"AAC" (space) message & send to 7575

عوام کی ضمانت ضبط رہے گی!

27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے سبھی مراحل طے پاچکے ہیں۔ ترمیم سے پہلے جو جانے اَنجانے تحفظات کا شکار تھے وہ سبھی احساسِ تحفظ سے سرشار اور نازاں دکھائی دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری 18ویں ترمیم کی وکٹ بچا کر جوشِ خطابت میں فرماتے ہیں کہ کسی کا باپ بھی 18ویں ترمیم کو ختم نہیں کر سکتا۔ اس پر فاروق ستار نے جواباً کہا ہے کہ بلاول سارے اختیارات لے لیں‘ بس 130 شہروں میں ممدانی دے دیں۔ وزیراعظم نے برادرِ کلاں نواز شریف کی قومی اسمبلی میں موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے انہیں سرخرو قرار دیا ہے۔ فیصل واوڈا نے تو کمال کا بیان دیا۔ فرماتے ہیں کہ چار ووٹ اب بھی ہماری جیب میں ہیں‘ جو 28ویں ترمیم کیلئے رکھ لیے ہیں۔ گویا ترامیم کے پے در پے پیوند آئین کو مفلس کی قبا بنانے کے در پے ہیں۔ ایسے میں فیض احمد فیض کا یہ شعر بے اختیار یاد آرہا ہے:
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
پارلیمنٹ میں ستائشِ باہمی اور تقریری مقابلہ دیکھ کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے نظارے کو دِل مچل اٹھا۔ ویب سائٹ پر دیے گئے جادوئی اعداد و شمار کی جمع تفریق کی تو علم ہوا کہ 2024ء کے عام انتخابات میں 6کروڑ 14 لاکھ 63 ہزار 993 ووٹ کاسٹ ہوئے۔ اس حساب سے ٹرن آؤٹ رجسٹرڈ ووٹوں کا 47.8 فیصد بنتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے 24.35فیصد‘ پیپلز پارٹی نے 13.03فیصد‘ ایم کیو ایم نے 1.38فیصد اور مسلم لیگ(ق) نے 0.97فیصد ووٹ حاصل کیے‘ مختصراً یہ کہ حکومتی جماعتوں کا مجموعی تناسب 39.73فیصد بنتا ہے اور یہ ووٹ وطنِ عزیز کی کل آبادی کا محض 9.65فیصد۔ گویا سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 9.65فیصد رائے دہندگان کی نمائندہ حکومتی جماعتیں 25کروڑ سے زائد آبادی کے سیاہ و سفید کی مالک قرار پاچکی ہیں۔ آئین میں ترامیم کے پیوند ہوں یا لگائی گئی ضربیں‘ سبھی نے مل کر جہاں آئین کا رنگ و روپ بگاڑ ڈالا ہے وہاں یہ عقدہ بھی اب کھل چکا ہے کہ آئینِ پاکستان عوامِ پاکستان کے تحفظ اور استحکام سے قاصر اور بے نیاز ہی رہا ہے۔
جہاں آئین نے عوام سے بدستور منہ موڑے رکھا ہے حالیہ ترمیم کے بعد اب عوام نے بھی آئین سے توقعات اور اُمیدیں ہٹا لی ہیں۔ جو آئین عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے لے کر پیٹ بھر روٹی اور سماجی و قانونی تحفظ دینے سے مسلسل عاری ہے‘ اس سے کیونکر امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ آئین کی دستاویز میں کوئی فقرہ‘ کوئی لفظ‘ کوئی ہندسہ‘ کوئی نقطہ ڈھونڈے نہیں ملتا جس نے عوام کو کچھ دیا ہو۔ گویا پوری کی پوری کتاب حاکمِ وقت کے تحفظ‘ استحکام اور تسلسل کے گرد ہی گھومتی چلی آرہی ہے۔ اپنے بھاشن اور تقریروں میں آیات اور احادیث کے حوالے دینے والے ان سبھی چیزوں کو آئین کی زینت بنائے چلے جا رہے ہیں جن کا اخلاقی‘ قانونی اور مذہبی جواز ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ معروف مذہبی سکالر جسٹس (ر) مفتی تقی عثمانی نے تو ترمیم کے نتیجے میں جوابدہی سے استثنا کو خلافِ شریعت قرار دیا ہے۔ انہوں نے ارکانِ پارلیمان سے بھی دردمندانہ درخواست کی تھی کہ وہ یہ گناہ اپنے سر نہ لیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کے واضح اور دوٹوک مؤقف کے باوجود ملک کے طول و عرض سے کسی عالمِ دین‘ کسی سکالر‘ کسی مفتی کی تائید اور توانا آواز سنائی نہیں دی۔ اب ایک نظر اپنے اسلاف پر بھی ڈال لیں۔ بھرے مجمع میں خطبے کے دوران خلفیۂ وقت حضرت عمر فاروقؓ سے ایک شخص نے جواب طلب کیا کہ مالِ غنیمت سے سب کو برابر کپڑا ملا تھا‘ اس کپڑے سے ہمارا سوٹ تو نہیں سِل سکا‘ آپ کا تو قد بھی ہمارے سے طویل ہے‘ پھر اس سے آپ نے کرتا کیسے سلوا لیا؟ موقع پر موجود حضرت عمرؓ کے بیٹے نے حاضرین کو وضاحت پیش کی کہ کپڑا واقعی ناکافی تھا نہ میرا کرتا بن رہا تھا نہ میرے والد کا‘ اس لیے میں نے اپنے حصے کا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔ خلفائے راشدین کے ایسے بے شمار واقعات کو ہم اپنی تقاریر میں تو دہراتے ہیں لیکن علمی زندگی میں ان سے کوسوں دور ہیں۔
مساوات کے معنی الٹا کر خواہشات اور ضروریات جب نظریہ بن جائیں تو سبھی ضرورت مند بنتے چلے جاتے ہیں۔ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کو تسلسل اور تحفظ کی ضرورت آن پڑے تو آئین‘ قانون اور ضابطے تابع اور سرنگوں رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہائبرڈ سسٹم ہی جب طے پاچکا ہے تو ہمیں کچھ اخلاقی اور قومی پابندیوں سے بھی چھٹکارا ضرور حاصل کر لینا چاہیے۔ مملکتِ خداداد کے سرکاری نام کو ہی لے لیجئے: پاکستان سے پہلے آنے والے دونوں الفاظ اب تک غیر مؤثر اور غیر متعلقہ ہی پائے گئے ہیں۔ جب طرزِ حکمرانی میں ان الفاظ کا کوئی عمل دخل ہی نہیں تو پھر ملک کے نام کو خواہ مخواہ مجہول اور طویل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ لہٰذا لفظِ پاکستان ہی پر اکتفا اور گزارا بنتا ہے۔ جس طرح حاجتوں اور ضرورتوں کو عصری تقاضوں میں ڈھال کر حکمرانی کی رِی ماڈلنگ کی جا رہی ہے‘ اسلامی اور جمہوریہ کے الفاظ کو بھی اب رخصت پر روانہ کر دینا چاہیے‘ جب تک کہ ہم ان کی لاج اور مان رکھنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔
ماضی کے ڈکٹیٹر ہوں یا جمہوریت کے لبادے میں چھپے آمر‘ سبھی خود کو مستقل‘ حتمی اور ناگزیر تصور کرتے رہے ہیں۔ ضیاء الحق کا 11سالہ دورِ اقتدار ہو یا پرویز مشرف کا نو سالہ دور‘ کسی کو اپنی کرسی کی مضبوطی پر ناز تھا تو کسی کو یہ زعم کہ وہ ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘ آغاز سے انجام تک عبرت کے سوا کچھ نہیں۔ نیتِ بد سے شروع ہونے والا کارِ بد بھلے کتنا ہی طویل ہو جائے‘ انجام رسوائی ہی پر ہوتا ہے۔ جمہوری چیمپئنز نے بھی اپنے اپنے ادوار میں جمہوریت کا وہ حشرنشر کیا کہ ا ب کوئی ضابطہ حیات ہے نہ ہی قانون و آئین کی پاسداری‘ ہرطرف من مانی کی حکمرانی کا دوردورہ ہے۔ نہ تو اسلامی معاشرہ تشکیل پا سکا اور نہ ہی جمہوریت سے فیض یاب ہو سکے۔ نہ کوئی ضابطہ حیات نافذ کرسکے اور نہ ہی کوئی ضابطہ اخلاق۔ جو حال یہ حکمران مملکتِ خداداد کا کرتے چلے آئے ہیں اس کے چلتے پھرتے زندہ مگر شرمناک مناظرجا بجا‘ ہرسو ان کی طرزِ حکمرانی کا منہ چڑاتے پھررہے ہیں۔ 27ویں آئینی ترمیم کے بعد مزید ترامیم کا عندیہ پہلے ہی مل چکا‘ ایسے میں برادرم شعیب بن عزیز کا یہ شعر حسبِ حال ہے:
خبر ہم کو بھی تھی‘ مرنا پڑے گا عشق میں لیکن
ہمیں اس نے توقع سے زیادہ مار ڈالا ہے
27ویں ترمیم کی کوکھ سے جنم لینے والے استثنا کے نقطے ملائیں تو قانون اور ضابطوں کی وہ شکل دکھائی دیتی ہے کہ جو تگڑے کو پوچھ نہ سکے اور ماڑے کو مارے بغیر نہ چھوڑے۔ خیر یہ سبھی کچھ تو نجانے کب سے چلتا آرہا ہے‘ تگڑے سے پہلے کون سا کسی نے کچھ پوچھ لیا؟ ماضی میں تھوڑی بہت پوچھ گچھ کے بعد مہنگے کیسوں میں دھر لیے جانے والے سبھی سستے میں چھوٹ کر ایوانوں میں براجمان ہیں۔ استثنا تو انہیں ہمیشہ ہی سے حاصل رہا ہے‘ہاں! اس کا سرکاری اعلان اب ہوا ہے۔ ناقابلِ ضمانت اور سنگین الزامات پر مبنی کیسز میں کوئی پکڑا جائے یا ملک و قوم سے بے وفائی اور بدعہدی کے جرم میں دھرا جائے‘ سبھی کو ریلیف اور ضمانتیں ملتی آئی ہیں؛ البتہ ان سبھی نے مل کر عوام کی ضمانت ضرور ضبط کر رکھی ہے۔ جب تک عوام کی ضمانت ضبط رہے گی یہ سبھی ضمانتوں اور استثنا سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں