آج کا عہد نہ تو محمد بن قاسم کا عہد ہے اور نہ ہی یہ محمود غزنوی کا زمانہ ہے۔ آج کے عہد کی تشکیل کے لیے مسلمان اقوام کو نئے نظام زندگی اور نئے افکار و نظریات کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ آج کے عہد میں مسلمان اقوام اور خصوصاً ان کے مذہبی مفکر‘ ان کے معلّم اور ان کے طالب علم موجودہ عہد کے علم و دانش کے تقاضوں پر پورا نہیںاترتے‘ وہ اپنی ہر فکری کم مائیگی کا حل ماضی میں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ان کو اس بات کا ہرگز ادراک نہیں ہوتا کہ ماضی لوٹ کر نہیں آیا کرتا۔ گزرے وقت کی طرح ماضی پرست لوگ اپنے قدیم افکار کی بنیادوں پر جدید مسائل حل کرنا چاہتے ہیں جو ایک ناممکن بات ہے۔ ماضی پرستوں کا مسئلہ اور مصیبت یہ ہے کہ ان کے فکر و کردار کا موجود لمحے اور وقت کے ساتھ تصادم برپا رہتا ہے۔وقت اپنی پوری رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ماضی پرست ایک ہی جگہ پر جامد و ساکت ہو جاتے ہیں۔ وقت آگے نکل جاتا ہے‘ یہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان کے خیالات منجمد ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ ماضی کی شادمانیوں اور کامرانیوں کے نشے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جن شادمانیوں اور کامرانیوں میں ان کا عملی طور پر کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ ماضی پرستی کا یہ نشہ انسانوں سے زندگی کی حرکت چھین لیتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے زندگی کے جدید اور نئے خیال و فکر کے لیے متحرک ہونا بہت مشکل بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانشوروں اور مفکروں نے ماضی کو مردہ اور حال کو زندہ کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی کے آگے بڑھنے کا نام مستقبل ہے۔مستقبل کی طرف کوئی مردہ چیز گامزن نہیں ہوسکتی۔ زندہ انسان ہی آگے قدم بڑھا سکتے ہیں۔ معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب ’’تاریخ کی آواز‘‘ میں امریکہ کی آزادی کے بارے میں امریکہ کے دانش وروں اور حکمرانوں کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں نظریات کا نقشہ یوں پیش کرتے ہیں۔ امریکہ کی آزادی کے شروع کے ایّام کادانشور آر۔ ڈبلیو لوئس لکھتا ہے کہ ہماری قومی آزادی کے دن سے ایک نئی تاریخ کی ابتدا ہوئی ہے۔ہماری نئی تاریخ کی ابتدا نے ماضی سے جدا کرکے ہمارے رشتے مستقبل کے ساتھ باندھ دیئے ہیں۔ اب ہماری پہلی خواہش ہے کہ ہمیں ماضی کے مردہ خیالات اور واقعات سے آزاد ہو کر مستقبل کو اپنی فکر کا محور بنانا ہے۔ امریکہ کے ہی ایک حکمران سیاست دان جیفرسن کا کہنا تھا کہ ماضی ایک مردہ خانہ ہے لہٰذا مردہ لوگوں کو زندوں پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ زندگی کے لیے نئے اور تازہ افکار ہی بروئے کار آسکتے ہیں۔ پرانے افکار ایک سبق اور تجربہ تو بن سکتے ہیں مگر وہ مستقبل کی زندگی کا عملی مشاہدہ نہیں بن سکتے۔ مثال کے طور پر جن طبقات کاماضی اچھا نہیں تھا ماضی پرستی ان کے حال اور مستقبل بھی ناخوشگوار بنا ڈالے گی۔ ان کے ذہنی افکار میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی‘ جو ایک خطرناک بات ہے۔ اسی لیے عظیم مفکر کارل مارکس نے کہا تھا کہ زمانہ حال کو ماضی سے دور رکھنا چاہیے۔ اس نے کہا تھا کہ زندگی کی اصل جدوجہد یہ ہے کہ لوگوں کو ماضی کے بوجھ سے نجات دلائی جائے تاکہ لوگ حال کے تقاضوں کے مطابق سوچنے ا ور سمجھنے کے قابل بن سکیں۔ لوگ اپنے حال میں جو عمل کریں گے۔ وہی عمل ان کے مستقبل کا ضامن ہوگا۔ واضح رہے کہ ماضی ایک گھپ اندھیرا ہے اور مستقبل ایک تابناک روشنی کا نام۔ روشنی اور تازہ فکر انسانوں کو تحقیق اور مشاہدے کی دعوت دیتی ہے۔ انسانوں کو حالات کے مطابق متحرک کرتی ہے۔ انسان اپنے وقت سے آگے کا سوچنے لگ جاتے ہیں۔جس کی رو سے انسان نئی سے نئی دنیا آباد اور ایجاد کرنے لگ جاتے ہیں۔ انسانی زندگی کا اصل فلسفہ لوگوں کو عمل پر آمادہ کرتاہے۔ ان میں زندگی کی روح پھونکتا ہے۔ ان کے اندر توانائی پیدا کرتا ہے۔ ماضی پرستی کا فلسفہ غیر متحرک اور بے جان بنا ڈالتا ہے۔ ماضی کے خطبے اور وعظ انسانوں کو ڈھانچے بنا ڈالتے ہیں؛ چنانچہ زندگی کا سب کچھ خدا اور تقدیر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ انسانوں کو دعائوں کا عادی بنا دیا جاتا ہے کہ اے خدا فلسطین کو آزاد کر۔ اے خدا کشمیر کو آزاد کر۔ وغیرہ غیرہ۔ پھر لوگ اپنی تمام ذہنی توانائیاں ماضی کے تصورات میں گم کردیتے ہیں اور نئی ایجادات اور نئی تخلیقات سے ذہنی طور پر محروم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے جدید دنیا کے ساتھ ان کا تصادم برپا ہوجاتا ہے۔ وہ ہر نئی چیز کو بدعت قرار دے دیتے ہیں۔ ہر ایجاد کو اپنی سوچ کے خلاف خیال کرتے ہیں۔ ہمارے پیغمبرپاکؐ نے اہل ایمان کو سب سے پہلے ماضی پرستی سے ہی باہر نکالا تھا۔ لوگ اپنی بیٹیاں زندہ درگور کردیتے تھے۔ آپ ؐنے ایسا کرنے سے منع کردیا تھا۔ لوگوں کی زندگی کو ایمان کی روشنی سے منور کردیا تھا۔ مدینہ منورہ میں مختلف مذاہب کی اقوام کے ساتھ میثاق امن قائم کیا تھا۔ نبی پاکؐ نے انسانی زندگی کی عظمت میں اضافہ کرنے کو اصل جہاد قرار دیا۔ ہم ان کے اس قولِ زرّیں کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا پڑے۔ حضور پاکؐ کا یہ فرمان ہماری تمام مشکلیں حل کردیتا ہے۔ آج دنیا مستقبل کی زندگی گزار رہی ہے‘ جس میں سائنس کے معجزے اور کرشمات برپا ہو رہے ہیں۔ ہر شخص موبائل فون کی شکل میں الہ دین کا چراغ ہاتھ میں لیے گھوم پھر رہا ہے۔ اڑن طشتریوں کی کہانیاں طیاروں اور سیاروں کی شکل میں وجود میں آ چکی ہیں۔آج کی ماضی پرستی سورج کے خلاف جنگ کے مترادف ہے‘ کیونکہ آج خلائوں کو تسخیر کرنے کی دنیا ہے۔ یہ حالات کے رحم و کرم پر زندہ رہنے کی دنیا نہیں۔ آج کی رفتار کا مقابلہ رفتار سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ طالبان جو امریکہ کے خلاف اپنے جہاد کی شکل میں برسر جنگ ہیں، وہ امریکہ کے ڈرون جہاز دیکھ کر سوچنے پر مجبور کیوں نہیں ہوتے کہ ان کے پاس ایسے جہاز ہونے چاہئیں جو امریکہ کو دکھائی ہی نہ دیں۔ مگر ایسا وہ علم کی گہرائیوں میں اُتر کر ہی سوچ سکتے ہیں۔