ماضی میں عدالتی فیصلوں کی زد میں آکر نااہل ہونے والے اہل ہو چکے ہیں۔ مملکتِ خداداد میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں‘ راج نیتی کے اس کھیل میں مقبولیت سے کہیں زیادہ قبولیت اہم ہے۔ اشرافیہ کی اہلیت اور نااہلی وقت اور ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ ناخوب خوب ہوکر زندان سے ایوان میں آ بیٹھتے ہیں اور ایوانوں میں براجمان زندانوں کے مکین بن جاتے ہیں۔ شاید یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ حکمرانی طے پا جائے تو نااہل بھی اہل ہو جاتے ہیں اور نصیب بگڑنا ٹھہر جائے تو حکمرانی یوں اُڑن چھو ہوتی ہے گویا کسی نے جادو کر دیا ہو۔ جمہوری حسن کے لشکارے کسی کو خاک بنا ڈالتے ہیں تو کسی کو زر کر دیتے ہیں۔ راج نیتی کے کھیل تماشوں کو دیکھ کر وہ کوزہ گر یاد آتا ہے جس کے ایک طرف گندھی ہوئی مٹی کا ڈھیر پڑا ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ اپنی اُنگلیوں اور ہتھیلیوں کے کمالات سے قسم قسم کے برتنوں کے ڈھیر لگا ڈالتا ہے اور ہاں اگرکوئی برتن اس کی مرضی اور پسند کے مطابق نہ بنے تو بنے بنائے برتن کو دوبارہ مٹی میں ملا کر برتن سے مٹی بنا دیتا ہے۔ راج نیتی کے اس کھیل میں سبھی مٹی سے برتن اور برتن سے مٹی بنتے چلے آئے ہیں مگر لوٹا واحد شے ہے جس کی اہمیت ہر دور میں یکساں اور برقرار رہتی ہے‘ باقی برتنوں کے سائز اور ڈیزائن حسبِ ضرورت بدلتے رہتے ہیں۔ کس کو کتنے سائز میں اور کس ڈیزائن میں بنانا ہے‘ یہ ہنر تو کوزہ گر ہی جانتا ہے۔ البتہ جگاڑ اور جدّت کے تجربے اکثر برتنوں میں برابر جاری ہیں‘ جس طرح مٹکے کو اَپ گریڈ کرکے واٹر کولر کی ٹوٹی لگانے کا عمل ہو یا ہوبہو واٹر کولر کی طرز پر بنایا جانے والا گھڑا‘ پیالوں کی جگہ مٹی کے گلاس اور طرح طرح کے چمچے کوزہ گری کے فن کا کرشمہ ہیں۔
ایک طرف نااہلی ختم ہو رہی ہے تو دوسری طرف اہلیت داؤ پہ لگی ہوئی ہے۔ کہیں سارے آپشن کھلے‘ راستے ہموار اور ماحول سازگار ہے تو کہیں لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ حسرت بنتا چلا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) انتخابات کے لیے بے تاب ہونے کے باوجود انجانے خطرات کا شکار ہیں‘ ایک طرف پی ٹی آئی کا دھڑکا ہے تو دوسری طرف نگرانوں کی طویل حکمرانی کے مزید طوالت اختیار کرنے کا خدشہ۔ اس تناظر میں دور کی کوڑی لانے والوں کی تھیوری یہ ہے کہ دو بڑی سٹیک ہولڈر سیاسی جماعتیں عجیب کشمکش کا شکار ہیں۔ ایک طرف الیکشن کے بعد کا منظرنامہ خاصا پریشان کن ہے تو دوسری طرف مزید تاخیر الیکشن کو لمبے عرصے کے لیے کھٹائی میں ڈالنے کا باعث بن سکتی ہے۔ گویا دونوں بڑی پارٹیوں کو بخوبی احساس ہے کہ وہ ایک دوسرے کی حریف بن کر پی ٹی آئی کو الیکشن میں ناک آؤٹ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں۔ اگر لیول پلینگ فیلڈ کو صرف اپنی حد تک رکھنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو اس کا ردِ عمل کہیں شدید تو کہیں غیر متوقع بھی ہو سکتا ہے‘تاہم پی ٹی آئی کے بڑے پلیئرز کے کاغذاتِ نامزدگی نامنظور ہونے سے بھی وہ استفادہ دور دور تک نظر نہیں آرہا جس کی یہ سبھی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ بلّے کا نشان چھن جانے کے بعد بچے کھچے کھلاڑی بلّے کے بغیر بھی کھیلنے کے لیے آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتخابات کا نیا شُبھ مہورت نکالا گیا تو نگرانوں کی مزید لاٹری لگ سکتی ہے۔
