پہلی بار اُداس دِلوں میں یہ احساس اُجاگر ہو رہا ہے کہ بہکی ہوئی قوم آخرکار درست سمت پہ چل نکلی ہے۔ یہ اَمر کسی منصوبہ سازی کے تحت نہیں ہوا۔ بس حالات بنتے گئے اور ہم یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں کچھ دھیمی سی اُمید لگائی جا سکتی ہے۔
پیرِ کامل صدر ممنون حسین نے ضرور کہا تھا کہ آپ دیکھیں گے کہ کیسی کیسی مچھلیاں پانامہ کے جال میں پھنسیں گی۔ لیکن نہ وہ‘ نہ کوئی اور بشر یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ پانامہ سے اُٹھنے والی ہوائیں ہمارے پاور سٹرکچر کو ہلا کے رکھ دیں گی‘ اور ایک پینتیس سال پہ محیط محدود سوچ کی حکمرانی اپنے آخری دنوں کی طرف چل پڑے گی۔ یہ کوئی لازم نہ تھا کہ مسئلہ سپریم کورٹ کو جاتا۔ شریفوں کو معاملے کی سنگینی کی تھوڑی سی بھی سمجھ ہوتی تو اس کو پارلیمنٹ میں ہی رکھتے اور ہرگز سپریم کورٹ تک نہ جانے دیتے‘ لیکن بھول کے شکار ہوئے۔ ماضی میں بیشتر اوقات اعلیٰ عدلیہ اِن کی خواہشات کے تابع اور معاون رہی تھی۔ یہی یقین تھا کہ اب کی بار بھی ایسا ہی ہو گا۔ یہ اُن کی ناسمجھی تھی‘ کہ آیا چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ وہ کردار ادا کرے گی‘ جو کر رہی ہے۔ اِن کے وہم و گمان میں یہ نہ تھا۔ اب روزمرہ کی بنیاد پہ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ہتھوڑے لگائے جا رہے ہیں‘ جن کی وجہ سے شریفوں کے قلعے کی ان دیواروں‘ جو ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں‘ کو کاری ضربیں لگ رہی ہیں۔
نیب کے سربراہ قمر زمان چوہدری تھے جنہوں نے نیب کو شریفوں کے گھر کی لونڈی بنا دیا تھا۔ کون خیال کر سکتا تھا کہ یہی ادارہ کوئی اور روپ بھی دَھار سکتا ہے؟ قمر زمان چوہدری اور جسٹس جاوید اقبال میں اتنا ہی فرق اور فاصلہ ہے جتنا کہ چاند کا زمین سے۔ وہی ادارہ جو مردہ حالت میں دکھائی دیتا تھا اور جس سے کسی بھلائی کی توقع نہ کی جا سکتی تھی‘ اب ایک مؤثر اور فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کوئی نئی چیزیں دریافت نہیں کیں‘ اور نہ کوئی نئے کیس کھولے ہیں۔ صرف یہ کہ جو معاملات اور کیس گہری قبروں میں دبائے جا چکے تھے‘ اُنہیں نکالا جا رہا ہے۔ نیب کو بحیثیتِ ادارہ یہ حکم دے دیا ہے کہ اِن دفنائے ہوئے معاملات کو جلد نمٹایا جائے‘ چاہے انجام یا فیصلہ کچھ بھی ہو۔
یہ حکم آنا تھا کہ شریفوں کی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی دیواریں تھرتھرانے لگیں۔ احد چیمہ‘ جس سے چیف منسٹر پنجاب کے زیادہ قریب اور کوئی نہ سمجھا جاتا تھا‘ نیب ریمانڈ پہ ہے۔ فواد حسن فواد میاں نواز شریف کے دست راس تھے جن کے ذریعے حکومتی کل پرزوں کو احکامات صادر کیے جاتے تھے‘ اُسے کون ہاتھ لگا سکتا تھا؟ لیکن آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل کیس میں فواد حسن فواد کی بھی نیب پیشی ہوئی ہے۔ چیف منسٹر پنجاب کے داماد علی عمران کو بھی پوچھ گچھ کے لئے نیب لاہور میں طلب کیا گیا تھا‘ لیکن پچھلی تاریخ پہ وہ نہ آئے اور کسی نمائندے کو بھیجا۔ حسن اور حسین نواز پہلے سے ہی مفرور ہیں۔ اسحاق ڈار بھی غائب ہیں۔ مفروروں میں شاید علی عمران بھی اَب شامل ہو جائیں۔
جب میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم تین سال پورے کیے تو ایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہ تھی جو بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ اگلا الیکشن بھی نون لیگ کی جیب میں ہے۔ گویا 2018ء کے الیکشن کے نتائج اَب سے دو سال پہلے ہی اِن پنڈتوں نے دے دئیے تھے۔ آنے والے دِنوں میں کیا صورت بن سکتی ہے‘ اس کا اندازہ شاید ہی کسی کو تھا۔ سپریم کورٹ سے زیادہ اُمید نہ تھی اور جب جے آئی ٹی بنی ہم جیسوں نے سمجھا کہ معاملہ ٹالنے کا یہ ایک بہانہ ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں بھلا ایسی تفتیشوں سے کب کچھ نکلتا ہے؟ یہ ہم جیسوں کی سوچ تھی۔ پھر چلتے چلتے ایسا کچھ ہوا اور جھوٹ کی ایک لمبی داستان ایسے بے نقاب ہوئی کہ سب حیران رہ گئے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ شریفوں کو بھی آنے والے حالات کا اندازہ نہ ہو سکا تھا۔
