اشرافیہ سیاسی ہو یا انتظامی‘ مملکتِ خداداد میں دونوں کے کردار ناقابلِ تردید تلخ حقیقتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ گورننس کو شرمسار کرنے سے لے کر میرٹ کو تار تار کرنے تک‘ قومی مفادات کو ذاتی فائدے کی بھینٹ چڑھانے سے لے کر قانون اور ضابطوں سمیت پالیسیوں کو اپنے تابع رکھنے تک‘ مالی و سماجی پس منظر ثانوی ہونے کے باوجود ہوشربا ٹھاٹ باٹ سے لے کر درجنوں فیکٹریوں‘ ملوں سمیت بیرونِ ممالک جائیدادوں اور وسیع و عریض کاروبار تک یہ سبھی ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا گٹھ جوڑ بنا چکے ہیں کہ ایک ہی سکے کے دو رُخ لگتے ہیں۔ وطن عزیز اشرافیہ کے لیے جنت اور عوام نما رعایا کے لیے جہنم بنا دیا گیا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں حالاتِ پریشاں کے سبھی مناظر اسی گٹھ جوڑ کی پیداوار ہیں۔ مملکت میں قانون اور ضابطوں سے لے کر پالیسیاں اور سبھی اقدامات اشرافیہ کی سہولت و مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔ جہاں اشرافیہ پر مشکل وقت آیا وہاں یہ سبھی مشکل کو ٹالنے کے لیے ہزار اختلافات کے باوجود سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ردِ بلا کے لیے وہ سب کچھ کرگزرتے ہیں جو اِن کی کھال اور گردن بچا سکے۔ پون صدی سے نسل در نسل مملکتِ خداداد پر حکمرانی کرنے والے ہوں یا اس کے وسائل پر موجیں کرنے والے‘ یہ سبھی وہ اشرافیہ ہیں جو عوام کی ناقابلِ بیان حالتِ زار کے براہِ راست ذمہ دار ہیں کیونکہ ملک عوام کا نہیں‘ اشرافیہ کا ہے۔
ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر لمحۂ موجود تک طرزِ حکمرانی کے جو جوہر عوام پر آزمائے جا چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں سیاسی اشرافیہ سے لے کر انتظامی مشینری تک سبھی کے منہ کو عوام کا خون لگ چکا ہے۔ اس لت میں لت پت یہ سبھی مل کر مملکتِ خداداد کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ عوام کی خستہ حالی کا کوئی اَنت نہیں ہو رہا۔ خدا جانے کیا چمتکار ہے کہ غریبوں کے لیے کام کرنے والے امیر سے امیر تر جبکہ غریب زندہ درگور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سیاسی دنگل ہو یا منڈی‘ صبح سے لے کر شام تک‘ شام سے لے کر رات اور پھر اگلی صبح تک شفٹوں میں درشن دینے والے یہ سبھی سیاسی رہنما عوام کے حالات اور مصائب سے بے نیاز وہ سبھی کچھ کیے چلے جا رہے ہیں جو پہلے سے درپیش عذابوں میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔ احساسِ عوام سے عاری سیاسی اشرافیہ اپوزیشن میں ہو یا برسراقتدار‘ اس کی سوچ کا محور صرف اقتدار ہے۔ یہ اسی سوچ کے طواف میں ساری عمر گزار دیتی ہے۔ کوئی حصولِ اقتدار کے لیے مرا جاتا ہے تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتا ہے۔ عوام نہ ان کی ترجیحات میں ہیں اور نہ ہی کسی ایجنڈے میں۔ انہیں تو اپنے اس دھندے سے غرض ہے جو یہ عوام کے نام پر نسل در نسل کیے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے سیاست عبادت نہیں تجارت ہے۔ اس تجارت کو منافع بخش بنانے کے لیے یہ اقتدار میں آتے ہیں اور خدمت کے نام پر عوام کی جو مرمت کرتے ہیں وہ ہم ایک عرصے سے دیکھ ہی رہے ہیں۔ ملک میں لگے سیاسی سرکس سے پیدا ہونے والی صورتحال سرکاری بابوؤں کے لیے کسی نعمت اور غنیمت سے ہرگز کم نہیں۔ سیاسی بازی گر اپنے کرتب دکھا رہے ہیں تو انتظامی بازی گر ایسے ایسے کمالات دکھا رہے کہ گورننس اور میرٹ کے معنی ہی الٹا کر رکھ دیے گئے ہیں۔ ایڈہاک افسران کی سربراہی میں کام کرنے والی پولیس اور انتظامیہ کے وہ جھاکے اتر چکے ہیں کہ الامان الحفیظ۔
اپنی دنیا سنوارنے کے لیے ایسے اجاڑے ڈالے جارہے ہیں کہ عام آدمی کے دن کا چین اور رات کی نیند دونوں ہی برباد ہیں۔ ریفارمز کے نام پر ڈیفارمز کے لگے جابجا ڈھیر عوام کو ڈھیر کیے ہوئے ہیں۔ جب اہم اور پیداواری عہدوں کے ریٹ کھولے جائیں گے تو عوام کو دادرسی بلامعاوضہ کیسے مل سکتی ہے۔ بے وسیلہ اور خالی ہاتھ آنے والا سائل میرٹ کے باوجود نامراد ہی رہتا ہے۔ مٹھی گرم نہ کرنے والے کا نصیب ٹھنڈا ہی رہتا ہے۔ کاموں کے دام طے ہیں۔ کام پارٹی کی مرضی کا چاہیے تو دام اتھارٹی کی ڈیمانڈ کے مطابق دینے پڑتے ہیں۔ ایسا اندھیر پڑا ہوا ہے کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف نظر آرہا ہے۔ پولیس اور انتظامی افسران کے درمیان عملی زندگی کے آغاز سے ہی مقابلے کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ کیریئر بنانے اور کام سیکھنے کے بجائے بڑی گاڑی‘ بڑا بنگلہ اور رئیل اسٹیٹ پر چوکے چھکے لگانے سے لے کر سہولت کاری کے عوض کبھی کسی ایک تو کبھی کسی دوسرے ڈیرے پر پائے جاتے ہیں۔
بزدار حکومت کے دور میں کئی لاڈلے افسران نئی شکار گاہوں پر اپنی اپنی مچان ڈال چکے ہیں۔ ہریالی اور خوبصورتی سے منسوب ادارے میں ایک بار پھر ٹوٹے ہوئے سلسلے جوڑ کر خسارے پورے کیے جارہے ہیں۔ افسران واپسی کے بعد مزید دیدہ دلیری کے ساتھ ماضی کے اپنے ہی ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی آلودہ اور گندی چادروں اور دیگر پارچہ جات کی دھلائی کے ٹھیکے میں ہاتھ رنگنے والے سرکاری بابو کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت انکوائری مکمل ہونے کے باوجود رپورٹ میں تاخیر کا فائدہ اٹھانے والے بھی خوب چوکے چھکے لگا رہے ہیں۔ انکوائری رپورٹ جاری ہونے تک سرکاری بابو اپنی دنیا سنوارتے اور عوام اُن کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے۔ اسی طرح انسدادِ ملاوٹ کے ذمہ دار افسران بھی خالص کام کرنے کے بجائے بڑی فوڈ چینز اور فیکٹریوں سے میل ملاپ اور تنوروں سمیت چھوٹے دکانداروں اور ہوٹل والوں کی زندگی اجیرن کیے ہوئے ہیں۔ دکاندار اتنی کمائی نہیں کرتے جتنا جرمانوں اور کاروبار کی بندش کی صورت میں خسارہ برداشت کرتے ہیں۔ محکمہ مال مال بنانے کو اور شہر کی صفائی پر مامور ہاتھ کی صفائی کو نصب العین بنائے ہوئے ہے۔ مال منہ کالا کرکے کمایا ہو یا ہاتھ رنگ کر‘ بنامِ دین مال بنایا ہو یا بنامِ وطن‘ سہولت کاری کی ہو یا ضمیر کو تھپکیاں دے کر سلایا ہو‘ بھتہ خوری کی ہو یا کمیشن وصول کی ہو‘ دھوکا دہی کی فنکاری ہو یا اخلاقی و سماجی قدروں کی گراوٹ‘ کسی کی دنیا اُجاڑ کر اپنی دنیا سنواری ہو یا دیگر غیرقانونی ذرائع سے دولت کمائی ہو‘ یہ سبھی کالے دَھن کے روپ بہروپ ہیں۔
اسی طرح سیاسی منڈی میں سبھی بیوپاری ہوں یا برائے فروخت عناصر‘ ماضی کے حکمران ہوں یا دور حاضر کے‘ کسی کے بارے میں کچھ بھی تو پوشیدہ نہیں رہا۔ ان کی نیتوں سے لے کر ارادوں اور آئندہ کے عزائم تک سب کھل کر سامنے آ چکے ہیں بلکہ ان کے کالے کرتوتوں سے بھری توڑی کی پنڈ سرِ بازار کھل چکی ہے جس کا تنکا تنکا ہوا کے دوش پر اڑتا ان کی اصلیت اور نیت کا پتا دے رہا ہے۔ عوام کو مسلسل تنبیہ کیے چلے جا رہا ہوں کہ اس منڈی کے بیوپاری ہوں یا سیاسی سرکس کے بازی گر‘ سبھی سے نجات کا یہ آخری موقع ہے۔ یہ وہ آخری موقع جو اشرافیہ نے عوام کو خود فراہم کیا ہے۔ ایک دوسرے کے پول کھولنے سے لے کر کالے کرتوت بے نقاب کرنے تک عوام کو ان سبھی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کیسا کیسا جواز اور ثبوت فراہم کیا گیا ہے۔ آزمائے ہوئے سبھی سیاسی رہنمائوں کا مکمل بائیکاٹ کرکے ہی ان سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ سبھی بازی گر نیا جال بھی تیار کر چکے ہیں اور عوام ایک بار پھر ان کے جھانسوں اور دھوکے میں آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ طرز حکمرانی اور مسلسل من مانی عوام کے لیے ہمیشہ عذاب ہی ثابت ہوئی ہے۔ ان سبھی سے نجات حاصل کرنے کے لیے قومی مفادات پر مبنی ایجنڈا تشکیل دے کر لانگ ٹرم ریلیف پلان لانا ہوگا۔ ورنہ یہ روپ بہروپ چلتے ہی رہیں گے۔