پنجاب میں تو من مانی طرزِ حکمرانی پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کے لیے انتخابی معرکے کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے کا باعث بنتی چلی جا رہی ہے۔ بیشتر پالیسیاں اور اقدامات عوام میں بد دلی کو ہوا دینے کے علاوہ انتخابی امیدواروں کے لیے بھی مشکلات کا باعث ہیں۔ جہاں ان حالات میں انتخابات سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا کٹھن اور محال ہے وہاں نگران حکومت کو پلیٹ میں رکھ کر مزید حکمرانی پیش کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ گویا موجودہ سیاسی منظرنامہ روز بروز خاصا گمبھیر معمہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ سبھی سیاسی جماعتوں کے لیے اقتدار کوکھٹّے انگور بنایا جا رہا ہے‘ کہیں اُچھل کود اور لپکنے کے باوجود کسی کا ہاتھ نہیں پڑ رہا تو کوئی انگور کھٹّے نکلنے کے خدشے سے گھبرایا ہوا ہے۔ اس ڈرامائی صورتحال کا مزہ اور فائدہ صرف نگران اٹھا رہے ہیں۔ اُسے اس بحران کی پروا ہے نہ انتخابات کروانے کی فکر۔ ماورائے آئین حکمرانی میں متوقع توسیع نگرانوں کیلئے یقینا اچھا شگون ہے۔ ملک بھر میں لگے سرکس میں روز نئے آئٹم شامل ہو رہے ہیں‘ بازیگر عوام کو وہ کرتب دکھا رہے ہیں جو کبھی دیکھے نہ سنے۔
راج نیتی کے سبھی مہرے اور پیادے اپنے اپنے شوق اور حسرتیں پوری کرنے آئے ہیں‘ بندہ پروری اور بندہ نوازی سے لے کر سینہ زوری اور دیدہ دلیری کی کیسی کیسی داستانیں گورننس اور میرٹ کے معانی الٹانے کا باعث ہیں۔ حلقہ بگوشوں اور عرض گزاروں کے درمیان بھی خوب مقابلے کا سماں ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی دوڑ میں کوئی وزیراعلیٰ کو اَپ گریڈ کرکے وزیر اعظم بنانے کی پیش گوئیاں کر رہا ہے تو کوئی دانشوری کے زور پر اس ماڈل کو منطقی اور قابلِ عمل ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عجب تماشا لگا ہوا ہے‘ رسیدی کالموں اور تجزیہ نگاری کے علاوہ سوشل میڈیا پر فدویانہ پوسٹوں نے ایک بازار گرم کر رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ مملکتِ خداداد میں صرف حکمران ہی اہل ہوتے ہیں۔ ان کے مخالفین‘ بالخصوص عوام تو سرے سے نااہل ہوتے ہیں۔ عوام اگر کسی جوگے اور اہل ہوتے تو ان پر شوقِ حکمرانی کے اتنے تجربات کیونکر ممکن ہوتے؟ ماضی کے حکمران ہوں یا دورِ حاضر کے‘ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلے پائے گئے ہیں۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں مسلط ہونے والے حکمرانوں کے ساتھ کوئی جھوٹا سچا مینڈیٹ اور حکمرانی کا لولا لنگڑا جواز ضرور ہوتا تھا لیکن نگرانوں کے پاس تو کوئی منطق ہے نہ جواز۔ ماورائے آئین حکمرانی کے روپ بہروپ اور بھید بھاؤ اس طرح کھل چکے ہیں کہ قانونی تقاضوں اور اخلاقی اقدار سمیت سبھی بھرم ٹوٹ چکے ہیں۔
دورِ آمریت میں بھی نظریۂ ضرورت کے تحت کسی نہ کسی ڈھکوسلے اور ڈھونگ کو حکمرانی کا جواز بنا کر شوقِ حکمرانی ضرور پورے ہوتے رہے ہیں لیکن اس عہد میں تو نظریۂ ضرورت کی بھی ضرورت شاید باقی نہیں رہی۔ محض انتخابات کے لیے بننے والے عبوری سیٹ اَپ اَپ سیٹ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ جہاں آئین گم سم‘ قانون خاموش‘ ضابطے حیران اور اخلاقی اقدار تار تار ہوں وہاں کون سا مینڈیٹ‘ کہاں کی حکمرانی۔ تعجب ہے! عوام پر حکمرانی کے لیے سبھی فیصلوں اور اقدامات میں عوام ہی مائنس ہوتے ہیں۔ یہ سبھی تو مائنس ہو کر بھی پلس ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ ناخوب بھی خوب بن جاتا ہے‘ نااہل بھی اہل ہو جاتا ہے۔ راج نیتی کا یہ کھیل اب وہ گورکھ دھندا بن چکا ہے جس میں سبھی برابر جھوم رہے ہیں۔ کل کے دوست آج کے دشمن‘ آج کے دوست کل کے دشمن بن کر عوام کو نچائے اور گھمائے چلے آرہے ہیں۔ حکمرانی عوام کے نام پر‘ منصوبے عوام کے نام پر‘ اصلاحات عوام کے نام پر‘ اقدامات عوام کے نام پر لیکن اس تماشے میں اصل اور حقیقی سٹیک ہولڈر عوام ہی مائنس کیوں ہوتے ہیں؟