترین سیلاب کی زد میں آچکے ہیں۔ گزشتہ سیلاب سے یورپی ملکوں کو 20 بلین یورو کا نقصان ہوچکا ہے۔ ادھر ایشیا میں موسموں کی گردش اس قدر بگڑ چکی ہے کہ مون سون ایک بے اعتبار موسم بن گیا ہے۔ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں قحط سالی نے اپنا جال بچھا رکھا ہے۔ فضائی آلودگی کے ساتھ قلتِ آب ایک معمول بن چکا ہے۔ قدرت کی بنائی ہوئی کروڑوں سال کی متوازن فضا اور ماحول کو مغرب نے دو سو سال کی چیرہ دستیوں سے پارہ پارہ کردیا ہے۔ افریقہ میں کروڑوں لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایشیا کے نیلے آسمانوں پر زہریلی گیسوں کے بھورے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ جب 1997ء کے ’’کیو ٹو معاہدے‘‘ کے تحت امریکہ سے کہا گیا کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نکاسیوں پر پابندی عائد کرے تو اپنے تجارتی مفادات کے پیش نظر اس نے صاف انکار کردیا۔ اس قسم کا امریکی رویہ’’ماحولیاتی بدمعاشی‘‘ کی ایک بہترین مثال ہے۔ نہ تو امریکہ زمین کے بہتر ماحول کی بحالی کیلئے اداروں کو رقوم دینا چاہتا ہے اور نہ ہی زمین کے صحت مند مستقبل کے کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری کیلئے تیار ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جس عالمی کانفرنس میں زمین کے مقدر پر گفتگو ہورہی تھی ، امریکی صدر اوبامانے اس میں شرکت نہ کی ۔وسیع پیمانے پر زمین کے قدرتی ماحول میں پیدا ہونے والی خرابی کے علاوہ صنعتی آلودگی نے بھی بڑے پیمانے پر بڑے المیوں کو جنم دیا ہے۔ یہ صنعتی آلودگی مغربی ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دین ہے جو اس دنیا کے چپے چپے کو نفع خوری کے لیے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ لیکن اس کے نتیجے میں پچھلے سال دنیا بھر میں صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کی صورتحال کے جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ گزشتہ بیس برسوں میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کے باوجود ترقی پذیر ملکوں کے 2.4بلین افراد اب بھی صحت و صفائی کے معیاری انتظامات اور 1.2 بلین افراد صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی سے محروم ہیں۔ ان حالات میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو بتانا چاہتا ہوں کہ ترقی پذیر ممالک کے باشندے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ دنیا میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنسیں‘ سمپوزیم‘ مذاکرے اور تقریریں دراصل متمول اور بڑے ملکوں کی طرف سے اکیسویں صدی میں ’’نو آبادی‘‘ نظام کا محض ایک فورم ہے۔ ایسے فورم سے کسی کو خیر کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟ جس کو چاہیں تباہ کر ڈالیں آج کل آپ کا زمانہ ہے!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں