وزیراعظم میاں نواز شریف کے وزیر مالیات نے پاکستان کے 35قومی اداروں یعنی قومی اثاثوں کی نجی کاری کا اعلان کردیا ہے۔ یہ تمام کاروبار‘ وزیر موصوف‘ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق سرانجام دیں گے۔ آئی ایم ایف کا حکم ہے کہ پاکستان کے وہ تمام مالیاتی سرکاری ادارے جن کو قومی اثاثے کہا جاتا ہے اور جو خسارے کا شکار ہیں ان کو نیلام کردیا جائے اور ان اثاثوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے پاکستان کے قرضے ادا کردیئے جائیں۔ ان اداروں کی نیلامی صاف ظاہر ہے کہ ایک تو پاکستان کے یہ قومی اثاثے پاکستان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے ۔ دوسری اہم بات یہ ہوگی کہ ان اداروں کی نیلامی سے حاصل ہونے والی تمام رقم قرضوں کی ادائیگی کی نذر ہوجائے گی۔ گویا قومی خزانے میں کچھ بھی نہیں آئے گا۔ البتہ عالمی سرمایہ دار اداروں کے دیسی گماشتے سرمایہ داروں کی موج ہوجائے گی۔ وہ فرضی بولی دے کر قوم کے قیمتی اثاثوں کو اونے پونے داموں خرید کرپہلے سے زیادہ دولت مند بن جائیں گے۔ اقتصادی تاریخ شاہد ہے کہ اس طرح کی نیلامی کا سارا فائدہ ملک اور اس کے عوام کونہیں بلکہ خریداروں کو ہوتا ہے۔ ہم وزیر مالیات اور ان کی ٹیم کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف‘ جی ٹونٹی اور جی ایٹ کے استعماری ادارے نئے نہیں ہیں؛ بلکہ یہ عالمی ساہوکاروں کے پرانے اداروں کے نئے نام ہیں‘ جن کا نام ماضی میں ایسٹ انڈیا کمپنی وغیرہ ہواکرتا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج ان استعماری اداروں کا نام تبدیل کرکے انہیں ورلڈ گلوبل اکانومی کا جدید نام دے دیا گیا ہے اور پوری دنیا کو اس عالمی اقتصادی دہشت گردی کے ادارے کے لیے ایک کھلی منڈی بنادیا گیا ہے‘ جسے یورپ کی تمام حکومتوں کی تائید اور حمایت حاصل ہے اور اسے یورپ کے تمام بڑے بڑے سرمایہ دار چلاتے ہیں‘ جن کی حیثیت دنیا کے معاشی نظام میں مگرمچھوں کی سی ہے۔ یہ ادارے دنیا کے غریب ممالک کی معیشت کو چھوٹی مچھلیاں سمجھ کر ہڑپ کر رہے ہیں۔ سرمایہ دار سامراجی ممالک کا اب طریقۂ واردات جنگ کرنا نہیں تجارت کرنا بن گیا ہے۔ یہ عالمی ادارے ماضی میں بھی تجارت کے ذریعے ہی غریب ممالک پر قبضہ جماتے رہے ہیں۔ ان اداروں کی تمام نج کاری اور سودے بازی کا تمام کاروبار ماضی میں بھی دنیا کے نااہل حکمرانوں کی عیش پسندی اور کرپشن سے چلتا تھا۔ ایسے ہی اقتصادی امور سے نابلد حکمران ملکوں کے مقدر اور عوام کی تقدیریں فروخت کردیا کرتے ہیں۔ مصر کے شاہ اسمٰعیل نے 1882ء میں صرف چالیس لاکھ پونڈ کے عوض نہرسویز کے حصص برطانیہ کو بیچ دیئے تھے۔ اسی طرح ایران کے شاہ ناصر الدین قاچار نے بہت معمولی رقم کے عوض ایک ٹیلی گراف برطانوی کمپنی کو ٹیلی گراف لائن بچھانے کی سہولیات دی تھیں‘ جس سے انگریزوں کے جنوبی ایشیا میں مواصلاتی رابطے قائم ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ ایران کے اسی حکمران نے صرف پندرہ ہزار پونڈ کے عوض پورے ایران کی تمباکو کی کاشت برطانیہ کے سپرد کردی تھی۔ بظاہر مصر کے شاہ اسمٰعیل اور ایران کے حکمران ناصرالدین قاچار نے اداروں کی نج کاری کو ملک وقوم کی ترقی کانام ہی دیا تھا لیکن ان کا خمیازہ بعد میں مصر اور ایران کی قوم کو جنگوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اسی طرح ہندوستان میں انگریزوں کے ریلوے لائن بچھانے کو صرف ہندوستانیوں کا فائدہ کہا گیا تھا۔ اصلاً ریلوے لائن بچھانے سے انگریزوں کے اپنے سیاسی‘ معاشی اور عسکری مفادات وابستہ تھے۔ ہندوستان میں ریلوے لائن بچھانے کے منصوبوں پر تمام سرمایہ ہندوستان کے وسائل سے ہی فراہم کیا گیا تھا‘ مگر برطانوی حکومت کو ابتدائی اخراجات کے لیے برطانوی مالیاتی کمپنیوں سے ایک مختصر وقت کے لیے 5فیصد سود پر قرضہ لینا پڑا تھا۔ جس پر برطانیہ میں بہت شوراٹھا تھا۔ جس پر برطانوی حکومت نے وائسرائے ہندلارڈ ڈلہوزی سے جواب طلبی کی۔ لارڈ ڈلہوزی نے جواب میں منصوبے کی تمام غرض وغائت کو چارنکات میں بیان کرکے مخالفین کا منہ بند کردیاتھا۔ لارڈ ڈلہوزی نے اپنی 1853ء کی سرکاری رپورٹ میں بیان کیا کہ ہندوستان میں ریلوے لائن بچھانا برطانیہ کے اہم ترین مفادات میں ہے۔ اول: برطانوی افواج کی ہندوستان میں نقل وحرکت سُرعت سے ہوگی۔ دوم: برطانیہ کے لیے خام مال کی برآمد میں آسانی ہوجائے گی۔ سوم: برطانوی مصنوعات کے لیے ایک بہت بڑی منڈی دستیاب ہوجائے گی۔ چہارم: برطانوی سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کرنا آسان ہو جائے گا۔ برطانیہ کی اس وقت کی عالمی ساہوکاری کے بارے میں کارل مارکس نے کہا تھا: انگریز قوم کا بڑھتا ہوا معیار زندگی ہندوستان کے مادی وسائل کے استحصال اور ہندوستان کے محنت کشوں کو دی جانے والی افسوسناک حدتک کم اجرت کے طفیل ہے۔ برطانیہ کے بارہ لاکھ مزدوروں کی خوشحالی ہندوستان کے کروڑوں مزدوروں کی موت کا سامان ہے۔ یورپ کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے یہ احوال اس لیے پیش کیے گئے ہیں کہ حکومت نجکاری کرتے وقت انہیں پیش نظر رکھے اور سبق حاصل کرے۔ بعض لوگ قومی اداروں کی نیلامی کو مالیاتی جراحت کا نام دے رہے ہیں۔ ان ’’سرجنوں‘‘ کی دلیل یہ ہے کہ زندگی بچانے کے لیے جسم کا کینسر زدہ حصہ کاٹنا پڑتا ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ کسی انسان کی زندگی بچانے کے حد تک تو اس عمل کو درست قرار دیا جاسکتا ہے‘ مگر پاکستان کے اثاثوں اور اداروں کی لوٹ مار اور استحصال کو کسی طرح بھی اقتصادی مسیحائی کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں نج کاری کے عمل کو عالمی سرمایہ دار مافیا کی لوٹ مار کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے قومی ادارے قومی زندگی کا اہم ترین سرمایہ ہیں۔ ان کو قومی جسد سے کاٹ کر ملک کو زندہ نہیں رکھا جاسکے گا۔ پاکستان کے مالیاتی اداروں کو نوچنے کے لیے عالمی سرمایہ کاری کے گدھ پاکستان پر منڈلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ بھی وہی ہے جو عالمی مالیاتی اداروں کا ہے۔ تاجر حکمران خسارے کی حکومت اور سیاست کرنے کے قائل ہی نہیں ہوتے۔ حکومت کو بھی کاروبار خیال کرتے ہیں۔ ان کی تربیت ہی نفع حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ٹیلی فون کے ادارے کی نج کاری کی گئی جس سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے؛ حتیٰ کہ آج تک بولی کی رقم بھی پوری وصول نہیں ہوسکی۔ خریدنے والا‘ منافع سے قسطیں ادا کرتا چلا آرہا ہے ۔ 1990ء کے عشرے میں بھی کئی قومی مالیاتی اداروں کی نج کاری کی گئی تھی۔ ان اداروں کا خون نچوڑ کر سرمایہ داروں نے انہیں مردہ بناکر بند کردیا ان کی نج کاری کرتے وقت بس یہی کہا گیا تھا کہ اس سے لوگوں کے روزگار میں اضافہ ہوگا؛ جو درست ثابت نہ ہوا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کی نج کاری کی بات کر رہے ہیں اور دعویٰ رکھتے ہیں کہ ان اداروں کی نجکاری سے معیشت صحت مند ہوگی جبکہ یہ درست نہیں ہے۔ حکومت کو بلٹ پروف ٹرین اور دوسرے مہنگے ترین منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجائے بیمار یونٹوں کو تندرست بنانا چاہیے۔ پی آئی اے کے طیاروں میں اضافہ کرکے پی آئی اے کی آمدنی بڑھانی چاہیے۔موجودہ حکمرانوں کا فرض ہے کہ تمام اداروں کو نفع بخش بنائیں اور قومی اثاثوں کی حفاظت کریں۔ اس لیے کہ ان کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے ؎ ہم نے منزل کا راستہ اسلمؔ کیا کسی راہزن سے پوچھا تھا