اب تک سیاسی سرکس کے کرتب اور کھیل تماشے رَش لینے کے بجائے شائقین اور تماش بینوں کی راہ تک رہے ہیں‘ کھڑکیاں ویران اور پنڈال میں دھول اُڑ رہی ہے۔ نیت اور ارادوں کے علاوہ سبھی بھید بھاؤ اس طرح کھل چکے ہیں کہ متوقع منظرنامہ بظاہر تو صاف نظر آرہا ہے لیکن راج نیتی کے کھیل میں کچھ بھی حتمی اور مستقل نہیں ہوتا۔ وقت اور ضرورت کے پیشِ نظر ترجیحات اور اہداف بدلتے رہتے ہیں۔ ڈرامائی تبدیلیوں سے لے کر اَنہونی کو بھی خارج از امکان نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں تو حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے آئین‘ قانون اور ضابطوں سمیت سماجی و اخلاقی اقدار کی بھی پروا کیے بغیر بس کر گزرتے ہیں۔ خاطر جمع رکھیں! کہانی کے کئی باب اور موڑ ابھی باقی ہیں‘ کون سا باب کہاں کھلتا اور کہانی کیا رُخ اختیار کرتی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ مستقبل قریب کی شاہراہ پر جابجا دکھائی دینے والے سنگِ میل اچھا شگون اور گمان ہرگز نہیں دکھا رہے۔
نئی بساط کے لیے جنہیں بادشاہ اور وزیر تصور کیا جا رہا ہے‘ وہ مہروں اور پیادوں کی طرح نجانے کتنی بار پٹ چکے ہیں لیکن شوقِ حکمرانی ہے کہ مجبور کیے رکھتا ہے۔ اپوزیشن میں ہوں تو نجانے کیسی کیسی بیماریاں لیے لڑکھڑاتی ٹانگوں اور کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ وہیل چیئرز پر نظر آتے ہیں لیکن جونہی کوئے اقتدار میں داخل ہوتے ہیں‘ سارے عارضے اور کمزوریاں اس طرح اُڑن چھو ہوتی ہیں گویا کسی نے جادو کر دیا ہو۔ اصل جادو اور کمال تو اقتدار کا ہے‘ اختیار اور طاقت کا نشہ بھی کیا شے ہے جوں جوں چڑھتا چلا جاتا ہے‘ توں توں لڑکھڑاتی ٹانگیں اور کپکپاتے ہاتھ تندرست و توانا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جو چلنے سے عاجز نظر آتے تھے ان کی دوڑ بھاگ اور نان سٹاپ سیاسی سرگرمیاں خون جما دینے والی سردی میں بھی بلا تکان جاری ہیں۔ الغرض سبھی کرشمے اقتدار اور اختیار کے ہی ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ سارے جھگڑے ہی اقتدار اور اختیار کے ہیں ورنہ ملک و قوم کی پروا کسے ہے؟
دوسری طرف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے فیصلوں پر دھمالیں ڈالنے اور شادیانے بجانے والے آج عدالتی فیصلوں پر صف ماتم بچھائے بیٹھے ہیں۔ شریف خاندان سمیت ان کی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں اور قریبی سرکاری بابوؤں کے خلاف کیسز اور گرفتاریوں پر صبح شام درجنوں مائیک سجائے پریس کانفرنسز کرنے والوں آج اُنہی حالات کا سامنا ہے۔ صوفی شاعر میاں محمد بخشؒ کا کیا خوب کلام ہے: ؎دشمن مرے تے خوشی نہ کریے سجناں وی مر جانا۔ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے ادوار ہوں یا نواز شریف کے‘ 1988ء سے لے کر 1999ء تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے لے کر کچلنے اور زیر عتاب رکھنے کے چکر میں عرصۂ حکمرانی گنوانے والوں نے راج نیتی کو اکھاڑا ہی بنائے رکھا۔ جھوٹے سچے مقدمات سے لے کر قید و بند کی صعوبتوں سے مخالفین کو دوچار کرنے کے علاوہ کیسے کیسے ریاستی جبر اور ہتھکنڈے آزمائے جاتے رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں جلاوطنی پر مجبور دونوں پارٹیاں اقتدار کے ہجر میں بے حال تھیں‘ طویل ہوتی جلاوطنی دونوں جماعتوں کی قیادت میں ناختم ہونے والے فاصلے مٹانے کا نہ صرف باعث بنی بلکہ اس سوچ کو بھی تقویت ملی کہ ہم اصل سٹیک ہولڈر کھیل سے باہر ہیں اور ہماری ہی جماعتوں کی بی اور سی ٹیم پرویز مشرف کے ساتھ شریکِ اقتدار ہو کر موجیں اور مزے لوٹ رہی ہے۔ یہی سوچ اور تھیوری ناصرف میثاقِ جمہوریت کا باعث بنی بلکہ دونوں جماعتوں میں کئی دہائیوں سے جاری مخالفت اور شدید بغض و عناد کے خاتمے کا سبب بھی بنی۔
عام انتخابات کی گہما گہمی بڑھی تو بے نظیر بھٹو میثاقِ جمہوریت کرکے پاکستان واپس تو آگئیں لیکن ان کی وطن واپسی سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کو اپنے رَنگ میں بھنگ پڑتا محسوس ہونے لگا۔ دوسری طرف بے نظیر بھٹو کو ملنے والی پذیرائی اور عوام سے بھرے جلسے جلوسوں نے اس طرح پریشان کر ڈالا کہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی سرگرمیاں خطرہ محسوس ہونے لگیں۔ حکومتِ وقت نے انہیں تنبیہ کی کہ ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں‘ اس لیے وہ اپنی سرگرمیاں محدود اور جلسے جلسوں سے گریز کریں۔ بے نظیر بھٹو نے پروا کیے بغیر سیاسی سرگرمیاں مزید بڑھا دیں‘ البتہ انہوں نے یہ ضرور بھانپ لیا تھا کہ ان کی زندگی کو خطرہ شرپسند عناصر سے نہیں بلکہ وارننگ دینے والوں سے ہے۔ اسی خدشے کے تحت بے نظیر بھٹو نے اپنی غیرطبعی موت کے ذمہ داروں کا تعین زندگی میں ہی کر ڈالا تھا۔ وہ کراچی کے ایک بڑے عوامی اجتماع میں بم دھماکے سے بال بال بچ گئیں۔ محتاط اور خوفزدہ ہونے کے بجائے بے نظیر بھٹو نے اپنا سیاسی سفر مزید تیز کر ڈالا اور بالآخر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں عظیم الشان جلسہ سے واپسی پر وہ اُس اندھی گولی کا نشانہ بن گئیں جس کا استغاثہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی دے ڈالا تھا۔ بے نظیر کی ناگہانی موت نے منظر نامہ ہی اُلٹ کر رکھ دیا‘ برسرِ اقتدار پارٹی کے پاؤں ایسے اُ کھڑے کہ دیکھتے ہی دیکھتے حکمران جماعت کے لہراتے ہوئے جھنڈے ڈھونڈے نہیں ملتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور باقاعدہ آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آگئی تو دوسری طرف انتخابات سے بائی کاٹ کرنے والی مسلم لیگ (ن) کو بھی انتخابی میدان میں اترنے پر قائل کر لیا گیا۔ نئے منظرنامے اور میثاقِ جمہوریت کے تحت نواز‘ زرداری اس طرح بھائی بھائی بنے کہ ایک دوسرے پہ واری واری جاتے اور بلائیں لیتے نظر آتے تھے۔
اس ساری تمہید کا مقصد تاریخ دہرانا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ باور کروانا ہے کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد اور دشمنی بنائے رکھنے کے سبھی تجربات کی آگ نے ملک بھر کو انگار وادی بنا ڈالا ہے‘ بالخصوص انصاف سرکار نے مذاکرات‘ افہام و تفہیم سمیت تحمل‘ برداشت اور رواداری جیسے سیاسی اوصاف کو تو یکسر خارج ہی کر ڈالا تھا۔ اس پر بھاؤ بڑھانے والے مصاحبین سمیت وزیر اور مشیر ایسے میسر آگئے جنہوں نے اختلافات کی چنگاریوں کو وہ ہوا دی کہ جابجا الاؤ ہی بھڑکا ڈالے۔ مخالفین کو مسلسل زیر عتاب رکھنے کی خواہش کیساتھ بدزبانی اور بدکلامی کی بدعت کو سرکاری طور پر وہ دوام بخشا گیا کہ عمران خان سمیت کیا وزیر‘ کیا مشیر سبھی ایسی زبان استعمال کرتے دکھائی دیے جو اخلاقیات کے منافی اور منصب کے شایانِ شان ہرگز نہیں تھی۔
آج وطنِ عزیز کے چیلنجز کو یکسر نظر انداز کرکے راج نیتی کا دنگل پھر لگایا جا رہا ہے۔ نفرت‘ عناد اور دشمنی کے ایسے ایسے روپ بہروپ سامنے آرہے ہیں کہ تصادم اور خونریزی کے خدشات بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ انتخابات بھی ہو جائیں گے‘ مطلوبہ نتائج اور اہداف بھی حاصل کر لیے جائیں گے لیکن انگار وادی یونہی دہکتی رہے گی اور دھواں اُٹھتا رہے گا۔ موافق اور غیرموافق کی تھیوری کے ساتھ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بنایا جاتا رہے گا۔ ماضی کی سبھی بدعتیں دوام پکڑتی رہیں گی۔ سبھی سماج سیوک نیتا حصولِ اقتدار اور طولِ اقتدار کے لیے ضرورتوں کی دلالی کرکے عوام کو اس آگ کا ایندھن بناتے رہیں گے۔ تعجب ہے! کوئی ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار ہے نہ مستقبل سے خائف‘ کون نہیں جانتا کہ مملکتِ خدا داد میں زیر عتاب کو زیرِ کرم آتے دیر لگتی ہے نہ زیر کرم کو عتاب کا شکار ہونے میں‘ زندان سے ایوان اور ایوان سے زندان کے سفر چٹکیوں میں طے ہونے کے کرشمات دیکھ کر بھی ہوش کرنے کے بجائے سبھی مغالطے میں ہیں۔