کچرا صاف ہو رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاء الحق نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ کارنامہ جناب آصف علی زرداری نے خود سرانجام دیا۔ جنرل مشرف نون لیگ کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ عمل اب اور عوامل سے پورا ہو رہا ہے۔ بظاہر نون لیگ کی عوامی طاقت قائم ہے لیکن اس کے وجود میں دراڑیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دیوار پر سے اینٹوں کے گرنے کا سلسلہ زیادہ تو نہیں لیکن شروع ہو چکا ہے۔ آگے جناب محمد بشیر کی احتساب عدالت کا فیصلہ آنا ہے۔ جو بھی فیصلہ آئے ملکی منظر نامے پہ ایک نئی صورتحال پیدا ہو گی۔ پھر چالیس پچاس دنوں بعد حکومتوں کی آئینی مدت پوری ہو جائے گی اور وہ تحلیل ٹھہریں گی۔ اُس سے ایک اور صورتحال کا پیدا ہونا لازمی اَمر ہے۔
نواز شریف کے پاس کچھ نہیں رہا‘ سوائے اس بھونڈے نعرے کے کہ ووٹ کو عزت دو۔ غریب اور لاچار آدمی کی اس معاشرے میں کوئی وقعت اور عزت نہیں۔ جب حکمران بشمول میاں نواز شریف محافظوں کے پہرے میں سڑکوں پہ نکلتے ہیں‘ تو راستے میں کھڑے یا چلتے انسانوں کو کیڑے مکوڑوں سے کم سمجھتے ہیں۔ عام آدمی پولیس اور پٹوار کے نظام سے بیزار ہے۔ کسی دفتر میں کوئی کام رشوت کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ اشرافیہ اور امیر لوگوں کے لئے سکول، ہسپتال نیز ہر چیز الگ۔ اُن کے رہنے اور زندگی گزارنے کے انداز الگ۔ شریفوں کا علاج تو اِس ملک میں ہو ہی نہیں سکتا۔ لندن سے کم فاصلے پہ کوئی ہسپتال گوارا نہیں۔ جائیدادیں باہر، دولت باہر اور نعرہ لگا رہے ہیں ووٹ کو عزت دو۔ عجیب مذاق ہے۔ کہہ رہے ہیں یہ ہمارا بیانیہ ہے اور اس سے پیچھے ہم نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کے امیر ترین اشخاص میں شمار ہے اور فرطِ جذبات میں اپنے آپ کو نظریاتی اور انقلابی گردَانتے ہیں۔
لیکن بات کچھ بن نہیں رہی۔ شہباز شریف کو کچھ سمجھ ہے کہ نون لیگ تباہی کی طرف جا رہی ہے‘ لیکن نواز شریف اور راگ الاپ رہے ہیں۔ جانچ پڑتال جاری ہے، تفتیشیں بھی ہو رہی ہیں، پیشیاں بھی بھگتنی پڑ رہی ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ اپنی آزاد حیثیت میں ایک نیا کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ جو ہر احتساب اور جانچ پڑتال سے بچتے رہے اب احتسابی عمل کے شکنجے میں نہ صرف پھنسے ہوئے ہیں بلکہ اور پھنستے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا‘ جب عدلیہ دباؤ میں آ جاتی تھی اور شریفوں کے لئے راحت اور تسکین کے سامان مہیا کرتی تھی۔ ویسی صورتحال اب نہیں رہی۔ عدلیہ اور ہے اس کے تیور اور ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ قومی منظر نامے پہ جو کچھ ہو رہا ہے آئین اور قانون کے تحت ہو رہا ہے۔ کوئی مارشل لاء نہیں لگا، کسی 111 بریگیڈ نے پاکستان ٹیلی ویژن اور پرائم منسٹر ہاؤس پہ قبضہ نہیں کیا۔ تمام کارروائیاں قاعدے اور قانون کے مطابق چل رہی ہیں۔ جہاں پرانے وقتوں میں نون لیگ سپریم کورٹ پہ باقاعدہ حملہ کر سکتی تھی‘ اب وہ ایسا خیال بھی ذہنوں میں نہیں لا سکتی۔ یہ بدلے ہوئے حالات کی منطق ہے۔
بات تب ہے جب اس ساری افراتفری اور ہلچل سے کوئی بہتری کی صورت نکلے۔ شروع دِنوں سے ہی پاکستان کا بنیادی مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں‘ قیادت کے فقدان کا رہا ہے۔ ڈھنگ کے لوگ میرِ کارواں نہ بن سکے۔ اچھے لوگ بھی آئے لیکن یا کمزور اعصاب کے مالک تھے‘ یا فعالیت میں کمی تھی‘ اور کچھ تو ایسے آئے کہ اُن میں اور ڈکیتوں میں فرق کرنا مشکل ہو جائے۔ قوم کی تقدیر بگاڑ تو گئے کچھ سنوار نہ سکے۔ اب بہتری کی اُمید ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے انجام کو پہنچی۔ نون لیگ برے دنوں میں گھری ہوئی ہے۔ حالات ساز گار ہیں کہ قوم نئی راہیں تلاش کرے اور نئے لوگ سامنے آئیں۔