عرب بہار اور خون ریزی

بہار عرب کی اصطلاح پڑھنے اور سننے میں خوش کن اور خوشنما محسوس ہوتی ہے۔ لفظ بہار اپنے اندر زندگی کی بڑی لطیف علامتیں رکھتا ہے‘ جو ہمیشہ موسمِ خزاں کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو زبان کی معروف لغت فیروز اللغات میں لفظ بہار کے معنی اس طرح ہیں: پھول کھلنے کا موسم، بسنت رت، لطف و رونق، خوشی، شباب، سرسبزی اور شادابی۔ واضح رہے کہ لفظ بہار اپنے ان تمام خوش رنگ اور خوش نما معنوں میں اس وقت جلوہ افروز ہوتا ہے جب خزاں کی موسمی غارت گری اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔تب خزاں رسیدہ خشک شاخوں پر نئے برگ و بار دوبارہ پھوٹتے ہیں‘ پھول کھلنے لگتے ہیں اور غنچے مہکنے لگتے ہیں۔ انسانوں سمیت ہر ذی روح کی زبان پر آمدِ بہار کے ترانے ہوتے ہیں۔ پرندوں کی چہچہاہٹ میں خوشی کی آوازیں ہوتی ہیں‘ مگر بہار سے پہلے خزاں کا موسم بہت خوں ریز ہوتا ہے۔وہ پھولوں کی رگوں سے خون نچوڑ ڈالتا ہے۔ پتے پتے کا خون پی جاتا ہے اسی باعث خزاں کو سفاک اور زہریلا موسم کہا جاتا ہے۔ گلشن کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے۔ ایک طرح بہار کے موسم میں گلشن کو نئی زندگی نصیب ہوتی ہے۔ یہ سب باتیں میں نے اس لفظ بہار کے بارے میں تحریر کی ہیں جس کا تعلق گلشن یا موسم کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ لفظ بہار سے عرب بہار کی اصطلاح کیوں بنائی گئی؟ یہ قابل غور بات ہے۔ عرب بہار بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح پینٹاگون کے دانشوروں نے عرب ممالک کے لیے وضع کی‘ جن کے نزدیک عرب ممالک خزاں زدہ ہیں۔ جن میں تبدیلی لانا از حد ضروری ہوچکا ہے۔ ان کی ’’خزاں زدگی‘‘ سے مراد عرب ممالک میں جمہوریت نہ ہونے سے ہے۔ ان کے نزدیک عرب دنیا میں بادشاہوں کے راج‘ سلطانوں کی سلطنتیں‘ خاندانی حکمرانیاں اور شیوخ کی ریاستیں اور شخصی حکومتیں خزاں کی طرح ہیں۔ لہٰذا پنٹا گون نے بہار عرب کا خوبصورت نعرہ لگا کر ان خزاں زدہ حکومتوں کو ختم کرنا اور ان کی جگہ جمہوریت کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ بلکہ پورے عالم اسلام کو مشرف بہ جمہوریت کرنا ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی دنیا میں جمہوریت کی بہار لانے کا کام امریکہ کی اتحادی افواج نیٹو کے ذمہ ہے۔ جس میں یورپ کے تمام ممالک دامے‘ درمے اور سخنے شریک ہیں؛ چنانچہ بہار عرب کو لانے کے لیے توپوں ٹینکوں اور طیاروں سے ان ممالک کے عوام پر بارود کی گل پاشی کی جارہی ہے۔ کسی دانش ور نے کہا تھا کہ پھانسی کے تختے پر گھاس نہیں اُگا کرتی اور جنگ کے میدان میں پھول نہیں کھلا کرتے۔ پینٹا گون نے جدید ترین مہلک ہتھیاروں کی اس جنگ کو بہار کا نام دے کر جس خزاں کو آمریت اور غیر انسانی حکومتوں سے تشبیہ دی ہے‘ وہ تشبیہ علامتی حد تک تو تصور میں لائی جاسکتی ہے مگر جو تباہی کا کاروبار پینٹاگون کی فوجیں اسلامی ممالک کے شہروں اور علاقوں میں کررہی ہیں۔ اسے ہرگز ہرگز اس خزاں سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی جس خزاں کا تعلق موسم کی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی باغ کو تباہ و برباد کرنے کے لیے نہیں آتی۔ موسمی خزاں سے کبھی بھی باغ کے درخت جل کر سیاہ نہیں ہوجاتے۔ پرندے جل کر راکھ نہیں ہوجاتے۔ کوئی گلستان صفحۂ ہستی سے نہیں مٹ جاتا۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کی بہار کا کردار ملاحظہ ہو: افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ عراق کو جلا کر کوئلہ بنا دیا گیا، مقدس مقامات کی بارود سے بے حرمتی کی گئی، بزرگوں کے مقبروں کو آگ میں جھونک دیا گیا۔ کھجوروں اور انجیر کے باغات بھسم کر دیئے گئے۔ ہمارے وانا اور وزیرستان میں شہد کی مکھیاں بارود سے ناپید کر دی گئیں۔ تمام مرغزار جلا دیئے گئے، لاکھوں ہزاروں انسانوں کا خون کر دیا گیا۔ ہزاروں انسان کو اپاہج بنا دیا گیا۔ ہزاروں بچوں کو یتیم اور ہزاروں عورتوں کو بیوہ بنا دیا گیا۔ یہ ہے وہ پینٹا گون کی بہار جس کا شہرہ ان دنوں مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں ہے۔ شام سے پہلے یہ بہار عرب لیبیا پر آئی تھی‘ ہم قطعی طور پر قذافی کی شخصی حکومت کے حق میں نہیں لیکن یہ معاملہ اہل لیبیا کا تھا۔ امریکہ کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اقوام کی خود مختاری کے عالمی قانون کو پامال کرکے قذافی پر ٹوٹ پڑے۔ صدام حسین کی پھانسی اور قذافی کی ہلاکت امریکہ کے نعرے عرب بہار کے کس زمرے میں آتی ہے؟ عراق اور لیبیا کی طرح اب امریکہ شام پر عرب بہار نازل کرنے والا ہے۔ امریکہ کی یہ عرب بہار کی جنگ اقوام متحدہ کے چارٹر کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یہ عالمی دہشت گردی ہے جسے امریکہ بہار عرب کا نام دے رہا ہے۔ انسان کُشی کی اس جنگ نے امریکہ اور اس کے دوسرے مسیح اتحادیوں کو حضرت مسیح علیہ السلام کا مجرم بنا دیا ہے انہوں نے مسیحیت کو عالمی دہشت گردی اور ہلاکت خیزی میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج اسلامی ملک شام پر بھی وہی الزامات ہیں جو اس سے پہلے صدام حسین اور معمرقذافی پر لگائے گئے تھے جو بعد میں خود امریکہ کے مطابق غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ امریکہ کی اس بے لگام جنگ کو کسی صورت میں بھی جمہوریت کی خدمت نہیں کہا جاسکتا۔ آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ ظلم کو ظلم کے ذریعے نہیں مٹایا جاسکتا۔ تاریکی کے ذریعے روشنی نہیں لائی جا سکتی۔ زہر کا نام تریاق نہیں رکھا جاسکتا۔ اسی طرح انسانی خون کی ہولی کو عرب بہار نہیں کہا جاسکتا۔ کسی جنگ اور دہشت گردی کو صلیبی جنگ کا نام دے کر مقدس نہیں بنایا جاسکتا۔ کسی سراب اور فریب کو بہار کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ مصر کی منتخب جمہوری (انتہا پسند مذہبی) حکومت ختم کرکے فوجی آمریت مسلط کرنے کا نام جمہوریت نہیں ہوسکتا۔ آج مجھے صدام حسین کو پھانسی کے بعد بلائی گئی عرب ممالک کی وہ کانفرنس یاد آرہی ہے جس سے معمر قذافی نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’یہ عراق کے صدر صدام حسین کو پھانسی نہیں دی گئی‘ قذافی کو پھانسی دی گئی ہے؛ لہٰذا یاد رکھو! تم سب کو پھانسی دی جائے گی۔ ہم سب کے قتل کو آمریت سے نجات کہا جائے گا‘ جمہوریت کی آزادی کہا جائے گا‘‘۔ تب شام کے صدر بشار الاسد مسکرا رہے تھے۔ شاید ان کو اس دیوانے کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ امریکہ کی یہ عرب خونی بہار صرف عرب کے حکمرانوں کو قتل نہیں کررہی یہ نام نہاد بہار عالم اسلام کے ممالک کی ترقی اور خوشحالی کو تباہ و برباد کررہی ہے۔ امریکہ عالم اسلام کو واپس پتھر کے زمانے میں لا کھڑا کرناچاہتا ہے۔ آج عالم اسلام کے حکمرانوں کو اپنی باری کا انتظار نہیں کرناچاہیے۔ اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ خود جمہوریت کا راستہ اپنا کر امریکہ کا راستہ بند کرنا چاہیے۔ وگرنہ انجام سب کے سامنے ہے ؎ جن کے ہاتھوں سے شفا پاتی ہے ساری دنیا وہ تو عیسیٰ ہوا کرتے ہیں‘ جلّاد نہیں

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں