مملکتِ خداداد کے کتے بھی شکر بجا لاتے اور یقینا نازاں بھی ہوں گے کہ ان کی زندگیوں کو عدالتی اور حکومتی تحفظ حاصل ہے۔ کس کی مجال کہ گلی‘ محلوں اور شاہراہوں پر غول در غول دندناتے آوارہ کتوں کو میلی آنکھ سے دیکھ بھی لے‘ کتے خواہ کسی راہ چلتے کو کاٹ کھائیں یا بھنبھوڑ ڈالیں۔ حالیہ چند سالوں سے لے کر لمحۂ موجود تک سگ گردی کے ایسے ایسے دردناک اور بھیانک واقعات گورننس کے منہ پر بدنما داغ ہیں جنہیں دھونے کے بجائے انہیں مزید سیاہ اور بڑا کرنے کی انتھک کوشش جاری ہے۔ وطنِ عزیز میں بسنے والے انسان کو وہ اعزاز اور استحقاق حاصل نہیں ہے جو آوارہ اور باؤلے کتوں کو عطا کر دیا گیا ہے۔ آئے روز ماورائے عدالت پولیس مقابلوں میں مارے جانے والوں کی خبریں ہوں یا ناحق ہلاکتیں اور قتل وغارت گری‘ سبھی روز کا معمول بن چکا ہے لیکن کسی آوارہ کتے کی ہلاکت کی خبر کہیں پڑھی نہ سنی۔ ڈیرہ غازی خان کے سکول میں بارہ سالہ بچے کو آوارہ کتوں نے وحشیانہ حملے میں کس طرح بھنبھوڑ ڈالا تھا۔ ماں نے کس قدر چاؤ سے اپنے لعل کو اُجلا یونیفارم پہنا کر سکول روانہ کیا تھا‘ اس ماں نے کس دل سے خون میں لت پت اپنے لختِ جگر کا معصوم لاشہ دیکھا ہوگا۔ باپ نے اپنے پھول کے جنازے پر کس طرح پھول چڑھائے ہوں گے۔ کراچی سمیت اندرونِ سندھ میں سگ گردی سے بھنبھوڑے جانے والے معصوم بچوں اور مرد وزن کا ماتم تو کئی سالوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن اب یہ جان لیوا عذاب کافی عرصے سے لاہور سمیت پنجاب بھر میں روز بروز دہشت ناک ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سگ گردی کے دلخراش واقعات کی تفصیل میں جائیں تو ایسے کئی کالم ناکافی ہوں گے۔ جماعت اسلامی کے قیصر شریف جہاں دیگر سماجی مسائل کی نشاندہی کرتے چلے آ رہے ہیں وہاں آوارہ سگ گردی کے شکار افراد کے بارے میں بھی وہ ہوشربا اعداد وشمار منظرِ عام پر لائے ہیں جو اچھے اچھوں کے حواس گم کرنے کیلئے کافی ہیں۔ لاہور کی 274 یونین کونسلوں میں اوسطاً ہر یونین کونسل پر کم وبیش 219 کتے راج کر رہے ہیں۔ 2024ء میں آوارہ کتوں نے پنجاب بھر میں ایک لاکھ 74 ہزار سے زائد افراد کو نشانہ بنایا۔ سالِ رواں میں یکم فروری سے 15مارچ تک‘ صرف ڈیڑھ ماہ میں سگ گزیدگی کے 35ہزار کیس سامنے آئے‘ جن میں 700کیس صرف لاہور میں رپورٹ ہوئے۔ 2025ء کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ کے اعداد وشمار اس قدر ہولناک ہیں تو سال کے اختتام تک ان کتوں نے کیا گہرام پرپا کرنا ہو گا‘ اس کا اندازہ لگانے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ 35 ہزار کیسز کو اسی تناسب سے ضرب دیں تو اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اس وقت لاہور کی 274 یونین کونسلوں میں تقریباً 60 ہزار آوارہ کتے خوف اور دہشت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کے انتخابی حلقے میں 21 جون کو چھ سالہ بچی ان آوارہ کتوں کا شکار بن کر جان سے چلی گئی۔ 8 جولائی کو لاہور میں اچھرہ‘ رحمان پورہ میں چار سالہ بچے کو آوارہ کتوں نے بھنبھوڑ ڈالا۔ باغ جناح کے اندر سیر کیلئے آنے والے ان آوارہ کتوں کے سبب آئے روز گھائل ہوتے رہتے ہیں۔ گلبرگ سمیت شہر کے سبھی علاقوں میں کتوں کی بھرمار ایک طرف جبکہ روز بروز اضافہ دہرے عذاب کا باعث ہے۔
22 مئی 2025ء کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں ''آوارہ کتوں کو مارنا غیر قانونی اور غیر آئینی قرار‘‘ دیا گیا ہے۔ قبل ازیں سندھ میں سگ گردی کے خلاف شدید عوامی ردِعمل پر آصفہ بھٹو نے حکومتی اداروں کو خبردار کیا تھا کہ ''کسی آوارہ کتے کو مارنا بے رحمی تصور ہوگا‘‘۔ تاہم انسدادِ بے رحمی کے تحت سبھی کتوں کو لائسنس ٹو کِل یونہی حاصل رہے گا۔ عدالتِ عالیہ کا حکم سر آنکھوں پر‘ معزز عدالت نے آوارہ کتوں کیلئے رحمدلانہ فیصلہ تو جاری فرما دیا لیکن یہ معمہ تاحال حل طلب ہے کہ ان کتوں سے متاثرہ اور گھائل عوام کو بھی قانون اور آئین کوئی تحفظ تو دیتا ہی ہوگا‘ اگر ایسا ہے کہ تو یہ امر مزید تشریح اور وضاحت طلب ہے۔ جانوروں سے ہمدردی بجا طور پر مہذب سوچ کی عکاس ہے لیکن عوام اور کتوں کو آمنے سامنے لا کر حکومت اور ذمہ دار ادارے کیونکر لاتعلق رہ سکتے ہیں؟ گویا کتا جانے اور کتے کا شکار جانے۔ کتے اپنا شکار بھی کہاں جانے دیتے ہیں‘ کوئی نرغے میں آ جائے تو باجماعت حملے سے کوئی کیسے اور کہاں تک بھاگ سکتا ہے۔ ہر گلی‘ محلے میں درجنوں کتوں کیلئے جب تک حکومت کسی لنگر کا اہتمام نہیں کرے گی تب تک یہ اپنی بھوک مٹانے کیلئے راہ چلتے شہریوں ہی کو بھنبھوڑیں گے۔ سکول کے اندر بارہ سالہ بچی کی فلک شگاف چیخیں ہوں یا قصور کے معصوم بچے کی آخری ہچکی‘ سبھی دلخراش واقعات کے بارے میں لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کتوں کو حکومتی تحفظ اور کاٹ کھانے کی کھلی چھٹی کے بعد یہ اشعار بجا طور پہ حالات کی عکاسی کر سکتے ہیں:
آدمی کی موت پر محظوظ ہوں گے جانور
کیا خبر تھی یہ مقولہ یوں بھی دہرایا جائے گا
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
میری ان آوارہ کتوں سے نہ تو کوئی پرانی دشمنی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کسی سازش کا ارادہ ہے۔ حکومتی سقراطوں اور بقراطوں سے لے کر سبھی عالی دماغ مشیروں اور بابوؤں تک کو یہ سنگین مسئلہ سرے سے مسئلہ ہی نہیں لگتا۔ جو تحفظ اور ہمدردی ان کتوں کو حاصل ہے‘ اے کاش! اس کا نصف ہی مملکتِ خداداد میں بسنے والی مخلوق کو میسر آ جائے‘ ایسا ہو جائے تو بخدا مایوسی کی پھٹکار کم ہو سکتی ہے۔ کئی ممالک میں کتوں کی خاصی ڈیمانڈ ہے اور یہ مرغوب غذا تصور کیے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ان کتوں کی مارکیٹنگ کی جائے تو یقینا پہلی کھیپ کے بعد ہی آوارہ کتے ناپید ہو سکتے ہیں۔ جن معاشروں میں انہیں غذائی سوغات سمجھا جاتا ہے وہاں ان سبھی کو برآمد کر کے چار پیسے کمانے کے علاوہ عوام کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
کتوں سے محبت اس قدر بھاری ہے کہ عوام کا پلڑا ہلکا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جو قانونی اور آئینی تحفظ ان آوارہ کتوں کو حاصل ہے اس کا کچھ حصہ دَان سمجھ کر ہی عوام کو دے دیا جائے تو کتے اور انسان میں پایا جانے والا فرق کسی حد تک مٹایا جا سکتا ہے۔ حکومت کتوں کی برآمد میں اگر سنجیدہ ہو تو ہر یونین کونسل سے سینکڑوں کتے ایکسپورٹ کر سکتی ہے۔ صرف لاہور کی 274 یونین کونسلوں سے 60 ہزار سے زائد کتے دستیاب ہیں تو باقی پنجاب اور پورے ملک کا اندازہ تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ گلی محلے کے ان کتوں کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانے کیلئے آزمائش شرط ہے۔ اس کارآمد فارمولے میں تاخیری حربوں سے مالی نقصان تو کیا جا سکتا ہے مگر سگ گردی کے واقعات میں تشویشناک اضافے کا خدشہ بھی برابر لاحق ہے‘ لہٰذا دستیاب اور تیار مال پر اکتفا کیا جائے اور انہیں اُن ممالک میں پہنچانے میں ہرگز تاخیر نہ کی جائے جہاں انہیں سوغات کے طور پر قبول کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ واقفانِ حال کو یاد ہوگا کہ موٹروے کی تعمیر کے دوران گردونواح میں کتے کیوں ناپید ہو گئے تھے؟