تھانیداری جو سختی کا ایک دوسرا نام ہے کے بغیر مؤثر حکمرانی ممکن نہیں۔ہمارا معاشرہ سویڈن یا ڈنمارک نہیں۔کئی اعتبار سے یہ اب بھی ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ایسے ماحول میں حکمرانی کیا معنی رکھتی ہے؟فقط یہ کہ مسائل کا صحیح ادراک ہو اور جو فیصلے کئے جائیں اُن پہ عمل درآمد یقینی ہو۔ہمارے جیسے معاشرے میں تھانیداری یا سختی کے بغیر فیصلوں پہ عمل درآمد کرانا صرف مشکل نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔
شرط البتہ یہ ہے کہ تھانیداری عوامی مفاد میں ہو۔یہ نہیں کہ ڈنڈے کا استعمال ذاتی مفادمیں کیا جائے۔جیسے یہاں ہوتا ہے کہ آپ حکمران بھی ہیں اور آپ کا خاندان نوٹ بنانے میں لگا ہوا ہے۔ اس قسم کی تھانیداری کا پرچارہرگز مدعا نہیں۔ تھانیداری ایسی ہوجو بہرحال قواعد و ضوابط کے تابع ہو۔یعنی اگر آپ نے ٹریفک درست کرنی ہے تو ظاہر ہے اقدام آپ کے قانون کے مطابق ہونے چاہئیں اور ان پہ عمل درآمد سختی سے کرایاجائے۔ نہ کوئی زیادتی نہ ہی کسی کے ساتھ رورعایت۔ یہ بات البتہ واضح ہونی چاہئے کہ مؤثر حکمرانی وعظ و نصیحت سے پیدا نہیں ہوتی۔ اس کیلئے اتھارٹی یا طاقت اوپر سے نیچے آتی ہے اور طاقت کے مؤثر استعمال کیلئے یہ امر ضروری ہے کہ جو بھی اوپر بیٹھا ہو... وزیراعظم یا چیف منسٹر‘ تھانے کا سربراہ یا کسی اور ادارے کا سربراہ... اس کے ہاتھ پاؤں مضبوط ہوں اور حکم چلانے کا ڈھنگ اُسے آتا ہو۔
مثال کے طور پہ جب کبھی موقع ملتا ہے پولیس والوں کو دیکھنے کا میں حیران ہوتا ہوں کہ ایک مسئلہ ڈی پی او کے پاس آتا ہے اور بجائے اس کے کہ حالات و واقعات سن کے وہ وہیں فیصلہ صادر کرے وہ مسئلے کو اِدھر اُدھر کر دیتا ہے۔ کسی ڈی ایس پی کو مارک کر دیا یا متعلقہ تھانے کو بھیج دیا۔ اس بھیجنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ نے اس مسئلے کو سردخانے یا کنویں میں ڈال دیا۔ ڈی پی او ضلع کا پولیس سربراہ ہوتا ہے۔ تمام اختیارات اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ کمانڈر ان چیف آرمی بیٹھے بیٹھے کسی حوالدار کو ڈس مس نہیں کر سکتا لیکن ڈی پی او کے پاس اختیار ہے کہ تھانیداروں کو ٹرانسفر یا اُسی وقت معطل کردے۔جب اتنے اختیار ات ہوں تو کارکردگی بھی اس کے برابر ہونی چاہئے۔ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پی ایس پی کے افسران واضح طور کی کرپشن میں ملوث نہیں ہوتے۔ اب جس کا سنو پتا چلتا ہے کہ ضلع کے ٹی اے ڈی اے کے پیسے ذاتی استعمال میںلا رہے ہیں۔ پولیس کا تو میں نے ویسے ہی ذکر کر دیا حالانکہ ہرمحکمے کا یہی حال ہے۔ڈی سی اوز کے بار ے میں بھی عجیب وعجیب کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ نوٹ بنانے میں آپ لگ جائیں تو حکمرانی پھر فرشتے ہی آکے کریں گے۔
جب ہم چھوٹے تھے تو چکوال میں ایک سب ڈویژ نل مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے‘ شیر بہادر۔ چھوٹا سا قد‘ سنگل باڈی۔ لیکن کیا رعب و دبدبہ تھا۔ کوٹھی سے نکلتے تو کوئی پولیس گارڈپیچھے نہ ہوتی۔ نذیر ان کا باورچی تھا اور شام کو اکیلے وہی ان کے پیچھے ہوتا۔ لیکن فٹ پاتھ پہ چلتے تو عوام کو احساس ہوتا کہ حکومت گزر رہی ہے۔ چکوال کی جو مین سڑک ہے اس پہ درخت انہوں نے لگوائے۔ فٹ پاتھ انہی کی تعیناتی میں بنے۔ کمیٹی باغ کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ سخت گیر منتظم تھے۔ پیسے کے لین دین کی کہانیاں اُن دنوں ایسے افسران کے گردنہیں گھومتی تھیں۔یہ خیال بھی ناقابلِ تصور تھا کہ ایس ڈی ایم جیسا افسر کبھی رشوت لینے کا مرتکب ہو سکتا ہے۔
جج ثاقب نثار کے ناقدین بھی بہت ہیں لیکن جوتھوڑا عرصہ انہوں نے ججی کی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ ہمارے ہاں عجیب عجیب فلسفے گھڑے جاتے ہیں کہ قانون کے مطابق یوں ہونا چاہئے اور یوں۔ جس معاشرے میں قانون بڑے لوگوں کی فرمانبرداری میں چلتا ہو وہاں قانون کی نزاکتوں کے معانی کیا رہ جاتے ہیں؟جوہر ٹاؤن لاہور کے نادر کردار منشا بم جس کے خلاف مختلف تھانوں میں متعدد مقدمات درج ہیں اُس کو کیسے جج ثاقب نثار نے نتھ ڈالی تھی۔ دو تین پیشیوں کے بعد منشا بم باقاعدہ رونے پہ آگیا۔ایک بٹ صاحب ہیں جن کا لاہور کے اَنڈرورلڈ میں بڑا نام ہے‘ انہیں بھی ایک پلاٹ کے قبضے کے سلسلے میں جج صاحب کے سامنے پیش ہونا پڑا۔ ان بٹ صاحب کی مشہوری پورے لاہور میں ہے لیکن جج صاحب کے سامنے کھڑے ہوئے تو کوئی اکڑوکڑ نہیں تھی۔ یہ تو ایک دو مثالیں ہیں نہیں توجتنا عرصہ جج ثاقب نثار نے اپنی کچہری لاہور میں لگائی روزانہ کی بنیاد پہ ایسے واقعات اور کیس ان کے سامنے آتے اور وہ تھانیداری طریقے سے ان معاملات کو نمٹا دیتے۔بھلا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کیا کام ہے کہ مشہور اداکارہ بابرہ شریف اور ان کے کسی کرایہ دار کے بیچ مسئلے کو سنیں اور سیٹل کریں۔ لیکن جج صاحب نے بابرہ شریف کی درخواست پہ دونوں پارٹیوں کو بلایا اور معاملہ سلجھا دیا۔ حمزہ شہباز اور اس کی مبینہ اہلیہ عائشہ احد کے درمیان بھی اچھا خاصا سکینڈل بن چکا تھا لیکن جج صاحب نے دونوں کو بلوایا‘ علیحدہ کمرے میں اُن سے بات کی اور دونوں فریق جب باہر نکلے تو معاملہ سلجھ چکا تھا۔
کہنے کا مطلب یہ کہ یہ پاکستان ہے یورپ کا کوئی ملک نہیں۔ یورپ کی نزاکتیں وہاں چلتی ہیں یہاں نہیں۔ یہاں تو ججی ایسی ہو جیسا کہ جناب ثاقب نثار کی تھی۔ کتنے جج آئے اور چلے گئے۔ کتنوں کا نام عوامی حافظے میں رہتا ہے۔ جج رستم کیانی کا نام لوگوں کو یاد ہے چونکہ دبنگ انسان تھے اور نواب کالاباغ کی گورنری میں بھی حق اور کھری بات کہنے سے ہچکچاتے نہیں تھے۔ اے آر کارنیلئس کا نام لیا جاتا ہے کیونکہ چیف جسٹس بھی رہے لیکن کوئی واضح پراپرٹی ان کے نام نہیں تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں رہائش پذیر ہوئے اور غالباً وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ثاقب نثار نے بھی جتنے دن ججی کی دھڑلے سی کی۔ بہت سے لوگوں کو اُن کے فیصلوں سے تکلیف ہوئی لیکن ایسے اقدام بھی انہوںنے لئے جن کی بازگشت دور تک پھیلی۔
دو روز پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین سے ایک شادی کی تقریب میں ملاقات ہوئی۔میں نے اُس دو کنال یونیورسٹی زمین کا پوچھا جو شہباز شریف لے کے کسی دینی جماعت کو دینا چاہتے تھے۔ اورنج لائن ٹرین کے راستے میں اس جماعت کا ایک مدرسہ آتا تھا۔ ان سے خالی کرانے کو کہا گیا تو اُس دو کنال کے بدلے میں اس دینی جماعت نے جین مندر کے ساتھ جو یونیورسٹی گراؤنڈ ہے اس میں سے دو کنال زمین مانگ لی۔ چیف منسٹر صاحب نے ہامی بھر لی۔ لیکن جب وائس چانسلر سے کہا گیا تو وہ اڑ گئے کہ یونیورسٹی کی زمین کیسے دی جاسکتی ہے۔ عہدہ ا نہوںنے چھوڑ دیا لیکن زمین منتقل کرنے کی اجازت نہ دی۔ یونیورسٹی کا سینڈیکیٹ بھی وائس چانسلر کے ساتھ کھڑا رہا اور چیف منسٹر اپنے دانت پیستے رہے۔بالاخر ایک اوروائس چانسلر آئے ڈاکٹر زکریا ذاکر اوروہ یونیورسٹی کی دو کنال اور زمین دینی جماعت کو دینے پہ راضی ہو گئے۔یہ قصہ میڈیا میں آگیا اور اس پہ بڑی لے دے ہوئی۔جج ثاقب نثار نے اس واقعہ کا بھی نوٹس لیا اور وائس چانسلر کی خوب کلاس لی۔دینی جماعت کو کہیں اور سے دو کنال مل گئے لیکن یونیورسٹی کی زمین محفوظ رہی۔
ججی ہو تو ایسی‘ حکمرانی ہو تو وہ بھی ایسی۔یہ کیا ہے کہ حکمران بس بولتے رہیں اور بولنے پہ ہی گزار ا کریں۔