"AAC" (space) message & send to 7575

اَج وی سنہ 47ء اے

جہاں ملک کے طول و عرض میں سبھی چارہ گر چارہ گری سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں وہاں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چارے کی فراہمی کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کیے ہیں‘ چلو چارہ گری نہ سہی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مویشیوں کو چارہ تو میسر آئے۔ حالیہ تباہ کن سیلاب جہاں دردناک انسانی المیے کا باعث بنا ہے وہاں مویشیوں سمیت پالتو چرند پرند پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں جس زور و شور سے بحالی کا کام جاری ہے ان سبھی کے فلمائے گئے مناظر دیکھ کر لگتا ہے کہ آئندہ سول اعزازات کا بڑا حصہ تو وزیروں مشیروں سمیت وہ سرکاری بابو لے اُڑیں گے جو اس ریسکیو مشن میں پیش پیش ہیں۔ حالیہ چند برسوں میں سول اعزازات نوازنے کا جو معیار اور حد دیکھنے میں آئی ہے اس تناظر میں سیلاب زدگان کی بحالی سے منسوب سبھی کردار اور چہرے یقینی طور پر حقدار قرار پائیں گے۔ ایسی صورتحال میں جہاں تمغوں کی تیاری ایک بڑا مرحلہ ہو گا وہاں یہ پُروقار تقاریب ایوانِ صدر اور گورنر ہاؤسز کے بجائے کسی بڑے اور کھلے میدان میں منعقد کرنا پڑیں گی۔ اگر سیلابی تمغے جاری کیے گئے تو تعداد سینکڑوں کے بجائے ہزاروں تک بھی جا سکتی ہے اور ان تمغوں کے وقار میں چار کے بجائے چار پانچ سو چاند لگنے کا امکان بھی برابر روشن ہے۔ وہی مجہول سیاست‘ وہی گھسے پٹے رَٹے رٹائے جملے ہوں یا تسلیوں میں لتھڑے جھانسے اور دلاسے‘ سبھی سے دل اُوب سا گیا ہے۔ خدا جانے کیسی سیاہ بختی ہے جس کی کالک اتارے بھی نہیں اتر رہی۔ جس طرح ووٹ کی سیاہی عوام کے چہروں پر ہر دور میں نمایاں اور تازہ نظر آتی ہے اسی طرح بخت کی سیاہی بھی نسل در نسل پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ قیامِ پاکستان کے اوائل برسوں سے لے کر لمحۂ موجود تک کسی سال کا کوئی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں حالات اور مسائل کا ماتم جوں کا توں ہے۔ وہی خبریں‘ وہی بیانات‘ وہی بھاشن‘ وہی لارے‘ وہی وعدے‘ وہی جھانسے اور وہی رونا دھونا پون صدی سے جاری ہے‘ پچاس سال پرانی خبر آج بھی تازہ اور حسبِ حال لگتی ہے۔ بیس روپے من آٹا‘ اس پر بھی ہے سناٹا جیسی مزاحمتی شاعری سے لے کر چینی چوروں سے منسوب اخباری سرخیاں ہوں یا طرزِ حکمرانی‘ سبھی کردار اور چہروں کی تبدیلی کے ساتھ رواں دواں ہیں۔ باپ کے بعد بیٹا تو کہیں دادا کے بعد پوتا اس سیاہ بختی کی سیاہی کو عوام کے منہ پر ملے جا رہا ہے۔ تقسیم کے وقت آبادکاری کے کڑے مراحل اور خیمہ بستیوں میں راشن کی تقسیم سمیت سبھی دردناک مناظر آج بھی جوں کے توں جاری ہیں۔ یعنی روزِ اوّل سے لگی خیمہ بستیوں اور بے سروسامانی کا ایکشن رِی پلے ہر دور میں کئی اضافوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ گویا:
رات اَجے وی کالی اے ؍ اَج وی سنہ47ء اے
سندھ کے لاچار اور مصیبت زدہ سیلاب زدگان کی آنکھوں میں روٹی‘ کپڑا اور مکان کی دھول آج بھی جھونکی جارہی ہے۔ متاثرین کو امدادی کارروائیوں کے دوران بلاول بھٹو کمالِ اطمینان سے باور کروا رہے ہیں کہ وہ اپنے نانا کے وعدے کی تکمیل کرنے آئے ہیں۔ گویا نصف صدی بیت چکی اور حکمرانی کی تیسری نسل آگئی مگر نانا کا وعدہ ہے کہ پورا ہونے کو نہیں آرہا۔ نانا کے دور میں روٹی‘ کپڑے اور مکان کے لالے تھے تو موجودہ دور کے اُجاڑے آج بھی کئی اضافوں کے ساتھ مزید اُجاڑ پھیرتے چلے جا رہے ہیں۔ زندہ قوم کے سبھی دیرینہ آلام و مصائب آج بھی زندہ درگور کیے ہوئے ہیں۔ جہاں قدرتی آفات و حادثات سیزن کا سماں پیش کرنے لگیں وہاں بھوک اور بیماری بھی اکانومی سے کم نہیں ہوتی۔ یہ سیدھا سادہ اور دو جمع دو کا فارمولا ہے کہ حکومتیں صبح شام عوام کی ترقی‘ خوشحالی اور بحالی کے لیے کوشاں ہیں‘ سرکاری بابو دن رات ایک کیے ہوئے ہیں‘ وسائل اور مشینری رکنے میں نہیں آرہے لیکن نتائج صفر کیوں ہیں۔ حکومتی کاوشوں کا جس زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اس کا نصف بھی سچ ہو جائے تو یقین مانیے حالات مایوس کن اور بدحالی مستقل روگ کیونکر بن سکتی ہے۔ عوام کی خستہ حالی کے نقطے ملائیں تو بننے والی اشکال بتاتی ہیں کہ سماج سیوک نیتاؤں اور سرکاری بابوؤں کی ہوشربا ترقی اور حیرت انگیز خوشحالی عوام کی حالتِ زار کے ہی مرہونِ منت ہے۔ جب تک ان کے تام جھام اور موج مستی چلتی رہے گی عوام یونہی دربدر اور رلتے رہیں گے۔
مفادِ عامہ کے منصوبے ہوں یا آفات و حادثات کے ریلیف پیکیج‘ ان سبھی میں عوام کا حصہ تو بس نمائشی ہے۔ تعجب ہے اربوں کھربوں روپے سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ بھی ہو رہے ہیں اور بدحالی سے بحالی کا سفر ابھی شروع بھی نہیں ہو پارہا۔ سرکاری خبروں سے تو لگتا کہ حکومت نے سیلاب کے نہ صرف کان پکڑوا دیے ہیں بلکہ اسے اس تباہی پر چھوٹی موٹی سزا بھی سنا دی ہے اور شدید حکومتی ردعمل اور آہنی ہاتھ دیکھنے کے بعد سیلاب اپنی تباہی اور بربادی پہ شرمندہ اور معذرت خواہ ہے۔ سرکاری بابوؤں نے سیلاب سے شاید کوئی معافی نامہ بھی لکھوا لیا ہو۔ ہم نے تواتر سے آنے والے سیلابوں اور آئے روز کے حادثات سے نہ کبھی ماضی میں کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی آئندہ یہ زحمت کرنے کا کوئی ارادہ دکھائی دیتا ہے۔ بات چلی تھی قیامِ پاکستان کے اوائل دنوں سے جڑے مسائل اور ان کے تسلسل سے‘ 78برس گنوا چکے اور آنے والے برسوں میں بھی یہ مستقل مزاجی‘ قومی مزاج کا ٹائٹل رہے گی۔
سنہ47ء سے نکلنے کا جو فارمولا میاں عامر محمود صاحب نے دیا ہے‘ آنے والے دنوں میں وہ تحریک بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ دو مرتبہ صوبائی دارالحکومت کے فادر آف سٹی رہنے والے میاں عامر محمود صاحب عام آدمی کو درپیش مسائل کو بخوبی جانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑے صوبوں میں عام آدمی کی شنوائی ممکن نہیں رہی۔ گورننس کے مسائل کا حل نئے صوبوں کے قیام میں پوشیدہ ہے۔ جب تک نئے صوبے نہیں بنیں گے اس بوسیدہ نظام سے نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ 79واں سال چل رہا ہے اور ہم پبلک ویلفیئر فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انقلاب کے بجائے شعور پر فوکس کرنا ہو گا۔ بھارت مستقل نئے صوبے بنا رہا ہے اور ہم گورننس کے اس ماڈل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ 18ویں ترمیم سے حقیقی استفادہ مزید صوبوں کے قیام ہی میں مضمر ہے۔ من مانی کی طرزِ حکمرانی روز بروز نئے صوبوں کی ضرورت میں شدت کا باعث ہے۔ بلدیاتی نظام تو ویسے ہی لپیٹ ڈالا ہے۔ خدا جانے جمہوری چیمپئن برسرِ اقتدار آنے کے بعد بنیادی جمہوریت سے خائف کیوں رہتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں گورننس کا یہ ماڈل اس طرح بیک فائر کرے گا کہ سسٹم میں لگائے سبھی شارٹ کٹ شارٹ بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ عوامی مسائل کا پریشر ککر پھٹنے کو ہے۔ نئے صوبوں کی تھیوری پر سنجیدہ اور دردِ دل رکھنے والے جہاں متحرک ہیں وہاں شوقِ حکمرانی کے مارے ان سے خائف بھی ہیں۔ اس خیال کو تکمیل اور خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنے کے لیے ہم خیال محب وطن حلقوں کو متحرک کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ محمد علی درانی سرائیکی صوبے کے قیام کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ نئے انتظامی ڈویژنز اور صوبوں کی تجویز اس تھیوری کی قابلِ عمل ایکسٹینشن اور سنہ 47ء سے نکلنے کی ایک عملی کاوش ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں