سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ بحال کرتے ہوئے کہا ہے کہ 12اکتوبر کی تحقیقات ہوتیں تو 3نومبر نہ ہوتا۔ گویا اعلیٰ عدالتیں آئین کی پامالی کو نہ صرف سنگین غداری گردانتی ہیں بلکہ مرکزی کردار کے انتقال کے باوجود خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا‘ تاہم 3 نومبر کو ایمرجنسی لگانے کے اقدام کے وقت شریکِ اقتدار وزیراعظم سمیت دیگر متعلقہ ذمہ داروں کے بارے میں تاحال قانون خاموش ہے۔ یعنی بلاشرکتِ غیرے حکمرانی کے جوہر دکھانے والے پرویز مشرف کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ خدا کرے کہ آئین کی اہمیت اور فوقیت پر مبنی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ وہ حفاظتی دیوار بن جائے کہ آئندہ کوئی بھی دیوار پھلانگ کر آئین سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ کئی ادوار میں نظریۂ ضرورت آئین میں وہ کاری ضربیں لگا چکا ہے کہ ضرورتمند اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق آئین کو موم کی ناک سمجھ کر مروڑتے رہے ہیں‘ کچھ فیصلے اور واقعات وہ استعارے اور اشارے ہوتے ہیں جو صرف سمجھنے والوں کے ہی پَلے پڑتے ہیں۔ عموماً ایسے عدالتی فیصلوں کی تشریح کچھ یوں کی جاتی ہے کہ یہ فیصلہ محض انہی فریقین سے متعلق ہے جو زیرسماعت رہے ہیں۔ مزید وضاحت اس طرح کرتا چلوں کہ تدفین کیلئے کسی جنازے کے ساتھ جانے والے اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ صرف مرنے والے کو ہی یہاں چھوڑنے آئے تھے۔ یہ سبھی تو تدفین کے بعد واپس جاکر اپنے اپنے معمول کے کاموں میں پھر سے مشغول ہو جائیں گے گویا موت کا فرشتہ مرنے والے کو ہی لینے آیا تھا جبکہ سبھی کو اپنی اپنی باری پر میت بھی بننا ہے اور تدفین بھی ہونی ہے۔ سبھی اسی مغالطے میں رہتے ہیں کہ مرنے والے کو اس کی آخری منزل پر پہنچا کر ہم زندگی کے جھمیلوں اور دھندوں میں یونہی مگن اور مشغول رہیں گے‘ نہ کوئی عبرت حاصل کرنے کو تیار ہے نہ سبق۔ سبھی اپنی اپنی دھن میں جھومے چلے جا رہے ہیں۔
عین اس طرح مملکتِ خداداد میں ہواؤں کے رُخ بدلنے سے لے کر وقت کے تیور بدلنے تک کے سبھی سبق آموز رنگین اور سنگین مناظر فراموش کرنیوالے بھی نجانے کس مغالطے میں ہیں۔ مخالفین کو درپیش عذابوں اور عتابوں پر بغلیں بجانے والے کس طرح انجان بنے پھرتے ہیں حالانکہ کم و بیش یہی مصائب اور عذاب وہ خود بھی بھگت چکے ہوتے ہیں لیکن لمحۂ موجود کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اسی گمان میں رہتے ہیں کہ شاید سب کچھ یونہی چلتا رہے گا۔ ہم یونہی منظورِ نظر‘ لاڈلے اور آنکھ کے تارے بنے موجیں مارتے شوقِ حکمرانی پورے کرتے رہیں گے۔ خوب سے ناخوب بنتے ہی جب اپنی خود فریبیوں کی پکڑ اور گرفت میں آتے ہیں تو کس طرح معصوم بنے واویلا کرتے اور دہائیاں دیتے پھرتے ہیں گویا زمانے بھر کے ستم انہی پر گرا ڈالے ہوں۔ جن اقدامات کو یہ مکافاتِ عمل سے منسوب کر کے مخالفین کے لیے قانون اور ضابطوں کے عین مطابق قرار دیتے ہیں جب خود بھگتنے پڑ جائیں تو سبھی عوامل کو انتقامی کارروائیاں اور ریاستی جبر قرار دیتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ کسی ہمسائے کے گھر آگ لگی ہو تو چند بوکے یہ سوچ کر ڈال دینے چاہئیں کہ کہیں یہ آگ آپ کے گھر تک نہ پہنچ جائے۔ ہمارے ہاں سیاسی اشرافیہ سے لے کر انتظامی مشینری اور عوام تک کچھ اس طرح تقسیم ہوتے چلے آئے ہیں کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں بدل کر رکھ دیا ۔ نفرت اور حقارت کا عالم یہ ہے کہ سامنے والے کا وجود تو درکنار اس کا ذکر بھی گوارا نہیں کرتے۔ جن کال کوٹھریوں سے نکل کر جیسے تیسے برسرِ اقتدار آتے ہیں‘ انہی کال کوٹھریوں میں مخالفین کو ڈال کر پھولے نہیں سماتے اور وقت کا پہیہ گھومتے ہی جب خود ایوان سے زندان میں آتے ہیں تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ راج نیتی کی دشمنیاں وطنِ عزیز کو وہ انگار وادی بنا چکی ہیں کہ ہر طرف آگ اور دھواں ہی دکھائی دیتا ہے‘ کہیں خاک اڑائی جا رہی ہے تو کہیں راکھ سمیٹی جا رہی ہے۔ کوئی حصولِ اقتدار کے لیے مرا جا رہا ہے تو کوئی طولِ اقتدار کے لیے جتن کر رہا ہے۔ کہیں آئین سے مسلسل انحراف جاری ہے تو کہیں قانون اورضابطے سرنگوں اور بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اخلاقی اور سماجی قدریں منہ چھپائے پھر رہی ہیں تو احترامِ آدمیت کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق بھی ناپید ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اقتدار کی دھینگا مشتی نے ملک کو اکھاڑا بنا ڈالا ہے۔ زور آزمائی سے لے کر سینہ زوری تک‘ دیدہ دلیری سے بے حیائی اور ڈھٹائی تک‘ من مانی کی حکمرانی سے لے کر میں نہ مانوں کی ضد اور ہٹ دھرمی تک‘ ماضی کے سبھی ریکارڈ اس طرح چکنا چور ہو چکے ہیں کہ 2018ء میں آنے والی تبدیلی سرکار نے وہ طرزِ سیاست متعارف کروائی کہ بغض اور کینے کے ساتھ ساتھ عناد کو دائمی رویہ ہی بنا ڈالا۔ بات چیت اور مذاکرات ‘ معاملہ فہمی‘ تحمل ‘ برداشت اور وضع داری کو حرام قرار دے کر نفرت کی وہ پنیری لگا ئی جو دیکھتے ہی دیکھتے خار دار جھاڑیوں کا گھنا جنگل بن گئی۔
2018ء میں ایوانوں سے اقتدار میں جانے والوں پر انصاف سرکار کے مشیر اور وزیر دھمالیں ڈالتے اور شادیانے بجایا کرتے تھے۔ مشیر احتساب شہزاد اکبر تو آئے روز درجنوں مائیک سجائے گھنٹوں احتساب نامہ پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ گورننس اور میرٹ کی درگت بنانے کے ساتھ ساتھ بندہ نوازی اور بندہ پروری کے علاوہ سرکاری وسائل پر شکم پروری کی بدعت کو دوام بخشنے کا سہرا بھی تبدیلی سرکار کے سر ہے جبکہ قیادت کی افتادِ طبع کا عالم یہ تھا کہ ان کی شعلہ بیانیاں اور بڑھکیں اصل اہداف اور حکمرانی کے اوصاف سے اس طرح بھٹکاتی چلی گئیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پٹری سے ہی اُتر گئے۔ مصاحبین گلے کا طوق بنتے چلے گئے تو طرزِ حکمرانی پاؤں کی بیڑی بنتی چلی گئی۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل مشیروں اور وزیروں نے ہلّہ شیری کے علاوہ گمراہ گن اعداد و شمار اور الفاظ کے گورکھ دھندے کو ہی گورننس سمجھ لیا۔ ہواؤں کے رُخ اور وقت کے بدلتے تیور کو بھانپنے کے بجائے اداروں کے ساتھ محاذ آرائی اور مزاحمت پر اُتر آئے‘ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے بجائے قومی اسمبلی چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے نتیجتاً کوئے اقتدار سے اس طرح نکلنا پڑا جیسے نواز شریف کو اقتدار سے نکالاتھا۔ ردعمل میں سیاسی راستہ اختیار کرنے کے بجائے گمراہ کن پروپیگنڈا کے ساتھ بیانیے کا جھنڈا لے کر نکلے تو بیانیہ اس طرح سپر ہٹ ہوا کہ مقبولیت کے کوہ ہمالیہ پر جابیٹھے۔ افتادِ طبع نے یہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا‘ مقبولیت کی بلندیوں سے لڑھکے تو پارٹی اس طرح تتر بتر ہوئی کہ ایوانوں میں موجیں مارنے والے زندانوں کے مکین بن چکے ہیں۔
اس تمہید اور تھیوری کا مقصد محض یہ باور کروانا ہے کہ راج نیتی کے اس معرکے میں ایک دوسرے کو انتقام اور عناد کی بھٹی کا ایندھن بنانے کے بجائے ان عوامل پر غور کریں جو ان سبھی کو باری باری ایندھن بنانے کا باعث ہیں۔ ایوان سے زندان اور زندان سے ایوان کا سفر اور دھکے کب تک؟ اگلی نسلوں کو اسی بھٹی کا ایندھن بنانا ہے تو یہ بدعت اور انتقام شوق سے جاری رکھئے۔ پہلے بھی عرض کر تا چلا آیا ہوں کہ نہ کوئی دودھ کا دھلا ہے اور نہ ہی کوئی نجات دہندہ۔ عوام ان کے ایجنڈوں اور دھندوں کی بھٹی کا ایندھن کیوں بنتے چلے آرہے ہیں جبکہ یہ سبھی شوقِ حکمرانی کے مارے اور ایک ہی سِکّے کے دو رُخ ہیں۔